از تحریر اعجاز بابا
نائدکھئے سوناواری
انڈرگریجوٹ طالب ، ڈگری کالج سوپور
ہم انسان بھی بہت عجیب ہیں جب تک تلخ تجربات نہ ہوں اور جب تک خود پر نہ گزرے تب تک کسی کا احساس نہیں ہوتا انہی تلخ تجربات سے گزر کر اور کئی مان ٹوٹنے کے بعد پیدا ہونے والی خود اعتمادی ایک مشعل راہ کی صورت میں ہمیں اس مقام تک لے جاتی ہے .جہاں ہمیں کسی انسانی آسرے کی ضرورت نہیں رہتی..جہاں بس ہم ہوتے ہیں اور ربّ کی رضا ہوتی ہے ﺑﮩﺖ ﺷﺪﯾﺪ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﻮﺹ ﺳﮯ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﺍﮔﺮ ﺍٓﭖ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﺤﺮﻭﻣﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﭘﮧ ﺑﻮﺟﮫ ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺭﻭﮒ ﻣﺖ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ” ﺍﻟﻠﮧ ” ﺟﺎﻧﺘﺎ ہے ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮐﯿﺎ ہے ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ ﻧﮩﯿﮟ..
ہم ایک الجھے ذہن والے، غمگین، غیر تربیت یافتہ اور بے بس نسل ہیں۔ہمارے والدین کے پاس بیٹھ کر تسلی سے بات کرنے کے لیے وقت نہیں ہوتا، کیونکہ ہمارے وطن میں روزگارِ زندگی کے لیے ایک بے ڈھنگا سا مقابلہ جاری ہے۔ ہمارے اساتذہ کے پاس ہمیں بنیادی تہذیب اور اخلاق سکھانے کے لیے کوئی وقت نہیں ہوتا کیونکہ انہیں کم وقت میں زیادہ نصاب ہمارے دماغوں میں انڈیلنا ہوتا ہے۔ہمارے سوالوں کے کوئی جواب نہیں دیتا مگر ہمارے اعمال پر سب جواب مانگتے ہیں۔ ہماری تربیت کرنے کا کسی کے پاس وقت اور سلیقہ نہیں ہے مگر تربیت پر انگلی اٹھانے کے لیے سب تیار ہوتے ہیں۔ ہمیں رشتے نبھانے نہیں سکھائے جاتے، لیکن رشتے ٹوٹ جانے پر ملامت ضرور کی جاتی ہے۔ ہمیں اخلاق کا عملی مظاہرہ کرکے نہیں دکھایا جاتا، مگر بداخلاقی کی نقل کرنے پر کوسا جاتا ہے۔ہمیں محبت کی داستانیں پڑھائی جاتی ہیں،لیکن محبت کرنے پر ذلیل کیا جاتا ہے۔ ہمیں محبت کرنے اور نبھانے کے طریقے نہیں سکھائے جاتے۔ محبت کرنی ہے یا نہیں کرنی؟ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا۔
ہمیں بچپن میں خواب دیکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے، مقصد متعین کرنے کی تلقین کی جاتی ہے مگر ہمارے سب خوابوں کے آگے سوالیہ نشان اور دیواریں کھڑی کرکے ہمیں ایک ہی قطار میں ایک ہی سمت چلنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ہم سے رائے نہیں مانگی جاتی کیونکہ ہم نا سمجھ ہیں، ہمیں اپنی سوچ اور ارادوں پر یقین نہیں رکھنے دیا جاتا کیونکہ ہم ناتجربہ کار ہیں۔ ہمیں زندگی گزارنے کے سلیقے اور طریقے نہیں سکھائے جاتے کیونکہ کوئی اسے اپنی ذمہ داری سمجھتا ہی نہیں ہے۔ ہر ایک کو یہ دوسرے طبقے اور شعبے کی ذمہ داری لگتی ہے اس لیے کوئی بھی یہ بیڑا اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔اس سب کے بعد ہم جو بنتے ہیں، پھر ہماری تضحیک کی جاتی ہے اور ہم سے پہلے والوں کو ہم پر فوقیت دی جاتی ہے۔ ہمیں ملامت کی جاتی ہے اور گزرے دور کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔
ہماری غلطی کہاں ہے؟ ہمیں کس نے بگاڑا ہے؟ ہم کیوں اتنے الجھے ہوئے، اتنے ناسمجھ، بداخلاق اور منہ پھٹ ہیں؟ ہمارے ذہن صاف کیوں نہیں ہیں؟ ہمارے دل صاف کیوں نہیں ہیں؟ ہم نے کیا غلط کیا ہے جس کے نتیجے میں ہم آج ایسے ہیں؟ اور پہلے والوں نے ایسا کیا کمال کیا تھا کہ وہ ہم سے بہتر قرار پاتے ہیں؟.