سجاد احمد خان
ریپورہ گاندربل کشمیر
کیا آپ کو معلوم ہے کہ جیسے دنیا کی قیمتی چیزوں کی حفاظت نہ کی جائے تو وہ اپنی افادیت کھو بیٹھتی ہیں‘ اسی طرح اگر اپنے ایمان کی حفاظت اور تازگی کا اہتمام نہ کیا جائے تو وہ بھی اپنے اثرات اور اپنے انورات سے محروم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے مشہور صحابی سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب بھی کوئی فرض یا نفل نماز پڑھی تو اس کے بعد یہ دعا ضرور مانگی:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ اِیْمَانًا لَا یَرْتَدُّ، وَ نَعِیْمًا لَا یَنْفَدُ، وَ مُرَافَقَۃَ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اَعْلٰی دَرَجَۃِ الْجَنَّۃِ جَنَّۃِ الْخُلْد (مسند احمد، صحیح ابن حبان)
”اے اللہ! میں آپ سے ایسا ایمان مانگتا ہوں‘ جس سے کبھی محرومی نہ ہو‘ میں آپ سے ایسی نعمت کا سوال کرتا ہوں جو کبھی ختم نہ ہو اور میں آپ سے ہمیشہ باقی رہنے والی جنت کے بلند درجے میں اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ مانگتا ہوں۔“
یہ بہت شاندار دعاء ہے اور بڑے عظیم نکات پر مشتمل ہے، اس کو یاد کر کے اپنا معمول بنانا چاہیے کہ اس میں دنیا و آخرت کی تمام کامیابیاں سمٹ کر آگئی ہیں۔ خاص طور پر اس دعا کا پہلا جملہ بہت ہی اہم ہے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان نصیب ہونے کے بعد کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس عظیم دولت سے محرومی کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس بد بختی سے حفاظت فرمائے۔(آمین ثم آمین)
گندی ذہنیت پر مشتمل غلیظ خیالات بھی ظاہری گندگی کی طرح ہوتے ہیں کہ انسان شروع میں ان کا احساس کر لے تو بچ جاتا ہے ورنہ جب آدمی مسلسل غلط عقائد و نظریات والے ماحول میں رہتا ہے اور اس کے اردگرد ہر طرف اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں ہو رہی ہوتی ہیں تو رفتہ رفتہ اس کے دل سے برائی کا احساس ختم ہو جاتا ہے‘ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ بے دینی کی باتوں اور غیر اخلاقی حرکتوں کو بڑی آسانی سے قبول کر لیتا ہے حالانکہ شروع میں اگر اس سے کسی غلط بات کا مطالبہ کیا جاتا تو وہ کبھی بھی اس کیلئے تیار نہ ہوتا۔
موجودہ فکری ارتداد کے دور میں یورپ سے جو بدبودار باتیں ہمارے ہاں نقل ہو کر آئیں، اُن میں سے ایک ان کا ”نظریہ محبت“ جس کے اظہار کیلئے14فروری کا دن خاص کیا گیا ہے اور اب اس گندگی کی بو اتنی بڑھ چکی ہے کہ اچھے خاصے سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ بھی ”اس میں کیا حرج ہے“ کہہ کر اس کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔
”یوم محبت“ کے طور پر ”ویلنٹائن ڈے“ کے نام سے منایا جانے والا یہ تہوار ہر سال ہمارے ملک کشمیر میں دیمک کی طرح خفیہ لیکن تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ اس دن جو بھی جس کے ساتھ محبت کا دعوے دار ہے اسے پھولوں کا گل دستہ پیش کرتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ تہوار منانے والے ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر پائے کہ یہ دن منانے کی وجہ کیا ہے۔ اس حوالے سے مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں۔ اگر ان روایات کو بھی بنیاد بنایا جائے تو ایک عقل مند اور باشعور انسان اس تہوار کو منانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
صرف ایک بے ہودہ قسم کی داستان ہے جس کی بنیاد پر ایک جنونی گروہ مسلم معاشرے میں بے حیائی کو فروغ دے رہا ہے۔ باعث شرم بات تو یہ ہے کہ اس عاشق راہب اور معشوقہ راہبہ کا جس مذہب سے تعلق تھا وہ اس تہوار کو اپنا ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں مگر مسلمان ہیں کہ بے حیائی کے اس کلچر کو دل و جاں سے قبول کیے ہوئے ہیں۔ باعث ِ صد افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چھایا ہوا ایک مخصوص گروہ ”ویلنٹائن ڈے“ کو یوم تجدید محبت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ماضی قریب تک ایسی ”محبت“کو باعث عار سمجھا جاتا تھا مگر اب اسے باعث فخر سمجھا جانے لگا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اگر کسی کو عشق کی بیماری لگ جاتی تو وہ معاشرے میں اپنی عزت کو برقرار رکھنے کی خاطر اپنے اس مرض کو ظاہر نہیں کرتا تھا۔ مگر آج وطن عزیز میں صورت حال یہ بن چکی ہے کہ ہمارا میڈیا اس روحانی بیماری کوایک ”مقدس شے“ کے طور پر پیش کرتا ہے۔
مسلم اقوام میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ویلنٹائن ڈے جیسی واہیات تقریبات کو رواج دیا جا رہا ہے۔مسلم معاشرے میں لا دینیت اور جنسی بد اعتدالیوں کو کس طرح تیزی سے پروان چڑھایا جا رہا ہے اس کا اندازا اس طرح کے حیا باختہ تہواروں سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ غیر مسلم این۔ جی۔ اوز کے تحت چلنے والے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں باقاعدہ طور پر اس بے ہودہ تہوار کو منایا جاتا ہے۔ یقینا ان سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے ہمارے ہی بچے، ہماری ہی بیٹیاں اور بہنیں ہوتی ہیں جن کو دنیاوی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ دین سے دور بھی لے جا یا جا رہا ہے۔
فحاشی اور بے حیائی کے اس تہوار کو ”یوم محبت“ قرار دیے جانے کے بجائے ”یومِ ہوس“ قرار دیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا، اس لیے کہ اس تہوار کا اصل مقصود مرد اور عورت کے درمیان ناجائز تعلقات کو فروغ دینا بلکہ تقدس عطا کرنا ہے۔ مغرب میں ”محبت“ کا تصور و مفہوم یکسر مختلف ہے۔ جس جذبے کو وہاں محبت (Love) کا نام دیا جاتا ہے، وہ درحقیقت بو الہوسی اور خواہش پرستی ہے۔ اس معاشرے میں عشق اور فسق میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔ مردوزن کی باہمی رضا مندی، ہر طرح کی شہوت رانی اور زنا کاری وہاں ”محبت“ ہی کہلاتی ہے۔ اسی طرح ”ویلنٹائن ڈے“ منانے والوں کی جانب سے ”محبت“ کا لفظ بے راہ روی کے لیے بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے۔ گویا ”حقیقی محبت“ اور ”ویلنٹائن ڈے“ دو متضاد چیزیں ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ”حقیقی محبت دین اسلام کا حصہ اور ”ویلنٹائن ڈے“ جنسی بے راہ روی کا دوسرا نام ہے
اب ہم ”محبت“ کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر بیان کرتے ہیں، اس لیے کہ ”ویلنٹائن ڈے“ منانے والے یہ پروپیگنڈہ بڑے زور و شور سے کرتے ہیں کہ محبت تو فطری جذبہ ہے پھر اسلام میں اس کی ممانعت کیوں ہے۔ اس پروپیگنڈے کی حقیقت کو جاننے کے لیے اسلام کا ”معیار محبت“ اور اس کی
ترتیب کو جاننا بھی ضروری ہے تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اسلام نے ہی جذبہ محبت کی سب سے زیادہ قدر دانی کی ہے اور اُس کو صحیح مقام اور جائز محل پر استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔دیکھیں پانی کتنی مفید چیز ہے اور زندگی کے لیے پانی کتنا ضروری ہے لیکن اگر یہ اپنی حد سے نکل جائے تو سیلاب بن جاتا ہے جو پوری پوری بستیوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ کوئی بھی فطری جذبہ تب تک ہی قابل تعریف ہو گا جب اسے صحیح جگہ اور صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے ورنہ اسی جذبے سے پوری سوسائٹی بھی اخلاقی اعتبار سے تباہ ہو سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے محبت:
اسلام میں جن محبتوں کو اپنانے کا حکم دیا گیا ہے، اس میں سر فہرست بندوں کا اپنے رب سے محبت کرنا ہے۔ تمام کائنات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کو جزو ایمان قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت پر کسی اور شخص یا چیز کی محبت غالب نہیں آتی۔ مومنوں کی اس محبت کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:
والذین امنوا اشد حباللّٰہ
”اہل ایمان اللہ کے ساتھ محبت کرنے میں بہت سخت ہیں۔“ (البقرۃ ۱۶۵،۲)
رسول اللہﷺ سے محبت:
سیدنا محمد رسول اللہ ﷺسے بھی محبت ایمان کا حصہ ہے۔ ایک مسلمان کی کامیابی کا انحصار آپﷺ کی محبت کو قرار دیا گیا ہے۔ تمام کائنات سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ہونا لازم اور ضروری ہے۔ رسول اللہﷺکا فرمان ہے:
والذی نفسی بیدہ لا یومن احد کم حتی اکون احب الیہ من والد ہ و ولدہ والناس اجمعین (صحیح البخاری ۱۴)
”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس وقت تک کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا، جب تک
میں اس کو اس کے ماں باپ اور اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔“
صحابہ کرام ؓ،اہل بیت عظامؓ سے محبت:
صحابہ کرام ؓ اور اہل بیت ؓ سے محبت بھی ایمان کا حصہ ہے۔ قرآن و حدیث کی بہت ساری نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔ صحابہ کرام ؓ سے بغض و عناد رکھنا کفر و نفاق اور الحاد کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کے ایمان کو مسلمانوں کے لیے آئیڈیل قرار دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار صحابہ کرام ؓ اور اہل بیتؓ کو بر ا بھلا کہنے اور ان سے بغض رکھنے کی ممانعت فرمائی ہے، خصوصاً انصار صحابہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”مومن شخص ہی انصار سے محبت رکھتا ہے اور منافق ہی ان سے بغض رکھتا ہے۔ جو ان سے محبت رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے بغض رکھے گا“۔ (صحیح البخاری ۷۳۸۳)
والدین اور اولاد کی آپس میں محبت:
والدین اور اولاد کے درمیان محبت کا ہونا ایک فطری چیز ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید(سورۂ توبہ، آیت نمبر۲۴) نے اس محبت کے اللہ اور اس کے رسول کی محبت پر غالب ہونے کی صورت میں سخت وعید بیان فرمائی ہے، اس لیے کہ محبت کا پہلا حق اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔ گویا کہ والدین اور اولاد کے مابین محبت شرعی طور پر مطلوب ہے مگر اس وقت جب اسے ثانوی حیثیت دی جائے اور اس پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو ترجیح حاصل ہو۔
میاں بیوی کی آپس میں محبت:
میاں بیوی کا آپس میں محبت کرنا شرعاً پسندیدہ اور مطلوب چیز ہے۔ دین اسلام اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ میاں بیوی آپس میں محبت کرنے کے بجائے غیروں سے محبت کی پینگیں بڑھاتے
پھریں۔ شریعت یہ چاہتی ہے کہ میاں بیوی کا یہ پاکیزہ بندھن خوش حال زندگی کا باعث بنے، اسی لیے شریعت نے ان کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی بہت زیادہ تلقین کی ہے۔ ان حقوق میں سے ایک اہم حق ان کا آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کی آپس کی محبت کو قرآن میں بیان فرمایا ہے:
و من آیتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنواالیھا و جعل بینکم مودۃ ورحمۃ ان فی ذلک لا یت لقوم یتفکرون
”اور (یہ بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے عظیم نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔“(الروم ۲۱،۳۰)
مسلمانوں کی آپس میں محبت:
اسلام امن و امان، اخوت اور محبت کا دین ہے۔ تمام لوگ معاشرے میں امن و امان اور محبت کے ساتھ پرسکون زندگی گزاریں، یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کلامِ مقدس میں تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی قرار دیا ہے۔ گویا جس طرح سگے بھائیوں کے درمیان محبت ہوتی ہے اسی طرح تمام لوگوں سے محبت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآن و حدیث میں مسلمانوں کے آپس میں محبت کرنے کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔ رسول اللہﷺکا فرمان ہے:
ما احب عبد عبداً لِلّٰہ اکرم ربہ عزوجل
”جب کوئی بندہ کسی دوسرے سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے محبت رکھتا ہے تو حقیقت میں وہ اپنے پروردگار کی تکریم کرتا ہے“۔(مسند احمد ۲۵۹،۵)
یہ محبت اسی صورت میں لائق تحسین ہے جب بغیر کسی لالچ اور طمع کے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے ہو۔ افسوس کہ اسلام کے پاکیزہ پیغام محبت کو چھوڑ کر مغرب سے آئی ہوئی حرص و ہوس کی گندگی کو گلے لگایا جا رہا ہے اور پھر بھی یہ اصرار ہے کہ ہمیں ”روشن خیال“سمجھا جائے۔
معاشرے کو بے حیاء بنانے اور نوجوانوں میں بے غیرتی اور بے حیائی کو فروغ دینے میں 14فروری کے دن کی کیا تباہیاں ہیں، اس حقیقت سے کسی عقل مند اور سلیم المزاج انسان کو انکار نہیں ہو سکتا کہ اس وقت پوری دنیا میں بے حیائی کو پھیلانے اور بد کاری کو عام کرنے کی منصوبہ بند ی کی کوشش ہو رہی ہیں، نوجوانوں کو بے راہ رو کرنے اور بالخصوص مسلم نوجوانوں سے جذبہ ایمانی کو کھرچنے اور حیاو اخلاق کے جوہر سے محروم کر دینے کے لیے یہ دن اور اس طرح کے بہت سے حربے اسلام دشمن طاقتیں استعمال کر رہی ہیں۔ امت مسلمہ کے نوجوانوں کو ان تمام لغویات اور واہیات قسم کی چیزوں بچنا ضروری ہے، اور معاشرہ کو پاکیزہ بنانے اور اخلاق و کردار کو پروان چڑھانے کے لیے اس طر ح کے بے حیائی کو فروغ دینے والے دنوں کا بائیکاٹ کرنا ضروری ہے اور اس کے بالمقابل اسلام کی حیاء کی پاکیزہ تعلیمات کو عام کرنے کی کوشش کریں۔ ان تمام چیزوں سے اپنے آپ کو بچائیں جو کسی بھی اعتبار سے معاشرہ میں بے حیائی کے پھیلنے کا ذریعہ بنے اور دنیا والوں کو اسلام کی بلند ترین تعلیمات کا خوبصورت نمونہ پیش کرنے والے بنیں۔
سرخ پھولوں کے تبادلے کرنے والے مسلمان بھول گئے کہ اُن مسلمانوں کے خون کا رنگ بھی سرخ ہے جو صرف اسلام کے جرم میں دنیامیں گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی بے حسی اور ہر گمراہی سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔(آمین ثم آمین)