تحریر کردہ :. محمد فرید اعوان راز
بی ۔اے ۔چہارم بابا غلام بادشاہ یونیورسٹی راجوری
[email protected]
9149971684
اس وقت ہم دنیا بھر میں ایک نیا دور دیکھ رہے ہیں۔ساری دنیا وبا میں ملوث ہے۔گھر گھر میں پریشانی نظر آرہی ہے۔دنیا بھر میں بہت سارے وائرس پھیل رہے ہیں ۔اور بہت بڑی وبا ہے۔جس کو کرونا وائرس یا کؤڈ ۱۹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ سماج میں پیدا ہونے والا سب سے بڑا بگاڑ ہے۔جس کی وجہ سے پوری دنیا کی حکومتوں کو بہت بڑے پیمانے پر افراتفری کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔اور پورے عالم میں سماجی ، معاشی، عکسری، اور سفارتی توازن بگڑھ رہا ہے۔یہ کرونا وائرس تقریبا دنیا بھر میں اپنے جھنڈے گاڑ چکا ہے۔پوری دنیا اس وائرس سے پریشان نظر آرہی ہے۔کیونکہ اس وائرس نے دنیا بھر میں جنگی صورتحال پیدا کردی ہے۔موجودہ صورتحال جنگی صورتحال ہے۔کیونکہ اس کرونا کی وبا سےمعشیت پر اثر پڑ رہا ہے۔اس ہزاروں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔اور لاکھوں لوگ اس کا شکار ہیں ۔لیکن ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ وبا اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔
نہ آئے خدا کرے اپنی زمین کی جانب
خدا کا قہر تو آیا ہے چین کی جانب
ہمیں اپنی جانوں کی خود خفاظت کرنے ہوگی۔ بچو ں ، نوجوانوں ،اور بوڑھوں ،کو گھر سے باہر نہیں آنے دیناہے۔ اور ایک دوسرے سے فاصلے میں رہنا ہے۔تب جاکہ ہم اس وبا سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
کسی اہل علم نے کی خوب فرمایا تھا۔
کیا ضروری ہے ہر گھر کو جلاۓ دشمن
کچھ گھر تو اپنے ہی چراغوں سے جل جاتے ہیں
اپنی جانوں کی حفاظت کے لیے ہمیں گھر ٹھرنا ہوگا۔میرے کچھ سوال جو صرف آپ سے ہیں ۔کیا تمہیں اپنے آپ سے پیار نہیں ؟ کیا تمہیں اپنی جان پیاری نہیں؟ کون سے ضروری کام ہیں جو تمہیں آپنی زندگی سے پیارے ہیں ۔اور جو زندگی سے بڑھ کے ہیں ۔ کیا تم سب سے بہادر ہو؟کیا تم سب سے زیادہ سمجھدار ہو؟کیا تمہیں ان سے محبت نہیں؟ کیا تمہیں ان کا کوئی خیال نہیں ٖ؟ جو تمہارے لیے راتوں کی نیند قربان کر دیتے تھے۔اپنے بوڑھے ماں باپ پر ہی ترس کھاؤ۔کیا یہ وباء ان کے لیے لے کے آو گے۔ان سوالوں کا جواب رات کی تاریکی میں بیٹھ کر سوچنا۔تو ایک ہی جواب ملے گا ۔مجھے اپنی زندگی پیاری ہے۔ اپنے ماں باپ بھائی بہن سب پیارے ہیں ۔لہیذا میرا گھر رہنا ہی بہتر ہے۔ میں گھر رہوں گا تو میرے ابو ، امی، محفوظ رہیں ۔اللہ پاک ہم سب کو اس وبا سے بچا ئے۔آمین ۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے ہی چراغ سے
اس وباء نے کرہِ ارض پر لوگوں کو یہ درس دیا ھے کہ کوئی کسی بھی مذہب سے ہو۔ چاہے ہندو ،سکھ،عیسائی،یہودی ، جتنے بھی مذاہب پائے جاتے ہیں ۔ان کے ماننے والو نے اپنے اپنے مالک کی طرف رجوع کیا ہے۔ہمارے لیے یہ آزمائش کی گھڑی ہے۔آو اللہ کو یاد کریں اور اپنے گہناہوں کی معافی مانگیں ۔اور اپنے گھر میں رہیں۔ اسی میں ہمارے لیے کامیابی ہے۔ہم سب کے لیے یہ مشکل کی گھڑی ہے۔میں جانتا ہوں یہ مشکل ہے۔ لیکن ہم سب کو مشکل گھڑی میں بھی قربانی دینی ہو گی۔ہمارےلیے اکیلا گھر بیٹھنا مشکل بہت ہوگیا ہے۔ ساری دنیا میں سناٹا ہے۔ لوگ خاموش اور بھوک مری کا شکار ہیں ۔کہیں سے بھی آوازیں نہیں آرہی ۔اگر کوئی آواز سنائی دی جاتی ہے تو وہ صرف کرونا کا نام کیا جاتا ھے۔اخباروں کی سرخیوں میں بھی کرونا وائرس لکھا ہوا نظر آتا ہے۔
نشاں کہیں بھی نہیں اس کی انگلیوں کے مگر
میں گھر کی دیکھ کے ایک ایک چیز دوتا ہوں
کرونا وائرس ایک ایسی وبا ہے جس نے تقریباً تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔جس کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔عوام پہلے تو وائرس مرے گی۔اس سے جو بچی وہ وائرس کے خوف سے مرے گی۔یعنی وبا کے ساتھ ساتھ ہر ملک کو اب بھوک مری اور فاقہ کشی کی جنگ بھی لڑنے ہوگی۔ان اختیاطی تدابیر کے بغیر چارہ ہی نہیں ۔ کیونکہ یہ وبا ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتی ہے۔ایسے میں انسان کو انسان سے دوری بنا کے رکھنی ہے۔ اور سماجی دوری ہی اس وبا سے بچنے کا موئثر طریقہ ہے۔
۱۔ اپنے ہاتھ ایسے صابن سے دھوئں جو کرونا کو مار سکتا ہو۔اور اس وائرس کو ختم کرسکتا ہو۔
۲ . کھانستے یا چھینکتے ہوے اپنے منہ کو ڈھانپیں ۔بہتر ہوگا کہ ٹشو سے اسکےفوری بعد اپنے ہاتھ دوھیں تانکہ وائرس پھیل نہ سکے ۔
۳. کسی بھی سطح کو چھونے کے بعد اپنی آنکھو ں ناک اور منہ کو چھونے سے گریز کریں ۔
۴. ایسے لوگوں کے قریب مت جائیں جو کھانس رھے ہوں ۔ چھینک رہے ہوں۔یا جنہیں بخار ہو ۔ان کے منہ سے وائرس والے پانے کے قطرے نکل سکتے ہیں ۔
۴.کسی سے ہاتھ مت ملاو۔اور فاصلے میں رہیں ۔ماسک پہن کر رکھیں ۔
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا ملو گے تپاک سے
یہ نیے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلےسے ملا کرو
ہماری کامیابی اسی میں ہے ۔کہ ہم گھروں میں رہیں ۔ان تدابیر کا پالن کریں ۔اپنے اپ کو اس وبا سے بچائیں ۔اور گھر رہیں محفوظ رہیں ۔اس کا پالن کریں۔تبھی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔
بقول گلزار احمد
بے وجہ گھر سے نکلنے کی ضرورت کیا ہے
موت سے آنکھیں ملانے کی ضرورت کیا ہے
سب کو معلوم ہے باہر کی ہوا قاتل ہے
یوں ہی قاتل سے الجھنے کی ضرورت کیا ہے
ایک نعمت ہے زندگی اسے سنبھال کے رکھ
قبرستان کو سجانے کی ضرورت کیا ہے
دل کے بہلانے کو گھر میں ہی وجہ کافی ہے
یونہی گلیوں میں بٹھکنے کی ضرورت کیا ہے