اک امید تھی بکھر گئی وہ چاہت تھی گزر گئی
اک شام تھی ڈھل گئی وہ رات تھی ٹل گئی
اک خواب تھا ٹوٹ گیا وہ راز تھا پھوٹ گیا
اک یار تھا روٹھ گیا وہ ہمراز تھا چھوٹ گیا
اک محبت تھی خفا ہوئی وہ دنیا تھی بےوفا ہوئی
اک طبیب تھی ظالم ہوئی وہ مرہم تھی پر سزا ہوئی
اک چاند تھا خاک ہوا وہ روشن تھا تاریک ہوا
اک ہمسفر تھا ترک ہوا وہ سایہ تھا راکھ ہوا
وہ سانسیں تھی تھم گئی وہ زندگی تھی رک گئی
جو آئی تھی بچھڑ گئی وہ شمع تھی بجھ گئی
کچھ کہہ نہ سکا تو لکھ گیا کچھ کر نہ سکا تو سہہ گیا
اک جام تھا میں پی گیا یہ اک نشہ تھا بس اتر گیا
عابد ابن فیاض
اُڑوره کولگام