تحریر: سجاد احمد خان
گاندربل کشمیر
ماہ ِمحرم تو بہت پہلے سے محترم تھا، یعنی اسلام سے بھی بہت پہلے سے۔ بلکہ ابتدائے کائنات سے ہی محترم تھا۔ قرآن میں ہے:
إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِندَ اللّہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِی کِتَابِ اللّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ فَلاَ تَظْلِمُواْ فِیہِنَّ أَنفُسَکُمْ وَقَاتِلُواْ الْمُشْرِکِینَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُونَکُمْ کَآفَّۃً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ مَعَ الْمُتَّقِینَ۔(التوبۃ: 36)
”اللہ کے نزدیک مہینوں کے گنتی بارہ ہے۔جو اللہ کی کتاب میں اسی روز لکھ دی گئی تھی جب اللہ نے زمین وآسمان کی تخلیق کی تھی اور ان میں سے چار ماہ حرمت والے ہیں۔“
اللہ نے ایک سال کے بارہ مہینے مقرر فرمائے تھے اور ان میں چار کو حرمت والے مہینے قراردیا تھاتاکہ ان میں اللہ کے گھر کی زیارت کی جائے اور اس کے گرد طواف کیا جائے۔بارہ میں سے چار مہینوں کو حرمت والے مہینے قرار دینے یعنی ان میں جنگ کو ممنوع قرار دینیکے پس پردہ وادیِ بطحا میں امن وامان کی عمومی صورت حال پیداکرنے کی طرف بڑی پیش رفت تھی۔ تاکہ لوگ بیت اللہ کی زیارت کے لیے دوردراز کے خطوں سے کسی قسم کے خطرے اور خوف کے بغیر رخت سفر باندھ سکیں۔
اُس وقت جب قرآن نازل ہوا تھا، اہل عرب کئی طرح کی بری خصلتوں میں ملوث تھے۔ ان میں کم از کم دو بری خصلتیں یعنی شراب اور جنگ، گویا ان کی فطرت ثانیہ بن گئیں تھیں۔ ان پر ان دونوں چیزوں کا جنون اس طرح طاری تھا کہ وہ کھانے پینے کے بغیر شاید رہ سکتے تھے مگر شراب اور جنگ کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔جنگ کے تعلق سے عربی کا یہ شعر دیکھیں:
واحیانا علی بکر اخینا
اذا لم نجد الا اخانا
ترجمہ: ”جب ہمیں لڑنے کے لئے دشمن نہیں ملتے، تو ہم اپنے ہی بھائی بندوں سے لڑتے ہیں۔“
اس زمانے میں جنگجو ہونا آدمی کی سب سے بڑی قابلیت اور لیاقت سمجھی جاتی تھی۔ اس زمانے میں ہر چیز کے لیے جنگ ہوتی تھی، پانی کے لیے، جانوروں کے لیے، عورت کے لیے، زمین کے لیے، شہرت و عزت کے لیے، غرض کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کا گویا ایک ہی راستہ تھا اور وہ تھا جنگ کا راستہ۔ یہاں تک کہ بادشاہی بھی اسی کو ملتی تھی جو جنگ جیت جاتا تھا۔ ایسی صورت حال میں چار ماہ تک لڑائی کو موقوف رکھنا ایسی فطرت کے حامل لوگوں کے دلوں میں امن وامان کی اہمیت کو مستحکم کرنے کی طرف گویا ایک بڑا قدم تھا۔
اسی طرح محرم کی دس تاریخ بھی پہلے ہی سے اہم سمجھی جاتی تھی، یہودونصاریٰ اس تاریخ کو روزہ رکھتے تھے اور جس نسبت سے روزہ رکھتے تھے وہ بھی درست تھی، شاید اسی لیے حضورﷺ نے روزہ رکھنے کی اس روایت کو نہ صرف یہ کہ قائم رکھا بلکہ اسے مزید عظمتیں دیں اور فرمایا کہ مسلمان دودن کا روزہ رکھیں۔ ایک دن کا اضافہ اس لیے کیا تاکہ یہود ومشرکین سے مشابہت نہ ہو۔
دن، ہفتے اور ماہ و سال یوں تو یکساں ہیں اور مجرد ہیں یعنی وہ بذات خود عِلت العلل نہین ہیں مگر جن ایام اور ماہ وسال کے تعلق سے کوئی فرمان خدا یا فرمان نبیﷺ موجود ہے تو پھروہ مجرد نہیں رہ جاتے، وہ خصوصیت اختیار لیتے ہیں۔ ان کی یہ خصوصیات گرچے ان کے اپنے وجود سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ اللہ کے اِذن کے تابع ہوتی ہیں تاہم ان میں دینی اعمال کی نسبتیں رفعتیں حاصل کرلیتی ہیں۔تکوینی اعتبار سے سب اوقات اور ایام برابر ہیں مگر ان کی تشریعی نوعیتیں مختلف ہیں۔البتہ ان تشریعی نوعیتوں کا تعلق دنیا کیبالمقابل آخر ت سے زیادہ ہے۔ زمانہ جاہلیت میں وقت، ایام اور ماہ وسال کو نحوستوں سے جوڑ دیا گیا تھا مگر اسلام میں ان کی طرف نحوستوں کی نسبتوں کو کالعدم قرار دیدیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لا عَدْوَی وَلا طِیَرۃ وَلا صَفَر ولا ھامۃ)
اور پھر ان میں سے بعض اوقات، ایام اور ماہ و سال کے خاص حرمتیں اور عظمتیں پیدا کردیں۔ اور بنی نوع انسانی پر یہ ایک بڑا حسان ہوا کہ انسان توہمات کی اندھیری غار سے ایمان و یقین کی روشنی کی طرف نکل آنے میں کامیاب ہوا۔
اس مہینے کو مزید ایک عظمت اس وقت ملی جب اس ماہ میں ہجرت کا عظیم الشان واقعہ پیش آیا۔ اور پھر آگے چل کر اسی ماہ سے اسلامی کلینڈر کی ابتدا ہوئی۔ یہ عجیب بات ہے کہ قومیں تو اپنی فتوحات کو قومی یادگار بناتی ہیں،فتح کے دن یا ماہ اور سال کی طرف اہم چیزوں کی نسبت کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ کئی مسلمان بادشاہ بھی جب کوئی نیا شہر فتح کرتے تھے تو اپنی فتح کی عظمت کے نشان کے لیے وہاں عالی شان منارہ تعمیر کرتے تھے۔ نصاری نے عیسوی کلنڈر کی ابتدا حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے یوم پیدائش سے کی۔ اسلام میں بھی اس کی بڑی گنجائش تھی۔ کم از کم دو مواقع تو ایسے ضرورت تھے کہ انہیں اسلامی کلینڈر کی ابتدا کے لیے چنا جاسکتا تھا، ایک حضورﷺ کا یوم پیدائش۔ اور دوسرا فتح مکہ کا دن۔ اسی طرح وہ دن بھی کچھ کم اہمیت کا حامل نہ تھا جب غزوہء بدر پیش آیا اور مٹھی بھر مسلمانوں نے محض اپنے ایمان و یقین کی طاقت کے بوتے پرایک لشکر جرار کو شکست دی۔مگر چونکہ محض کشور کشائی اسلام میں کچھ عظمت کی حامل نہیں سمجھی گئی ہے اس لیے ان فتوحات کو کوئی نشانِ امتیاز نہ مل سکا۔ یہ بھی اپنے آپ میں تعجب خیز بات ہے بلکہ غوروفکر کی حامل ہے کہ قرآن نے صلح ہدیبیہ کو فتح مبین کہا اور فتح مکہ کو ایسا کوئی نام نہیں دیا۔یعنی جس چیز کو مسلمان فتح سمجھتے اور کہتے ہیں اللہ نے اسے کوئی خاص بڑائی نہیں دی اور مسلمان بلکہ صحابہ کرام بھی جس چیز کو کمتر اور ذلت ورسوائی کی چیز سمجھ رہے تھے اللہ نے اسے فتح قرار دیا۔ اور نہ صرف فتح، بلکہ فتحِ مبین بھی فرمایا۔
قربان جائیے صحابہ کرام کی مومنانہ فراست پر کہ انہوں نے اس عظیم چیز یعنی اسلامی کلینڈر کو جاری کرنے کے لیینشان کے طور پر ہجرت کو چنا۔ ہجرت بظاہر شکست ہے مگر بباطن بہت بڑی فتح ہے۔ ہجرت میں یہی تو ہوتا ہے کہ ایک شخص یا ایک قوم محض اپنے ایمان اور دین کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ دیتی ہے۔اور کسی دوسری جگہ جاکر بس جاتی ہے،جہاں اس کے لیے اس کے دین پر چلنا آسان ہو۔تو دین وایمان کو بچالینا گویا ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑی فتح ہے، چاہے اس کی جو بھی قیمت چکانی پڑی ہو۔آخر جنگوں میں بھی فاتح وہی تو ہوتا ہے جو دشمن سے اپنی جان ومال اور عزت وشان کو بچالے۔جب حضرت صہیب بن سنان رومیؓ اپنے مال کے عوض اپنے دین وایمان بچاکر حضوراکرم ﷺ کے پاس مدینہ پہنچے اور ہجرت میں بھی تو یہی ہوتا ہے کہ مؤمن دنیا کے عوض اپنے دین کو محفوظ کرلیتا ہے۔اس کے علاوہ ہجرت، پلٹ کر دشمن کے مقابل آنے کے لیے یا کم از کم اپنے مستقبل کو روشن اور تابناک بنانے کے لییتیاری کا ایک بڑا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔
پھر ایسا ہوا کہ زمانہ تھوڑا اور آگے بڑھ گیا اور اس ماہ کو ایک اور عظمت کا نشان مل گیا اور یہ تھا شہادتِ حسین ؓ کا واقعہ۔ یہ واقعہ بھی اپنے آپ میں بڑاہی عجیب وغریب ہے۔گرچہ ایسا نہیں ہے کہ پوری تاریخ اسلام میں بس یہی ایک شہادت کا واقعہ ہے،بلکہ اس سے قبل بھی بے شمار شہادت کے واقعات رونما ہوچکے تھے۔ البتہ شہادت کے اس واقعہ کو جس چیزنے سب سے زیادہ دردناک بنادیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ تاریخ اسلام کا پہلا واقعہ ہے جس میں بیک وقت پورے خاندان نے جام شہادت نوش کیا، یہاں تک کہ چھوٹے بچوں نے بھی۔اقبال نے کہا ہے: غریب و سادہ ورنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتداء ہے اسماعیل ؑ
شاید اقبال کا مطلب یہی ہے کہ اسلام از اول تا آخر قربانی سے عبارت ہے۔اسلام کی ابتدا میں حضرت اسماعیلؑ کی قربانی ہے اور آخر میں شہادت حسینؓ قربانی کی اعلیٰ مثال ہے۔گرچہ ان دونوں قربانیوں کی نوعیتوں میں اور علتوں میں فرق ہے مگر جو بات ان دونوں میں مشترک ہے وہ ہے جان کی قربانی۔ داستان حرم کی اس عجیب وغریب ابتداء اور انتہا سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں از اول تا آخر قربانی ہی قربانی مطلوب ہے، کبھی نفس کی قربانی مطلوب ہے اور کبھی مال کی۔ داستان حرم کی ابتدا کس قدر سادہ ہے۔ بس ایک خواب ہے اور وہ بھی بیدار آنکھوں کا نہیں بلکہ سوتی ہوئی آنکھوں کا، پھر بوڑھے باپ کی طرف سے جواں سال بیٹے سے اجازت طلب کرناہے اور پھرجیسے ہی بیٹے کی طرف سے مثبت جواب ملتاہے خواب میں حاصل ہونے والا اللہ کا حکم عملی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ یعنی صرف تین ذات ہیں، اللہ، باپ اور بیٹا۔ اللہ نے حکم دیا، خلیل اللہ نے جواں سال بیٹے سے اجازت طلب کی اورپھر اس کے معا بعد حکم کی تعمیل کے وقت زمین و آسمان لزاٹھے۔ کس قدر سادہ ہے داستانِ حرم کی ابتدا۔ اور کس قدر غریب ہے کہ یہ منظر نہ اس سے پہلے کبھی کائنات کی آنکھوں دیکھا اور نہ ہی اس کے بعد۔ یہ پوری کائنات میں اپنی نوعیت کا صرف ایک ہی واقعہ پیش آیا تھا۔
اور جب اس داستان حرم کی انتہاہورہی ہے تو منظر بدلا ہوا ہے۔ یہ منظر ہزاروں اور لاکھوں نفوس تک وسیع ہے۔ اس میں ارادے کو بھی دخل ہے، گومگو کی کیفیت بھی ہے، دھوکہ وفریب بھی ہے، حضرت حسینؓ کو بلایا جاتا ہے، آپؓ کے خیر خواہ آپؓ کو روکنے کی کوشش بھی کررہے ہیں اور کئی مواقع ایسے بھی آتے ہیں کہ آپ ؓ ارادہ تبدیل فرمالیتے ہیں اور واپس لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ مگر آسمان کی آنکھوں کو یہ منظر دیکھنا تھااور اللہ کو پوری انسانیت کیلیے آپؓ کے عزم و حوصلے کو مثال بنانا بھی تھا۔ داستان حرم جس کی ابتدا ئانتہائی سادہ تھی اپنی انتہا کو پہنچتے پہنچتے رنگین ہوگئی۔
حرم کی داستان حضرت اسماعیل ؑکے جذبہ قربانی سے شروع ہوتی ہے اور حضرت حسینؓ کے جذبہ? شہادت پر منتہی ہوتی ہے۔داستان حرم ابھی ختم نہیں ہوئی، البتہ یوں کہہ سکتے کہ اس کا یک با ب شہادت حسینؓ پر مکمل ہوگیا۔ حرم کی داستان وقت کی زبانی قیامت تک رقم ہوتی رہے گی اور اسی طرح کبھی غربت و سادگی اور کبھی تہہ داری اور رنگینیوں کے ساتھ افتاں خیزاں آگے بڑھتی رہے گی۔ کہ ابھی وقت تھما نہیں ہے اور ابھی کن فیکن کی صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہے۔دس محرم الحرام کا اب تک اشک ولہو سے کچھ رشتہ نہ تھا مگر شہادت حسین ؓ کے بعد اس دن کا اشک و لہو سے بھی رشتہ جڑ گیا۔
تاہم یہ بات اپنے آپ میں بڑی تعجب خیز ہے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ غم منانے میں بہت آگے چلا گیا ہے۔اور چونکہ غم منانے والوں کے پاس غم منانے کی روایت کے پیچھے کچھ خاص ہدایات اور اصول و ضوابط نہیں ہیں ہے اس لئے خاص طور پر ایسا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ غم منانے کے رسم ورواج ترقی کرتے چلے گئے۔شیعہ برادری کے لوگ اس تاریخ کو سال بہ سال اشک تو بہاتے ہیں ساتھ ہی خون بھی بہاتے ہیں، یہاں تک کہ شیر خوار بچوں کا بھی خون بہاتے ہیں۔ ا شک و لہو بہانے کی ریت روایات آج بہت مستحکم ہوچکی ہیں، ذاکرین بے سر پیر کی باتیں کرتے ہیں اور قوم کو بہکاتے ہیں۔ وہ روکر اور خون بہاکر ہی جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ 10 محرم الحرام، یوم عاشوراء اور 12 ربیع الاول، یوم ولادت رسول ﷺ کے مواقع پر دنیا بھر میں ہونے ماتم وعزاء اور جشن وچراغاں کی تقریبات، مجالس اور جلوس میں ہائے ہو اور ہڑبونگ کا حال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کے تیوہار منانے کے طور طریقوں اور ہندوؤں کے مذہبی تیوہار منانے کے طور طریقوں میں کچھ بھی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ مسلمانوں کے جلوس کے رنگ ڈھنگ کسی طرح سے بھی رام لیلا کے جلوس کے رنگ ڈھنگ سے مختلف نہیں ہیں۔اُدھر بھی پراچین کے مذہبی کرداروں کو مجسم کیا جاتا ہے اور اِدھر بھی اسلام کی مایہ ناز ہسیتوں کو مجسم کیا جاتا ہے۔ ہندو لڑکے بھی رام لیلا کے مہوتسو میں اپنے دیوی دیوتاؤں کا سوانگ بھرتے ہیں اور مسلمان لڑکے بھی عید میلاد النبیؐ اور یوم عاشوراء کے جلوس میں حسن ؓوحسینؓ، بوبکرؓوعمرؓ، عثمانؓ وعلی ؓیہاں تک کہ انبیائے سابقین ابراہیمؑ ونوح ؑ کے کرداروں کو مجسم کرتے اور ان کا سوانگ بھرتے ہیں۔ادھر بھی ڈھول تاشے، ڈیجے اور ناچ گانے ہیں اور ادھر بھی ڈھول تاشے، ناچ گانے اور بھانگڑے ہیں۔ سچ ہے کہ بِدعات ورسومات کے کچھ سر پیر نہیں ہوتے، نہ ان کے کچھ قاعدے وقانون ہوتے ہیں اور نہ ہی کچھ حد بندیاں اور پاندیاں۔ بدعات ورسومات پر جس قدر وقت گزرتا جاتا ہے یہ اسی قدر پھیلتی اور نئے نئے روپ اختیار کرتی چلی جاتی ہیں۔
جشن منانے یا نہ منانے کے تعلق سے یہ بھی اپنے آپ میں بڑی عجیب سی بات ہے کہ مسلمانوں کی دو بڑے گروہ نانا(محمدﷺ)کا یوم ولادت مناتے ہیں اورپوتے(حسین ؓ) کا یوم شہادت۔ ایک میں خوشی مناتے ہیں اور ایک میں غم۔ حالانکہ ولادتِ نبیﷺ اورشہادت ِ حسین ؓ کے درمیان کم وبیش ایک سو دس سال(110)پر محیط وقت کی طویل بسا ط بچھی ہوئی ہے۔ اور وقت کی اس طویل مدت میں ہزاروں ولادتیں ہوئیں اور ہزاروں شہادتیں ہوئیں۔ یہاں تک کہ خود حضرت حسینؓ کے والد حضرت علی ؓبھی شہید ہی ہوئے ہیں اور ان کے پیش رو حضرات عمر وعثمان (رضی اللہ عنہما) بھی شہید ہی ہوئے ہیں۔ مگر یہ کہ مسلمانوں کے کسی بھی طبقے میں ان میں سے کسی کا بھی یوم شہادت منانے کا رجحان یا روایت نہیں ہے بلکہ بیشتر مسلمان یہ تک بھی نہیں جانتے کہ کس کا یوم شہادت کب ہے اور کس کا یوم ولادت کونسا ہے۔حالانکہ اسلام میں شہادت وجہ ِغم نہیں ہے اور نہ ہی ولادت وجہ ِجشن ہے۔ اسلام میں ولادت اور موت دونوں بالکل سادہ امور ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں ہی اللہ کے اذن اور امر سے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے پہلے لاکھوں انبیاء کرام اس دنیا میں تشریف لائے اور چلے گئے مگر رسالت مآبﷺ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی نبی کی ولادت یا موت کے واقعے کو جشن کے طور پر نہیں منایا، نہ منایا اور نہ حکم ہی دیا۔
موٹی سے موٹی عقل بھی اس عقلی دلیل سے انکار نہیں کرسکتی کہ اللہ نے ہمیں صرف 365 دن عطا کئے ہیں اوراسلامی تاریخ کی محض اہم اموات، شہادتیں اور ولادتیں کروڑوں میں ہیں۔ اگر موت وولادت منانے کا اسلام میں کوئی اصول بنادیا جاتا تو ہمیں روزانہ کی
بنیاد پر بیسیوں اہم ہستیوں کے یوم ولادت یا یوم وفات منانے پڑتے۔ اور پھر یہ کتنی عجیب سی صورت حال بنتی کہ مسلمان ایک ہی دن میں اپنے کچھ بزرگوں کی شہادت یا موت کے سوگ میں ڈوبے رہتے اور کچھ دوسرے بزرگوں کی ولادت ِ باسعادت کے جشن کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے ہوتے۔ ذرا سوچئے ایسی صورت حال میں ایک ہی دن میں سوگ کی حالت سے جشن کی حالت اورپھرجشن کی حالت سے سوگ کی حالت کی طرف منتقل ہونا ہمارے لیے کس قدر مشکل ہوتا۔ پھر تو ہم چلتے پھرتے عام انسان نہ ہوکر کسی سرکس کے مجرد کردار بن کر رہ جاتے۔
680 عیسوی تک 10 محرم الحرام کا اشک و لہو سے کچھ رشتہ نہ تھا بلکہ اس کا رشتہ اور علاقہ مسرت اور شکر گزاری کے جذبات سے تھا کہ اس دن اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو صدیوں کی غلامی سے نجات عطا فرمائی تھی اور انہوں نے اپنے پروردگار کا شکر ادا کرنے کے لیے اس دن روزہ رکھا تھا۔مگر فرعون کی غرقابی کے ڈھائی تین ہزار سال بعد جب 680 عیسوی میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا غم انگیز واقعہ پیش آیا تو اس دن سے یوم عاشوراء کا رشتہ اشک و لہو کی روایت سے جوڑ دیا گیا۔ ابتدا میں اس رشتہ?غم واندوہ میں سادگی تھی مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا غم منانے کی روایت میں غم کو برانگیختہ کرنے والے محرکات اور داعیات اور لہو بہانے کی رسم ورواج ترقی پاتے چلے گئے، چونکہ غم منانے کی روایت کی پشت پر غیر مشتبہ عقلی ونقلی دلائل نہیں تھے کہ ان دلائل کی روشنی میں غم منانے اورلہو بہانے کی رسم کو مقید کیا جاتا، اس لیے یہ رسم اپنے حساب سے پھیلتی اور وسیع ہوتی چلی گئی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یوم شہادت پر غم اور غم کا اظہار فطری ہے، ان کی جناب میں عرض ہے کہ غم فطری ضرور ہوتا ہے مگر ہرغم فطری نہیں ہوتا۔کیونکہ فطرت کا تعلق سال میں کسی ایک دن کے ساتھ خاص نہیں ہوسکتا۔ اگر غم ہے تو وہ کسی بھی وقت اور کسی بھی دن ظاہر ہوسکتا ہے۔ اور یوم شہادت کے علاوہ خارج کی کوئی بھی چیز، واقعہ اوریادداشت آدمی کو غمگین بنا سکتی ہے۔ اگر غم فطری ہوتا تو حضرت حسینؓ کے والد ماجد، باب العلم، حضرت علیؓ کے لیے بھی ان کے یوم ولادت پر اسی طرح چھلکتا اور امڈامڈ کر آتا، جس طرح یوم عاشورا ء پر حضرت حسین ؓ کی شہادت پر امڈ امڈ کر آتا ہے۔ اسی طرح حضرت عمر بن خطابؓ، حضرت عثمان ؓ اور دیگر اصحاب رسولﷺ کے ایام شہادت کے مواقع پر بھی اس طرح چھلکتا اور امڈتا ہوا دکھائی دیتا۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کی شہادتوں پر غم ہمارے وجود کے پیمانے سے نہیں چھلکتا تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ اس کے پس پردہ خارجی داعیات اور محرکات کام کررہے ہیں۔اور جب یوم عاشوراء کے مواقع پر ایک خاص برادری کے لوگ جمع ہوتے ہیں اور رونے رلانے کے خارجی اسباب و داعیات پیدا کرتے ہیں، اشک بہاتے ہیں اور خود کو لہولہان کرلیتے ہیں، غم کو ابھارنے والے واسوخت کے اشعار پڑھتے ہیں، یہاں تک کہ عجیب و غریب حرکتیں کرتے ہیں تو دوسرے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھیں بھی بھر آتی ہیں اور چونکہ وہ بھی حضرت حسینؓ سے عقید ت ومحبت رکھتے ہیں، اس لیے وہ بھی روہانسی صورت بنالیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ غم فطری ہے۔ اور پھر اس کے بعد سال بھر کے لیے اشک ولہو اور غم سے اس طرح دور رہتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی
نہیں تھا۔
اللہ تعالٰی ہمیں حقیقی معنوں میں حسینیت کے زمرے میں شمار کرے۔ اور ہمارا حشر حضرت حسین ؑ کے ساتھ ہو۔آمین یا رب العالٰمین۔