سجاد احمد خان
ریپورہ گاندربل کشمیر
ماہ ِ مبارک اپنی تمام رعنائیوں، بہاروں اور رونقوں کے ساتھ تیزی سے رخصت ہو رہا ہے۔ مبارک ہو اُن اہل ایمان کو جنہوں نے گرم روزوں کے ذریعے اپنے دل کو ٹھنڈا کیا اور انعامات ِ الٰہی کے حق دار بن گئے۔ مبارک ہو اُن اہل قرآن کو جنہوں نے رات کے طویل قیام میں تھکاوٹ برداشت کر کے ہمیشہ کی راحت حاصل کر لی۔ مبارک ہو اُن دین کے علمبرداروں کو جنہوں نے اس ماہِ مبارک گلی گلی، قریہ قریہ، شہر شہر، بستی بستی غزوۂ بدر اور فتحِ مکہ کی دعوت امت تک پہنچا کر ہزاروں لوگوں کے ایمان کو محفوظ کر لیا۔ مبارک ہو اُن رب کے عاشقوں کو جنہوں نے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر دس دن کیلئے‘ رب کے گھر کو ہی اپنا گھر بنا لیا، کتنا مہربان میزبان ہے اور کتنے خوش نصیب مہمان ہیں۔
مبارک ہو اُن سب کو جن کے دامن نیکیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور اُن کا یہ رمضان بھی زندگی کا ایک یاد گار اور قیمتی رمضان بن گیا ہے۔ باقی رہ گئے ہم جیسے بے کار اور گنہگار تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بھروسے پراُس کی بارگاہ میں بصد عاجزی و انکساری یہی عرض کر رہے ہیں:
گرچہ میں بد کار و نالائق ہوں اے شاہ جہاں
پر ترے در کو بتا اب چھوڑ کر جاؤں کہاں
کون ہے تیرے سوا مجھ بے نوا کے واسطے
…٭…
کش مکش سے نا امیدی کی ہوا ہوں میں تباہ
دیکھ مت میرے عمل، کر لطف پر اپنے نگاہ
یا رب اپنے رحم و احسان و عطا کے واسطے
…٭…
چرغِ عصیاں سر پہ ہے،زیرِ قدم بحرِ اَلم
چار سو ہے فوجِ غم، کر جلد اب بہرِ کرم
کچھ رہائی کا سبب اس مبتلا کے واسطے
…٭…
ہے عبادت کا سہارا عابدوں کے واسطے
اور تکیہ زُہد کا ہے زاہدوں کے واسطے
ہے عصائے آہ مجھ بے دست و پا کے واسطے
…٭…
نَے فقیری چاہتا ہوں نَے امیری کی طلب
نَے عبادت نَے ورع نے خواہشِ علم و ادب
دردِ دل پر چاہیے مجھ کو خدا کے واسطے
…٭…
عقل و ہوش و فکر اور نعمائے دنیا بے شمار
کی عطا تو نے مجھے، پر اب تو اے پروردگار
بخش، وہ نعمت جو کام آئے سدا کے واسطے
…٭…
حد سے ابتر ہو گیا ہے حال مجھ ناشاد کا
کر میری امداد،اللہ وقت ہے امداد کا
اپنے لطف و رحمت بے انتہاء کے واسطے
…٭…
گو میں ہوں اک بندۂ عاصی غلام پُر قصور
جرم میرا حوصلہ ہے نام ہے تیرا غفور
تیرا کہلاتا ہوں میں جیسا ہوں اے رب شکور
انت شاف انت کاف فی مھمات الامور
انت حسبی انت ربی انت لی نعم الوکیل
یہ پُر اثر مناجات،حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ فضائل رمضان کے آخر میں لکھے ہیں۔
رمضان المبارک کے بعد ڈر اس بات کا ہوتا ہے کہ شیطان کے آزاد ہوتے ہی ہماری ساری نیکیاں اور محنت ضائع نہ چلی جائے۔اس مہینے کی محنتوں‘ قربانیوں اور نیکیوں کے صلے میں اہلِ ایمان کو عید الفطر کا انعام ملتا ہے۔ عید کا لفظ ہی ایسا ہے کہ زبان پر آتے ہی منہ میں مٹھاس اور طبیعت میں بشاشت پیدا ہو جاتی ہے۔
ویسے تو دنیا میں سب لوگ ہی اپنے تہوار مناتے ہیں اور ہر سال کسی خاص دن میں اپنی خوشیوں اور مسرتوں کا اظہار کرتے ہیں لیکن اہلِ اسلام کی عید میں اور غیروں کی عید میں آسمان زمین کا فرق ہے۔ دوسری قوموں کے ہاں عید کا مطلب صرف موج مستی اور عیاشی ہے۔ اُن کے تہوار صرف اسی سوچ پر مبنی ہوتے ہیں کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ نفس پرستی کر لی جائے اور خوب مزے اڑا لیے جائیں‘ اسی لیے وہ اپنے خوشی کے تہواروں پر کسی روک ٹوک یا کسی پابندی کے قائل نہیں۔
اُن کے قومی تہواروں پر بے راہ روی کا اندازہ آپ صرف اس بات سے لگالیں کہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم پیغمبر کا من گھڑت یومِ پیدائش25دسمبر مقرر کر لیا گیا اور پھر اس کی نسبت سے ہر سال ”کرسمس ڈے“ منایا جانے لگا۔ عیسائی دنیا میں جتنی شراب اس موقع پر پی جاتی ہے پورے سال نہیں پی جاتی اور جتنی اخلاقی پستی کے مظاہرے، ایک پاک نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے مزعومہ یوم پیدائش پر‘ نظر آتے ہیں‘ سال بھر دکھائی نہیں دیتے۔
اس کے برخلاف مسلمانوں کی جو دوسالانہ عیدیں ہیں۔ عید الفطر اور عیدالاضحی۔ دونوں ہی کو خاص اعمال کے بعد مقرر فرما کر اُن میں ایک خوبصورت اور ایمان افروز نظریہ سمودیا گیا ہے۔ عید الفطر کا انعام تب نصیب ہوتا ہے‘ جب مسلمان پورے ایک مہینہ تک اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بھوک پیاس برداشت کر کے روزے جیسی عبادت سر انجام دیتے ہیں اور اپنے عمل سے اپنے آپ کو انعام کا مستحق بنا لیتے ہیں۔ اسی طرح عیدالاضحی تب منائی جاتی ہے‘ جب دنیا بھر سے آئے مسلمان حج بیت اللہ شریف کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور مسلمانوں کی ایک عالمگیر برادری وجود میں آتی ہے‘ جس میں امیر و غریب‘ حاکم و محکوم‘ بادشاہ ورعایا‘ عرب و عجم اور مشرق و مغرب کی کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ پھر ساتھ ہی اس عید میں ساری دنیا کے صاحب ِ حیثیت مسلمان قربانی کا عمل ادا کرتے ہیں‘ جو خود سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد گار ہونے کی حیثیت سے ایک بہت عظیم ایمانی اور روحانی پیغام ہے۔
آگے مزید دیکھئے کہ مسلمانوں کی دونوں عیدیں جب شروع ہوتی ہیں‘ تو اُس دن کا آغاز دو رکعت نماز ِ عید واجب سے ہوتا ہے اور مسلمان یہ نماز ادا کر کے اس بات کا عملی اظہار کرتے ہیں کہ ہماری عید صرف وہ ہی ہے‘ جس میں ہمارے رب تعالیٰ جل شانہ کی خوشنودی اور رضا مندی ہو۔ جس بندے سے اُس کا خالق و مالک نا خوش ہو‘اُس کیلئے بھلا خوشی کا کیا مطلب اور مسرت کا کیا موقع ہے۔
اسلام نے خوشی اور مسرت کے اظہار سے منع نہیں کیا اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ دینی زندگی اختیار کرنے کا مطلب صرف خشک مزاجی اور روکھا پن ہے تو ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ رحمت ِ دو عالم ﷺکی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ کرے، جہاں اُسے زندگی اپنی تمام تر حقیقی رعنائیوں اور خوبصورت رنگینیوں کے ساتھ نظر آئے گی۔ خوش مزاجی‘ دائمی تبسم‘ خندہ پیشانی‘ با معنیٰ اور برمحل تبصرے اور پُر لطف جاندار جملے‘ یہ سب کچھ اُس نبی رحمت ﷺکی سیرت کے ہر ورق پر ہمیں مل جائے گا‘ جنہیں قیامت تک کے انسانوں کیلئے ”اسوۂ حسنہ“ قرار دیا گیا ہے۔
البتہ اسلام نے ایسی تفریحات سے ضرور روکا ہے جو معاشرے میں خرابیوں کے جنم لینے کا باعث بنیں یا اُن سے کسی قسم کی اخلاقی بے راہ روی پیدا ہو۔ اسلام نے جن کاموں پر پابندی عائد کی جیسے شراب نوشی‘ جُوا‘مردوزن کا اختلاط اور دیگر ایسے تمام فواحش و منکرات‘ تو اس پابندی میں ہی انسانی معاشرے کی بقاء اور صلاح پوشیدہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی انسانوں نے ان پابندیوں کو توڑ کر مادرپدر آزادی کا مظاہرہ کیا تو نتیجے میں ایسے اخلاقی بگاڑ اور انسانی بحران پیدا ہوئے کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا۔
تعجب تو اُن لوگوں پر ہے جو اپنے جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے احترام کو تو ضروری گرادنتے ہیں اور یہ پابندیاں اُنہیں ایک انسانی معاشرے کی اصلاح کیلئے ضروری معلوم ہوتی ہیں۔ اُن کے نزدیک ان پابندیوں سے انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ آزادی ضمیر کے خلاف ہیں لیکن جوں ہی ایسے لوگوں کے سامنے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کسی پابندی کا تذکرہ کیا جائے جو کسی انسان کی طرف سے نہیں‘ بلکہ ہم سب کے خالق و مالک اور نفع و نقصان کو جاننے والے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کی گئی ہوں تو اُنہیں
قسما قسم کے اعتراضات سوجھنے لگتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مصداق ہیں:
ولا تکونوا کالذین نسوا اللّٰہ فانسھم انفسھم اولئک ھم الفسقون
(اور تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ‘ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اپنا آپ بھلا دیا ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں)(الحشر)
اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ آج وہ معاشرے جو خدائی پابندیوں سے آزاد اور وحی الٰہی کی راہنمائی سے محروم ہوئے، وہاں اخلاقی قدروں اور انسانی اعلیٰ روایات تک کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ایسی ایسی اخلاقی اور معاشرتی برائیاں اور خرابیاں جنم لے رہی ہیں کہ قلم میں اُن کو تحریر میں لانے کی سکت نہیں ہے۔ اہلِ وطن کو یورپ اور امریکہ کے عشق میں مبتلا کرنے کے لیے وہاں کے صرف ظاہری خوبیوں کو بیان کیا جاتا ہے لیکن جو لوگ ایمان کی نگاہوں سے خود وہاں کی سوسائٹی کو دیکھ کر آئے ہیں وہ جب اُن کا کھوکھلا پن اور حد سے بڑی ہوئی بے راہ روی اور مادر پدر آزادی، رشتوں کی بے اعتباری اور انسانیت کی توہین و تذلیل کے واقعات سناتے ہیں تو انسان کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اسلام سے قبل دور جاہلیت میں اہل مدینہ دو تہوار مناتے تھے جوجاہلی مزاج وتصورات اور جاہلی روایات کے آئینہ دار ہوتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان قدیمی تہواروں کو ختم کرکے ان کی جگہ عید الفطر اور عید الاضحی دو تہوار اس امت کے لئے مقرر فرما دئیے جو اس کے دینی مزاج اور اصول حیات کے عین مطابق اوراس کی تاریخ و روایات اور عقائد وتصورات کی پوری آئینہ دار ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہل مدینہ (جن کی کافی تعداد پہلے ہی سے اسلام قبول کر چکی تھی) دو تہوار منایا کرتے تھے اوران میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ: یہ دو دن جو تم مناتے ہو ان کی کیا حقیقت اور حیثیت ہے؟ (یعنی تمہارے ان تہواروں کی کیا اصلیت اورتاریخ ہے؟) انہوں نے عرض کیا: ہم جاہلیت میں (یعنی) اسلام سے پہلے یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے (بس وہی رواج ہے جواب تک چل رہا ہے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: اللہ تعالیٰ نے ان دوتہواروں کے بدلہ میں ان سے بہتر دو دن تمہارے لئے مقرر کر دئیے ہیں۔ (اب یہی تمہارے قومی اور مذہبی تہوار ہیں) یوم عید الاضحی اور یوم عید الفطر۔ (سنن ابی داؤد)
اس لیے ہمیں اپنی عید کے موقع پر ایسے کام نہیں کرنے چاہئیں جس سے وہ اللہ ناراض ہوں جنہوں نے ہمیں یہ خوشی کا دن عطا فرمایا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان المبارک کے بقیہ دن اور راتیں قدردانی کے ساتھ گزارنے کی توفیق عطاء فرمائیں اور اس عید کو پوری امت مسلمہ کے لیے خوشیوں اور مسرتوں کا ذریعہ بنائیں۔ (آمین ثم آمین)
٭…٭…٭