عالمگیر وبائی بیماری کوروناوائرس جیسی مہلک بیماری نے معمولات زندگی کو درہم برہم کردیا ہے اور تعلیم بدستور متاثر ہے ۔وادی کشمیر کی بات کریں تویہاں گذشتہ تین دہائیوں سے نامساعدحالات کی وجہ سے سب سے زیادہ تعلیم ہی متاثر رہی ہے۔تاہم ان حالات کے دوران لائحہ عمل ترتیب دیکر بچوں کو پڑھانے کا کام جاری رکھا جاتا تھا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کوروناوائرس کی کے پھیلاؤ میں کمی آنے کے بعد اسکول کھولے گئے تاہم اس وباء کی دوسری لہر شروع ہوتے ہی اسکولوں کو ہی سب سے پہلے نشانہ بنایا گیا جس سے مزید زیرتعلیم بچوں کا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے۔
کوروناوائرس کے بیچ اسکولوں میں تعلیم کو جاری رکھنے میں ڈر محسوس کرتے ہوئے ناظم تعلیمات اور دیگر حکام نے اسکول بند رکھنے کے احکامات دوبارہ صادرفرمائے۔ ٹیوشن سنٹروں، باغ گل لالہ،اُور لوڈنگ اور گہماگہمی کے بیچ یہ حیران کن فیصلہ ہے۔کیونکہ جہاں یہ کوروناوائرس اسکولوں میں زیرتعلیم بچوں کیلئے باعث خطرہ ہے۔توکیا یہ وبائی بیماری ٹیوشن سنٹروں،بازاروں،ٹلپ گاڈن اور دوسرے عوامی مقامات،اسپتالوں جہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر ہوتے ہیں تک رسائی نہیں لے سکے گئی؟آجکل یہ معاملہ عوامی سطح پر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
سرکار کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکولوں کو بند کرنے کے بعد سرکاری یا پرائیویٹ اسکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ ہی ٹیوشن سنٹروں میں پڑھاتے ہیں۔یہ والدین پر بوجھ بڑھانے اور ٹیوشن فیشن کو عام کرنے کی ایک نئی ٹرینڈ ہے۔ ان حالات میں اگرچہ آن لائن کلاسز اسکول بند کرنے کے بعد پڑھانے کیلئے متبادل سمجھا جاتا ہے لیکن یہ غریب بچوں کیلئے نقصان دہ عمل ہے کیونکہ ان بچوں کے غریب والدین اینڈائرڈ فون لانے کی سکت نہیں رکھتے ہیں تو ان کا کیا حال ہوگا۔ آن لائن کلاسز کو جاری رکھتے ہوئے سرکار کیلئے ضروری ہے کہ وہ غریب بچوں کو اس کا فائدہ اٹھانے کیلئے ان کے حق میں ایک پیکیج کا اعلان کریں جس سے وہ غریب بچے بھی فون خرید کر آن لائن کلاسز میں حصہ لے سکیں۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ آن لائن کے نام پر بچوں نے والدین سے فون طلب کئے اور والدین قرض وفرض کرکے فون فراہم کرنے کیلئے مجبور ہوئے تاہم بچوں کی اکثریتی طبقہ نے اس سہولیت کا بھی غلط استعمال کرکے تعلیم کے بجائے دوسرے فحش اور وقت ضائع کرنے پر مبنی سرئیل اور دیگر پروگرام دیکھنے میں وقت گذاری کرنے لگے ہیں۔اس پر والدین اور اساتذہ کو نظر گذر رکھنا امر لازم ہے۔یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اگر تمام اداروں،میں کام ہورہا ہے اور کام کو جاری رکھنا لازمی بھی ہے تاہم سرکار وائرس کے خاتمہ کیلئے لوگوں اکواحتیاطی تدابیر اپنانے پر پابند بنائیں تاہم لاک ڈاون کا نفاذ عمل لانالوگوں کو دیگر مشکلات میں ڈالنے کا موجب بن سکتا ہے۔ کورونا وائرس کے بیچ اسکولوں کو کھول دینا ہی بہترین عمل ہے تاکہ بچوں کا مستقبل تاریک ہونے بچ جائے گا البتہ اسکولوں میں وبائی بیماری سے بچوں اور تدریسی وغیر تدریسی عملہ کو محفوظ رکھنے کیلئے منتظمین پر ایس او پیز پر عمل در آمد کرانے کیلئے متحرک رہنا ناگزیر ہے کیونکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کو بچانا بڑی اہمیت کا حامل ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان حالات میں ہر پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے احتیاطی تدابیر اپنانے اور تعلیم پڑھانے کیلئے مخصوص انتظامات کو بہم رکھنے کیلئے اہم اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ زیر تعلیم بچوں کا مستقبل کوتاریک ہونے سے بچ جائے اور عام لوگ بھی اس وبائی بیماری سے محفوظ رہ سکیں گے۔