بے راہ روی و عریانیت اور منشیات کے خطرناک دھندے بڑے پیمانے پر ہورہے ہیں۔ ہر چارسو ذہنی افتراح اور مادیت پرستی نے اپنا جال ایسا بچھایا ہے اب جو اس بدعت سے بچنا چاہتا ہے وہ بھی کافی کوششوں کے باوجود بھی چھٹکارا حاصل نہیں کرپاتا ہے۔ کیونکہ کہیں نہ کہیں وہ بھی اس گند آلو د کنویں سے اٹھنے والی چھینٹوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ جس سے اس پاک دامن کا دامن بھی بچابچا کے ناپاک ہوجاتا ہے۔اس کے لئے سدباب اور اس کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟
ہوش مند اور ذی حس انسانوں کیلئے اس پر سوچ وچار کرنا لازم آتا ہے۔ یہ شہرودیہات میں رہنے والا ہر متنفس آج کل اچھی طرح جانتا ہے کہ الیکٹرانک سہولیات نے جہاں انسان کو آسمان کی اونچائیوں کو چھونے میں مدد کی وہیں ان سہولیات نے انسان کو زمین بوس کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ دی۔ موبائل فون یا دیگر مواصلاتی ذرائع جو انسان کو سہولیت فراہم کرنے کیلئے عظیم سائنسدانوں نے منظر عام پر لائے لیکن معلوم نہیں تھا کہ ان کا ایسا استعمال بھی ہوجائے کہ انسان اپنی بنیادی سطح سے گر کر حیوانیت اختیار کرے۔ اگر اب بھی انسان جو اشرف المخلوقات کا لقب پایا ہوا ہے سوچنے کی کوشش نہ کریں تو ایسا طوفان برپا ہوگا جس کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ روم اور یونان نے ان بے راہ رویوں کی شروعات کی اس طرح سے مغرب نے عریانیت اور بے حیائی پھیلا کر دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
یہاں تک مذہب اسلام سے مزّین ممالکوں اور ریاستوں میں بڑی تیزی سے پھیل گیا اور اس سیلاب میں وادی کشمیر جو پہلے پہل ’پیرواری‘کے نام سے موسوم تھی میں عریانیت اور بے راہ روی نے ایسا جال بچھایا کہ ہر کوئی ہوش مند اور اپنے اسلافوں کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق چلنے والا چلنے سے کترا رہا ہے۔ کیونکہ ہر طرح بے راہ روی اور عریانت پھیلی ہوئی ہے۔ اگر ایسے ہی حالات جاری رہے تو شاید اس پیرواری میں جہاں ہر طرف آج بھی مساجدوں میں اذانیں گونج رہی ہیں ان اذانوں کی آواز بھی نام نہاد مسلمانوں پر بارگراں گذرے گی۔ کیونکہ یہاں ہر سو فلمی گیت گانے اور موسیقی اور باجا ستارے کا راج ہے۔
پولیس جو ان جرائم کے خاتمہ اور روک تھام کیلئے ہر جگہ پر مامور تھی اپنی احساس ذمہ داریوں سے دور پڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ پولیس اگر چاہے تو قانون کے بل پر ان تمام برائیوں کا خاتمہ کرنا سہل اور آسان ہے۔ لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ابھی تک شامل حال ہے کہ آج بھی مردان حق زندہ ہیں جو ایسی نوعیت آپہنچنے سے پہلے ہی اٹھ کھڑا ہونے کی تکدو میں لگے ہوئے ہیں اور سماج میں بڑی تیزی سے پنپ رہے برائیوں اور منشیات کے بڑھتے رجحان کے انسداد اور مکمل خاتمہ کے خاطر سرفروشوں کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کرنے کیلئے تیار بہ تیار دکھائی دے رہے ہیں۔
اگر چہ سماج کا ہر شعبہ کا ہر فرد ان بے حیائی اور برائیوں کے پھیلنے کا ذمہ دار ہے اور نوجوان اس لت میں زیادہ طور مبتلا ہورہے ہیں لیکن سماج کے ذی حس نوجوانوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آج سے ہی متحرک ہو کر ان تمام برائیوں کا قلع قمع کرکے ایک صاف اور پاکیزہ ماحول قائم کرنے میں اہم رول ادا کریں۔ورنہ ہمارا معاشرہ حیوانوں کا سا رخ اختیار کرے گا اور ایسا سیلاب اْمنڈ آئے گا پھر اس کا روکنا محال ہوگا۔ضرورت اس بات کی کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ان سماجی بْرائیوں کا خاتمہ کرنے کے لئے اپنا رول ادا کریں۔تاکہ ہمارا سماج بہتر اور باوقار تعمیر ہوسکے۔