فیس بک فنکاروں اور نقلی صحافیوں کے نام
از قلم منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط:6006952656
اس بات کا عقیدہ ہمارے رگ رگ میں موجود ہے کہ استاد کا پیشہ پیغمبرانہ پیشہ ہے اور اسی کے بدولت کائنات کے تمام کارواں اپنے منزل کی طرف احسن طریقے سے بڑھتے ہیں. اس عظیم انسان کے سبب زندگی کی تمام کامیابیاں ممکن ہے اور جس انسان سے یہ روٹھ جائے اس کے مقدر سے کبھی اندھیرا ٹل نہیں سکتا. بہرحال چند دنوں پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں سرینگر کے ہوپ نامی کوچنگ سینٹر میں ایک استاد بچے کومارتا ہے جس کے خلاف لوگوں کا کمزور طبقہ آگے آیا اور بغیر تحقیق کے اس استاد کے عزت پر حملہ شروع کیا جس سے اس بات کا احساس ہوا کہ یہ قوم تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے.
میری رائے سے اگر کوئی اتفاق نا بھی کرے مجھےکوئی فکر نہیں میرا عقیدہ یہی ہے کہ اس استاد نے وہی کیا جس کا یہ حق رکھتا ہے اور صیح لفظوں میں یہی اس قوم کا خیر خواہ ہے. فیاض صاحب عرف احمد زویل نامی اس استاد نے اس بچے کو تربیت کے تپھڑ مار کر کس جرم کا ارتکاب کیا جس کے سبب سماج کا ایک طبقہ آسمان سر پر اٹھائے ہوئےہیں. یہ بدقسمتی ہے کہ ہم اس مسلے کو بڑھ چڑھ کر پیش کررہے ہیں ورنہ یہ تپھڑ ایک انسان کے کامیابی کی ضمانت ہے. عظیم انسان شیخ سعدی رح نے کہا جو انسان بچپن میں بڑوں کے تپھڑ نہیں کھاتا اسے پھر عمر بھر زمانے کے تپھڑ کھانے پڑتے ہیں اور یہی صاحب کہتا ہےکہ اپنے بچوں کو استاد کا ادب سکھائیں اور استاد کی سختی برداشت کرنے کی عادت ڈالیں.
سنو جس چپز کو آپ لوگ بڑھاوا دیتے ہیں اسی کا سہارا لے کر کل بچوں کی اکثریت یہ رنگ پکڑے گی کہ معمولی مسلے پر یہ استادوں کے گریبان پکڑیں گے اور پھر ہمارے پاس واویلا کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا. آج بڑے عہدوں پر جو لوگ فائز ہے جب ان کے کامیابی کے بارے میں جانتے ہیں تو وہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اپنے زمانے میں استادوں سے سخت مار کھائی ہے جس کے سبب آج اس کامیابی پر عزت سے جیتے ہیں.
اس ماحول کو بڑھاوا دینا اب بند کرو جس کے سبب ہمارے بچوں میں استادوں کا حیا اور ڈر ختم ہورہا ہے. اس سے ایسے مسائل پیدا ہونگے کہ اچھے استادوں کو پڑھانے میں دلچسپی ختم ہوگی اور ہمارا تعلیمی شعبہ پہلے سے ہی معزور ہورہا ہے. اس احمد زویل نامی استاد کے بارے میں, میں نے اس کے کئی طالب علموں سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی نیک اور طالب علموں کے بارے میں ہمدرد ہے. ایک طالبہ نے کہا کہ محترم کئی بچوں کو کتابوں اور فیس کے معملے میں بھی بہت مدد کرتا ہے. کلاس میں دین کی حکیمانہ باتیں سکھا کر اچھی تربیت بھی دیتا ہے. فیس بک کے ان فنکاروں کو کم سے کم پہلے معملے کی جانچ کرنی چاہیے بعد میں بداخلاقی کی سطریں درج کرکے خود کو قوم کا غم خوار پیش کرنا چاہیے. کشمیر کے تمام علمی قدرداں احمد زویل نامی استاد کے ساتھ ہے کیونکہ ہم اسلافوں کی اس تعلیم کے پیروکار ہیں کہ
"بچس گژھ کھیون دین پلاو تہ گرمتہء ستی گژھنس اتھ چھلن”
اس بداخلاقی اور منفی سوچ کو بند کرو کیونکہ قوم کے بچے اس سے حوصلہ افزائی پاتے ہیں. ایک استاد کبھی ظالم نہیں ہوتا بلکہ جو بھی کرتا ہے اس میں بچے کی خیرخواہی ہوتی ہے. کیا کسی والدین کے خلاف ایف آئی آر درج ہوا ہے جس نے اپنے بچے کو مارا ہے نہیں تو والد سے بڑھ کر ہمارے اس استاد کے خلاف کیوں؟ کیونکہ قوم اپنے اسلافوں کی تربیت سے دور ہوا ہے تو ایسے مسلے کا تولد ہونا ضروری ہے.
اچھے تربیت یافتہ لوگ احمد زویل نامی استاد کے ساتھ ہیں اور جو اس معملے میں بداخلاقی کرتے ہیں ان کے خلاف اپنا احتجاج درج کرتے ہیں. ان چیزوں کو فروغ دے کر اب استاد کا عزت قتل ہو رہا ہے جس کے لیے ہر فرد کو فکر مند ہونا چاہیے. اس استاد کے بارے میں طالب علموں نے کہا کہ یہ معاشی کمزور طالب علموں کو انفرادی طور بہت مدد کرتا تھا اور ان کو کمتری کا احساس نہ ہوجائے اس کے لیے بھی خوبصورت طریقہ اختیار کرتا تھا. بچوں میں یہ جو مزاج تولد ہورہا ہے کہ استادوں کو ہی اب بچوں سے ڈر لگتا ہے یہ قوم کے لیے فکر مند بات ہے. مجھے امید ہے ڈپٹی کمیشنر صاحب سرینگر بھی اس حوالے سے اس استاد کے عزت کا دفاع کرے گا کیونکہ اس بڑی کرسی کا سبب بھی ایک استاد ہی ہے. بچے کے والدین بھی اس کوتربیت سمجھ کر استاد کے ساتھ حسن ظن ہی رکھیں گے باقی قوم کے وہ بیمار دماغ جو سوشل میڈیا پر ہیرو بننے کی کوشش کرتے ہیں اپنے ہوش کو زندہ کریں. افسوس ان لوگوں کے لیے جو اس مسلے کو منفی انداز سے پیش کرتے ہیں. اللہ قوم کی حالت پر رحم فرمائے.آمین