ہے شام ہویی مگر یہ کیا
بستی میں چراغاں چاروں اور
راھوں پر آج عجب ہلچل
ہے قمقموں کی اک چادر
جنگل سے لیکر بستی تک
اور مکانوں کے بام و در
جوم رہیے ہیں روشنی میں
میں اپنے صحن میں حیران ہوں
حیران ہوں یا سوچ میں گُم
شاید میری بستی میں
کویی لوٹ کے آنے والا ہے
ہے کون یہ جس کو آنا ہے
شاید کسی کا بیٹا ہو
شاید کسی کی بیٹی ہو
شاید کسی کا ہو شوہر
شاید کسی کا ہو ہو اُبو
یا شاید کسی کا بھایی ہو
زندان کو کاٹ کے آیا ہو
ورنہ ہماری بستی میں
یوں ہی چراغاں نہیں ہوتا
ساگرنظیر
ژُکر پٹن