دانش احمد پرے
گوئیگام کنزر بارہمولہ
رابطہ:- 8803250765
اگر کسی اور کے عیش و آرام کو دیکھ کر آپ کے دل کو صدمہ، رنج اور جلن ہوتی ہے اور اگر آپ کے دل کو اس کے عیش و آرام کی نعمت کو ختم ہوتے ہوئے خوشی و مسرت محسوس ہوتی ہے،تو سمجھ لیجئے کہ آپ کے دل میں حسد اور عداوت جیسی بیماری نے جگہ بنا لی ہے۔
حسد اور کینہ وہ متعدی بیماری ہے کہ جس نے معاشرے کے بہت سے عابد و زاہد اور نیک اطوار افراد کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔یہ حسد ہی کی فتنہ سامانیا ہے کہ ایک اچھا بھلا انسان شیطانی بہکاوے میں آکر مسلمان بھائی کے علم و فضل، مال و دولت ،کاروبار، اولاد اور دینی و دنیاوی ترقی سے اپنے دل میں کسک محسوس کرتا ہے۔
بسا اوقات وہ اپنی سوچ کے پیچھے چلتے ہوئے اس قدر آگے نکل جاتا ہے کہ دوسروں سے دشمنی مول لینے بھی نہیں ٹلتا۔اور حسد کی آگ میں جلتے ہوئے اپنے اعمال تو برباد کرتا ہی ہے بعض اوقات اپنی جان تک کو بھی نہ ناحق ضائع کر دیتا ہے۔
بقول ڈاکٹر سر محمد اقبال:-
” میرا اس شہر عداوت میں بسیرا ہے اقبال،
جہاں لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا سوچتے ہیں”
یہ بات عیاں ہے کہ ہمارے گردونواح یعنی ہمارے معاشرے میں حسد جیسی ناگوار شئے کی کوئی قلت اور کمی نہیں ہے۔اگر حسد کے حوالے سے ہم اپنی نگاہوں کو اپنے ہی معاشرے کی طرف موڑ لے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے یعنی وادی کشمیر کے لوگوں نے حسد جیسی لاحق اور مضر بیماری کو اپنے دل و ذہن میں اس قدر بٹھا لیا ہے اب ہمارے معاشرے کے اشخاص کو کسی اور کی خوشی، کسی اور کا چین ،سکون، راحت کرار ،مال، دولت، قابلیت، زہانت اور محنت راس اور برداشت نہیں ہوتی۔
(بھائی، بہن ،ماموں، ماسی، دادا ،دادی، نانا، نانی، پھوفی، چاچا، میاں اور بیوی)۔ یہ کچھ رشتے ہیں جو اس قدر نزدیک اور ہمدرد رشتے ہوتے ہیں کہ جب بھی ایک انسان اپنے آپ کو مصائب و مشکلات میں پاتا ہے تو اولین فرصت میں وہ انہی رشتوں میں سے کسی رشتہ دار کو مصائب اور مشکلات سے نکالنے کی خاطر ندا دیتا ہے۔ مگر لمحہ فکریہ اور کرب کی بات یہ ہے کہ مصائب و مشکلات سے نکالنا تو دور بلکہ حسد و بغض کو ہم نے اپنے اندر اس قدر آباد کیا ہے کہ آج کے دور میں ہمارے معاشرے کا بھائی دوسرے بھائی کو غمزدہ، پریشان اور کرب کی حالت میں دیکھ کر خوشی اور مسرت کا اظہار کرتا ہے۔ جبکہ ایک بھائی اپنے ہی بھائی کو سکون اور خوشی میں پا کر کرب اور پریشانی کا اظہار کرتا ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ ایک ماں سے بیٹی اور بیٹی سے ماں کی خوشی برداشت نہیں ہوتی۔باپ بیٹے اور بیٹا اپنے باپ سے دور ہے۔ ہمسایوں کا سلوک اور رویہ ہمسایوں سے بد اور بدتر ہے۔ سہم کر بات رکھنے والی یہ ہے کہ کافی حد تک آج ہمارے معاشرے میں یہ بھی انسان محسوس کرتا ہے کہ ایک میاں اپنی بیوی اور بیویاں اپنے خاوند حضرات سے کہی کہی ماہ گفتگو نہیں کرتی۔
ہائے! ہائے! ہم لوگوں کو بلا کس کی منہوس نظر لگ گئی۔میاں اور بیوی کا رشتہ جی ہاں! یہ اس قدر نزدیک صاف و پاک رشتہ ہے کہ جس رشتے کو اللہ رب العزت نے ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے،اور لباس کے بنا انسان کا زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
اسلام جو امن و سلامتی اور خیرخواہی کا مذہب ہے اس نے ہمیں باہم اخوت و محبت کا سبق دیا ہے اور انسانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کی تلقین و تاکید کی ہے۔ مگر عمر واقعہ اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آج ہم اسلامی تعلیم سے منہ موڑ کر اخلاقی قدریں پامال کر چکے ہیں کہ ایک مسلمان بھائی کو جب تک رسوا نہ کر لے اسے چین نہیں آتا۔ ہر آن وہ اس فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح وہ دوسرے بھائی کو نیچا دکھا ئے، کیسے اس کی ترقی کو زوال پذیر کرے، اور کیسے اس کے امن و سکون کو تباہ و برباد کرے۔یہ کوئی افسانہ یا سنی سنائی بات نہیں بلکہ آج ہمارے معاشرے میں اس طرح کے واقعات عام ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ لوگ حسد و کینہ کے باعث ایک دوسرے کے خواہ مخواہ جانی دشمن بن جاتے ہیں اور آخر قتل و غارت گری پر کھیل منتج ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہم اسلامی تعلیم کو اپنائے اسی میں ہماری فوزو فلاح اور دینی و دنیاوی کامیابی کا راز مضمر ہے۔
حسد کے بارے میں کائنات کے رہبر و رہنما جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ارشاد فرمایا اس کی سنگینی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-
"آِیَاکُم وَالحَسَدَ فَاِنَ الحَسَدَ یَاکُلُ الحَسَنَاتِ کَمَا تَاکُلُ النَارُ
الحَطَب۔” (ابو داود ۴۹۰۳)
(ترجمہ) "حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھاجاتی ہے۔”
صحیح بخاری کتاب الادب کی ایک حدیث شریف کے مطابق حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:-
” لاَ تَباغَضُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوُا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَکوُنوُا عِبَادَاللہِ اِخوَانًا، ولاَ یَحِلُ لِمُسلِمٍ اَن یَھجُرَ اَخَاہُ فَوقَ ثَلاثِ لَیَالٍ” (صحیح بخاری ۶۰۷۶)
(ترجمہ)”آپس میں بغض نہ رکھو، اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ،پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو بلکہ اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ تک بات چیت بند کرے”
اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:-
"اَم یَُحسُدُونَ النَاسَ علیٰ مَآ اٰتٰاھُمُ اللہُ مِن فَضلِہٖ۔” (النساء: ۳۰)
(ترجمہ) "کیا وہ لوگ آپس اس پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے؟” اللہ مزید حسد کے بارے میں فرماتے ہیں:- "وَمِن شَرِ حَاسِدٍ اِذَا حَسَد” ( الفلق: ۵)
(ترجمہ) "حاسد کے حسد سے اللہ کی پناہ مانگو”
میرے بھائیو اس فرمان الہی کو سامنے رکھ کر حسد سے بچو معاشرے میں کسی انسان کو خوش حال دیکھ کر خوشی و مسرت کا اظہار کیا کرو۔ میرے پیارے اسلامی بہنو اور بھائیو! شیطان ہمارا ازلی دشمن ہے وہ مختلف انداز و اطوار سے ہمارے ایمان پر ڈاکہ زنی کرتا ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اسکے بہکاوے میں ہرگز نہ آئے اور مضبوط ایمان کے ساتھ شیطانی وساوس کو جھٹک دے۔ جب ہم اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہوں گے اور ہمارے دل میں ایمان کی قوت ہوگی تو شیطان لعین کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور حسد و عداوت سے دور رہ کر ہمارا معاشرہ خوشحال بنے گا۔
آخر میں کچھ چند اشعار سے اختتام کروں گا:-
عداوت کی آگ میں جل رہی ہے دنیا ساری،
مگر محبت ہمارے نبی نے سکھائی۔
دائیں بائیں دیکھو تم ان چرندوں اور پرندوں میں
نہ ان کے دل پر ملال نہ حسد کی آگ دلوں میں ہے۔