سجاد احمد خان
ریپورہ گاندربل کشمیر
یہ انسانی تاریخ کا المیہ ہے کہ صنف نازک پر ہر دور میں ظلم وستم اور ان کے حقوق کی پامالی کو روا سمجھا گیا۔چنانچہ اگر ہم دنیا کی تاریخ کا بنظر طائر مطالعہ کریں تو ہمیں اسلام کی آمدسے قبل عورتوں کا کوئی کلیدی کردار سماج کو بنانے میں نظر نہیں آتا۔زمانہء جاہلیت میں بعض قبائل عرب تو درندگی کی حدکو پھلانگ چکے تھے، چنانچہ وہ اپنے بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے، لیکن اسلام نے حواکی بیٹیوں کوعزت واحترام سے نوازا۔عہدنبوی اور خلافت راشدہ میں ہر شعبہ زندگی میں خواتین اسلام کے نمایاں اور واضح نقوش نظر آتے ہیں۔ نبوت جیسی اہم ذمہ داری کو نبھانے اور ثابت قدمی کے ساتھ دعوت الٰہی کو عام کرنے میں حضرت خدیجہ حضور ﷺ کی حوصلہ افزائی ہی نہیں بلکہ سب سے پہلے ایمان لاکر انکی صداقت و امانت داری کی شہادت اور غیر متزلزل ستون بن کر آپ کو سہارا دیتی ہیں۔قرآن کریم نے (ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم) کہکرمرد اور عورت کے مابین کسی اور بنیاد پر فوقیت کی جڑیں کاٹ دیں اور یہ اعلان کر دیا کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک وہی معزز وقابل احترام ہے جو زیادہ متقی و پرہیزگارہو۔
آج ہمارے معاشرے میں عورتوں کے تعلق سے اسلام سے قبل کی تاریخ دہرائی جارہی ہے، خواتین کے بنیادی حقوق غصب کئے جارہے ہیں، انہیں ناقص العقل، فطرتاضعیف وناتواں گردانا جاتا ہے۔اسلامی تعلیمات تاریخ کی داستان بن کر محفلوں وجلسوں میں تو دہرائی جانے کے لئے باقی رہ گئی ہیں لیکن عملی طور پر انہیں بروئے کار لانے کی جدوجہد نہیں کے برابر ہے، بلکہ عملی مظاہرے قول کے برعکس نظر آتے ہیں۔تنگ نظری کی فضا اب تک چھائی ہوئی ہے، آج بھی خواتین کو اپنی زندگی کے فیصلے لینے کا کلی اختیار حاصل نہیں ہے، آج بھی لڑکیوں کے تعلق سے والدین کے برتاؤ میں واضح فرق نظر آتا ہے، لڑکوں کو تو اعلی سے اعلی تعلیم دلانے کیلئے والدین رات دن ایک کردیتے ہیں اور اپنی گاڑھی کمائی کا بیشتر حصہ ان کی تعلیم پہ لگا دیتے ہیں، لیکن جب لڑکیوں کی تعلیم کی بات آتی ہے تو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ ان کو اعلی تعلیم کی کیا ضرورت ہے۔وہ اپنے حققوق کی حصولیابی کیلیئے گھروں میں سسکتی رہتی ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو صلاحیت ان میں ابھر کر سامنے آنے والی تھی وہ کہیں نہ کہیں دب کر رہ جاتی ہے، اور خود اعتمادی کا قیمتی سرمایہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے، یہاں تک کہ ان کے ذہنوں میں یہ بات پیوست ہو جاتی ہے کہ انکا یہی مقدر ہے۔
اس بات پہ تو زور دیا جاتا ہیکہ ماں کی گود بچوں کیے لیئے سب سے پہلی درسگاہ ہے لیکن اس درسگاہ کا معلم وہ ہے جو خود اپنا فیصلہ نہیں کر سکتا۔آج تک خواتین اپنے مسائل دریافت کرنے کیلئے مردوں کی محتاج ہیں۔ خواتین کے تعلق سے تنگ نظری کے مظاہر ہمارے معاشرے میں بے شمار ہیں اور ظلم کی انتہا اس وقت دیکھنے میں آتی ہے جب اس تنگ نظری کو مذہب کا نام دے دیا جاتا ہے۔ جب خواتین کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو اپنے عیوب پر پردہ ڈالنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نظر نہیں آتا کہ مغربی تہذیب کاماتم کیا جائے۔ گرچہ مسلم معاشرے میں طلاق کی شرح کم ہے، لیکن ان مطلقہ خواتین کا کون ذمہ دار ہوگا جنکا کوئی پرسان حال نہیں، اگر وہ اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کریں تو یہ کہہ دیناکافی نہیں ہیکہ اس کے پیچھے غیروں کی سا زش ہے، بلکہ ہمیں وقت کی نزاکت کو سمجھنا ہوگا، حقائق سے چشم پوشی کے بجائے انکا صحیح حل تلاش کرنا ہوگا۔ قرآن وسنت نے خواتین کو جو حقوق عطا کئے ہیں،انہیں ان سے محروم کر دیاگیا ہے،کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ اگر خواتین میراث
میں اپنے حقوق کی بات کرتی ہیں تو گھر والوں کے چہرے پہ شکن پڑنے لگتی ہے۔سماج کی ترقی اور نسل نو کی صحیح آبیاری کیلئے ضروری ہیکہ خواتین کو وہ سب حقوق دیئے جائیں،جو اسے اسلام نے دیے ہیں او ان کے سماجی کردار کو بحال کیا جائے۔
پاکیزہ معاشرے کی تعمیر کیلئے خاندانی نظام کا زیادہ سے زیادہ مضبوط اور کامیاب ہونا انسانوں کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ اس کی شروعات شوہر اور بیوی کے ازدواجی تعلق، میل و محبت سے ہوتی ہے۔ رب العالمین نے اور رسول کریم ﷺ نے شوہر کی حد متعین فرمائی ہے اور بیوی کی بھی حد کا تعین کیا ہے۔ اگر دونوں اپنی حدود کے اندر رہ کر زندگی گزاریں تو بڑی خوشگوار زندگی گزر سکتی ہے اور بہت سی ایسی فیملیز (Families)ہیں جو اسلامی قوانین پر عمل کرکے خوشگوار زندگی گزار رہی ہیں۔ میاں بیوی میں اعتماد کی کڑی جتنی مضبوط ہوگی ایک دوسرے پر جس قدراعتماد(Trust) قائم رہے گا اسی قدر خوشگوار اور پر سکون زندگی گزرے گی اور اس کے اچھے اثرات بچوں پر پڑیں گے۔ آقائے دوعالم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: اَکْمَلُ الْمُؤمِنِیْنَ اِیْمَاناً اَحْسَنَھُمْ خُلْقًا وَخِیَارُکُمْ لِنِسَاءِھِمْ ط ترجمہ: مومنین میں کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اپنے اخلاق میں سب سے اچھا ہو اور تم میں سے زیادہ بہتر وہ لوگ ہیں جواپنی بیویوں کے لئے سب سے بہتر ہوں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں حدیث حسن صحیح ہے۔(باب شوہر پر عورت کے حقوق کے بیان میں جلد دوم، جامع الترمذی،حدیث ۱۱۶۲)دوسری حدیث یہ دنیا ساری کی ساری پونجی ہے (برتنے کی چیز ہے)لیکن ساری دنیا میں سب سے بہترین قیمتی چیز نیک و صالح عورت ہے۔ قربان جائیں آقا کے ارشادپر۔ بہترین اور قیمتی چیز عورت کو بتا کر اس کی عزت و وقار میں چار چاند لگادیئے۔ یہ ہیں عورتوں پر اسلام کے احسانات۔(باب نیک اور صالح عورت کا بیان، سنن صحیح و نسائی صحیح،جلد دوم حدیث نمبر ۳۲۴۰)آقا ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے اس حال میں انتقال کیا کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہواور خوش ہوتووہ جنت میں داخل ہوگی۔(ترمذی)۔سب سے پہلے انسانوں کو آزاد کرنے والے مذہبِ اسلام نے عورتوں کو ایک مستقل حیثیت عطاکی اور اللہ کے رسول نے فرمایا جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پرہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں۔ نکاح کو آزادانہ معاہدہ قراردیا۔ جو ہر قسم کی جائز شرائط پر مشتمل ہوسکتا ہے۔ خاص نامساعد حالات پیدا ہوجانے پر مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے سے علیحدگی کا حق رکھتے ہیں۔ عورت اپنے سرمایہ اور جائداد کی بے شرکتِ شوہر مالک ہے۔جہاں احادیث طیبہ میں عورتوں کے حقوق پر بہت سی احادیث طیبہ بشارت دے رہی ہیں وہیں عورتوں سے حسنِ سلوک و حقوق کی ادائیگی کے لئے اللہ رب العزت نے عورتوں سے اچھے برتاؤ کا حکم فرمایا۔وَعَاشِرُوْ ھُنَّ بِاالْمَعْرُوْفِ ج فَاِنَّ کَرِھْتُمُوْ ھُنَّ فَعَسٰی اَنْ تَکْرَ ھُوْ شَیْئاوَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْراً کَثِیْراً۔(القرآن سورہ نساء، آیت ۱۹)ترجمہ: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو پھر وہ اگر تمہیں پسند نہ آئیں تو قریب ہے کہ کوئی چیز پسندنہ ہو اوراللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔ (کنز الایمان)تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ میں ہے کہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اچھی طرح رہاکرو، پیارو محبت اور ملاپ سے بسر کرو۔ اس پر احسان کیا کرو۔ اگر تم ان سے محبت اور آپس کی الفت کو برا سمجھو گے تو تم ایسی چیز کو براسمجھو گے جس میں خدا نے تمہارے لئے خیر کثیر اور ہزاروں طرح کے نفع (فائدے) بنائے ہیں۔ یعنی صالح اولاد پیدا ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
نکاح دیندار سے کرو:نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عورت سے نکاح اس کی دین داری، اس کے مال اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے کیا جاتا ہے لیکن تم دیندار (عورت) سے نکاح کو لازم پکڑ لو تمہارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں،حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اس باب میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، عبداللہ بن عمرو، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔(با ب عورت سے نکاح کن باتوں کے سبب کیا جاتا ہے،جلد دوم، الترمذی، صحیح ابن ماجہ۱۸۵۸، سنن الترمذی حدیث ۱۰۸۶) وضاحت:بخاری و مسلم کی روایت میں چار چیزوں کا ذکر ہے چوتھی چیز اس کا حسب ونسب اور خاندانی شرافت ہے۔ یہ حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ دیندار عورت ہی صحیح معنوں میں نیک چلن شوہر کی اطاعت گزار اور وفادار ہوتی ہے جس سے انسانی معاشرتی زندگی میں خوشگواری آتی ہے اور اس کی گود میں جو نسل پروان چڑھتی ہے وہ بھی صالح اور دیندارہوتی ہے۔ اس کے برعکس تین طرح کی عورتیں عموماً انسان کے لئے زحمت اور اولاد کے لئے زحمت و بگاڑ کا باعث ہوتی ہے۔ تمہارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔ (یہاں بددعا مراد نہیں بلکہ شادی کے لئے جد وجہد و کوشش پر ابھارناہے) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورتوں سے حسن سلوک کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا اوپر والا حصہ زیادہ ٹیڑھا ہوتاہے۔ پس اگر اسے سیدھا کرنا چاہو تو توڑ دو گے اور اگر (اپنے حال پر چھوڑ دو تو ہمیشہ ٹیرھا رہے گا) پس عورتوں سے اچھا سلوک کرو۔(بخاری شریف، راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، حدیث نمبر۵۱۸۴) بخاری و مسلم کی روایت میں ہے عورت پسلی کے مانند ہے اگر اسے سیدھا کروگے تو توڑ دوگے اور اگر اس سے نفع اٹھانا چاہوگے تو اس کے ٹیڑھا پن کے باوجود نفع پاؤگے۔(بخاری شریف، راوی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حدیث ۳۳۳۱) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی مومن کسی ایماندار عورت سے بغض نہ رکھے اسے اس کی کوئی بات ناپسند ہو تو دوسری بات پسندہوگی۔ (مسلم شریف، باب عورتوں کے ساتھ خوش خلقی کے ساتھ پیش آنا) انسانیت کا منشور جو آقا ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر دنیا کو دیا جس کی کئی اہم شقیں اقوامِ متحدہ(UNO) نے اپنے منشور میں شامل کی ہیں۔ حجتہ الوداع کے خطبہ میں آپ نے حمد و ثنا کے بعد وعظ و نصیحت کی پھر آپ نے فرمایا: سنو! عورتوں سے حسنِ سلوک سے پیش آؤ، بے شک وہ تمہاری قیدی ہیں تم ان سے جماع(Mutual Sex) کے سوا ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو۔ سنو!بے شک تمہاری عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں اورتم پرتمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں ان کے سبھی حقوق ادا کرو۔ ان پر تمہارا حق ہے کہ وہ تمہارے نا پسندیدہ لوگوں کو تمہارے بسترروندنے نہ دیں۔(یعنی عزت و ناموس کی حفاظت کریں) اور سنو!تمہارے ذمہ ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کے لئے اچھا لباس اور اچھا کھانا مہیا کرو۔(بخاری ومسلم،حدیث نمبر ۵۰۲۳)
سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ آپ نے ”تبتل“ یعنی عورتوں سے الگ رہنے کی زندگی سے منع فرمایا۔ اگر نبی کریم ﷺ انہیں اجازت دیتے تو ہم تو خصی ہی ہوجاتے۔ (بخاری، باب مجردرہنا اپنے کو نامرد بنادینا منع ہے) راوی احمد بن یوسف ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، سعید بن مسیب رضی اللہ عنہم، حدیث نمبر ۵۰۷۳) عورتوں پر اسلام کے احسانات بے شمار ہیں۔
چھوٹے سے مقالے میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ عورتوں کے ہر طرح کے حقوق کی پاسداری اسلام میں ہے۔ اسی لئے حکم ہے شوہر کو چاہئے کہ بیوی کے فطری جذبات واحساسات کاپاس و لحاظ رکھے اور زیادہ دنوں تک بیوی سے جدا نہ رہے۔ اور اگر جدا رہنے کی مجبوری ہے تو اسے چاہئے کہ بیوی کوساتھ رکھے تاکہ حقِ زوجیت بھی ادا ہو اور دونوں پر سکون زندگی گزاریں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اہلِ بیت کے پاس بہت سی عورتیں اپنے خاوند کی شکایت لے کر آتی ہیں ایسے لوگ پسندیدہ نہیں ہیں۔(ابو داؤد) عورتوں کو مار پیٹ کرنے سے لوگوں کو آپ ﷺ نے ناپسندفرمایا۔ آجکل مردوں کے اندر عام مزاج بن گیا ہے۔ جہاں مزاج کے خلاف کچھ ہولگے مارنے پیٹنے۔ اس حدیث پاک سے ایسے لوگوں کو عبرت حاصل کرناچاہئے۔ عورت پر ظلم و ستم کرنے سے گھریلو زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ فیملی لائف عذاب کی طرح گزرتی ہے۔ اس کا مداوا،اس کا حل صرف یہی ہے کہ اللہ کے رسول کے احکامات پرعمل پیراہوں۔ عورت کے ٹیڑھے پن کے باوجود ان سے فائدہ اٹھائیں یہ حسن سلوک سے پیش آنے پر ہی ممکن ہوگا۔ بہت سی احادیث و آیات کریمہ میں اس کی وضاحت ہے۔ عورت کے کئی روپ ہیں۔ بیٹی، بہن، بیوی، ماں کچھ دوسرے پہلو پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
عورتوں پر اسلام کے احسانات……
بیٹی نعمتِ الٰہی:اللہ رب العزت کی تخلیق میں انسان کو بہت عزت و وقار حاصل ہے۔ یقیناًہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدافرمایا(قرآنی مفہوم) اور اس میں عورت کی پیدائش کا ذکرپہلے فرمایا۔ (القرآن سورہ شوریٰ، آیت ۴۹۔۵۰) ترجمہ: اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت۔پیداکرتاہے جو چاہے جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملادے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے۔ بے شک وہ علم و قدرت والا ہے۔ (کنز الایمان) اللہ نے پیدائش کے ذکر میں بیٹی کا ذکر پہلے فرمایا۔ اس سے بڑی عزت و عظمت اور کیاہوگی۔ احادیث میں بھی فضیلتیں موجود ہیں۔ بیٹی جو آگے چل کر بہن اور ماں کا روپ دھارن (اختیار) کرتی ہے اور پھر ماں کی اہمیت اللہ کے نزدیک بہت ہے۔ ماں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے وہ خوبصورت عطیہ ہے جس میں اللہ نے اپنی رحمت، فضل، کرم، رحیمی، برکت، راحت اور عظمت کی آمیزش شامل فرماکرعرش سے فرش پر اتارا اور اس کی عظمتوں کوچار چاند لگا دیا۔ قرآن کریم میں ارشاد باری ہے۔ وَعْبُدُواللّٰہَ وَلاَتُشْرِکُوْ بِہٖ شَیْئاً وَّ بِاالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً۔(القرآن، سورہ نساء، آیت ۳۶) ترجمہ: اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو۔(کنز الایمان)دوسری جگہ اس طرح حکمِ الہٰی ہے۔ (القرآن،سورہ بقرہ،آیت ۸۲)ترجمہ: اور یاد کرو جب لیا تھا ہم نے پختہ عہد بنی اسرائیل سے (اس بات کا) نہ عبادت کرنا بجز اللہ کے اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا۔ والدین کی عظمت کا ثبوت اس سے بڑا اور کیا ہوسکتا ہے کہ رب نے اپنے اسم جلالت کے ذکر کے ساتھ والدین کی خدمت کا حکم دیا۔ اور دوسری آیت میں ماں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ماں کی عظمت کا بھی اعلان فرمایا۔ (القرآن، سورہ احقاف، آیت ۱۶) ترجمہ: اور ہم نے آدمی کو حکم دیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے۔ اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور جنا(پیدا کیا)اس کو تکلیف سے اور اسے اٹھائے رکھا پھرنا اور اس کا دودھ چھڑایا تیس(30) مہینے میں۔(کنزالایمان) ماں باپ اگر کافر ہوں تب بھی ان کی خدمت اولاد پر لازم ہے کیونکہ والدین کا حکم مطلق ہے۔ رب تعالیٰ نے فرمایا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حق الخدمت ماں کا زیادہ ہے کیونکہ ماں کی تکلیف کا بیان ہے اور یہ کہ ماں نے بچہ کو خون پلا کر (خون سے ہی دودھ بنتا ہے) پالا اور باپ نے محنت کرکے کمائی کی اور پرورش کی۔ ماں کی تکلیف کو وجہ بتایا گیا نیز ماں اگر خاوند سے اجرت لے کر بھی بچے کو پالے جب بھی ماں کا حق اولاد پر قائم رہے گا۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے فرعون سے اجرت لے کر پالا اور پرورش فرمائی۔ (تفسیر نورالعرفان، صفحہ۸۰۳)
اللہ جل شانہٗ اور اس کے پیارے محبوب ﷺ نے بندوں کے حقوق کو واضح طور پر بیان فرمائے بلکہ ان پرعمل پیرا ہونے کی تاکید بھی فرمائی تاکہ خاندانی زندگی اور معاشرتی زندگی پر سکون گزرے۔ اگر مسلمان حقوق العباد کی ادائیگی کاپاس و احترام کریں تو صالح معاشرہ کے لئے آج تمام تنظیموں و جماعتوں کا رونا بند ہو جائے اور مقدمہ بازی اور عدالتوں کے چکر سے نجات میں رہے۔ عورتوں سے حسنِ سلوک اسلامی تعلیم کا حصہ ہے۔ نکاح و طلاق وراثت سب میں عورتوں کے حقوق واضح طور پر بیان کیا اور لاگو کیاگیا۔خواہ بیٹی ہو، بہن ہو، ماں ہویا بیوی آج اسلام دشمن و مسلمان بیزار میڈیا (Media)و جماعتیں واویلا مچا رہی ہیں،عورتوں پر ظلم ہورہا ہے۔یہ اسلام و مسلمانوں کے خلاف شعوری طور پر سازش ہے اور کچھ نہیں۔ قرآن کریم میں رب تعالیٰ کا صاف صاف ارشاد گرامی ہے۔ وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِاالْمَعْرُوْفِ ط ترجمہ: عورتوں کے حقوق مردوں پر اسی طرح ہیں جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں اچھے سلوک کے ساتھ۔حقوق انسانی میں تمام مر دو عورت کے مساوی حقوق، اخلاق اور احسان، عبادات میں مردکے برابر ہیں۔ہم تمام مسلمانوں کا یہ اسلامی فریضہ ہے کہ اپنی بیویوں کو عزت و وقار سے رکھیں ان کے حقوق کی ادائیگی میں رب تعالیٰ سے ڈریں اور حقوق پامال نہ کریں۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہم مسلمانوں کوخاندان و اسلامی عائلی قوانین کی جاننے اور اس پرعمل کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین!