تحریر: خُشبو بنت جاوید
طالبه معلم کھنہ بل
جو یقین کی راہ پہ چل پڑے، اُنہیں منزلوں نے پناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا، وہ قدم قدم پہ بہک گئے۔
زندگی میں انسان کو مختلف قسم کے حالات پیش آتے ہیں۔ خوشی، غم، تندرسی، صحت اور بیماری، امیری اور غریبی کی بدلتی صورتیں حیاتِ انسانی کا لازمہ ہیں۔
زندگی کے نشیب و فراز میں پیش آمدہ مسائل کا سامنا بھی سب انسان اپنی اپنی شعوری حالتوں کے مطابق کرتے ہیں۔ ہر انسان کو اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں آزمائشی دور سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس زندگی میں ہر انسان کی آزمائش اُسکی حیثیت و سکت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس دنیا میں پنپنے والے دوسرے باطل مذاہب کے ماننے والوں پر فوقیت و عظمت دی ہیں۔ اس دنیا میں حق پر مبنی زندگی گزارنا آسان نہیں ہے۔ یہ حق گوئی کا راستہ ہموار نہیں ہےبلکہ یہ آزمائش سے پُر ایک ڈگر ہے۔ جس پر صبر اور استقامت سے چلنے کا انعام "عظیمُ الشان جنت” ہے۔
زندگی میں چھوٹی چھوٹی آزمائشوں پر کھرا اُترنا آسان ہوتا ہے لیکن جب بھی کوئی بڑی آزمائش انسان کو گھیر لیتی ہے تو قدم لڑکھڑانے لگتے ہے۔ مگر ایک مومن کبھی بھی آزمائشوں میں ناکام نہیں ہوتا اور نہ وہ آزمائشوں کی تمنا کرتا ہے کیونکہ جس نبی ﷺ کا وہ اُمتی ہے اُس نے ہمیشہ ﷲ تعالیٰ سے عافیت طلب کی ہے اور اپنی اُمت کو بھی یہی تعلیم دی ہے۔ مگر جب ﷲ تعالیٰ اپنے بندہِ مومن پر آزمائش کا پہرہ ڈال دے تو وہ بندہ اس آزمائش کو صبر کے ہتھیار سے شکست دیتا ہے۔ انسانی ذہن میں ضرور یہ سوال بھی گردش کرتا رہتا ہے کہ ﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو کیوں آزماتا ہے۔ اسی بےلگام سوچ کو ﷲ تعالیٰ نے سورۃ ال عمران میں لگام پہناتے ہوئے فرمایا
” کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ محض ایمان کا دعویٰ کرکے جنت میں داخل ہو جاؤ گے؟ حالانکہ ابھی تو ﷲ نے جانا ہی نہیں کہ تم میں کون ہیں جنہوں نے حق کیلئے اپنی پوری جدو جہد کر ڈالی۔ اور وہ کون ہے جو راہِ حق پر ہر حال میں جمنے والے ہیں۔ ”
ہر دور میں ہر نبی اور اہلِ حق کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ان کو آزمائش کے مراحلوں سے گزرنا پڑا ہے۔ جیسا کہ ﷲ تعالیٰ سورۂ عنکبوت میں فرماتے ہے
” اور ہم نے سب مدعیانِ ایمان کو آزمایا جو اِن سے پہلے گزر چُکے ہیں۔ ”
ہمارے اسلاف عزم و حوصلہ، زہد و تقویٰ، امانت و دیانت اور صبر و استقامت کا پیکر ہوا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنکی سیرت ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ اُنہوں نے ہر طوفانِ بلاخیز کا جواں مردی سے مقابلہ کیا اور اپنے عظیم مشن سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ ہمارے اسلاف کی جو خدمات ہے وہ اُمتِ محمدیہ کی روشن اور تابناک تاریخ کا نمایاں باب ہے۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
انہی عظیم اور بلند عزم والے اسلاف کے وارث، ملنساری کے پیکر، انتہائی متانت اور سنجیدگی سے کشید شخصیت اور بے پناہ خوبیوں کے مالک انسان، وادیِ کشمیر کے معروف شیریں بیاں خطیب ” فضيلة الشيخ مشتاق احمد ویری حفظه الله ” ہے۔ محنت و مشقت، دعوت و تبلیغ اور شیریں بیانی میں وہ اہلِ کمال اور اپنی مثال آپ ہے۔
مشتاق احمد ویری صاحب ۲۶ اپریل ۱۹۷۷ میں جنوبی کشمیر کے ایک گاؤں ویری بجبہاڑہ میں ایک ذراعت پیشہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ یہ شہر سے بعید گاؤں مشتاق احمد ویری صاحب کی وجہ سے نہ صرف ریاستِ جموں و کشمیر میں بلکہ بر صغیر پاک و ہند میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اپنے ہی گاؤں سے ویری صاحب نے ابتدائی تعلیم حاصل کی، ہائی سکول نانل سے میٹرک مکمل کیا اور پھر ہائر سیکنڈری سکول اسلام آباد میں داخلہ لیا۔ بعد میں دربھنگہ بہار سے آئی – ایس – سی پاس کیا۔ گورنمنٹ ڈگری کالج کھنہ بل میں مزید تعلیم حاصل کی۔
ﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ” کل شئی مرھون بأوانه ” کے تحت ایک باحوصلہ و ہمت اور اولوُالعزم شخصیت مشتاق احمد ویری صاحب حفظه الله نے بالترتیب دورِ آخیر کی تاریخ جس جگرکاوی، جانفشانی اور لگن سے باور کرانے کی سعی مشکور فرمائی ہے اس پر اُن کیلئے دل سے دعا نکلتی ہے اور رشک ہوتا ہے کہ شہر سے دور ویری کے گاؤں میں اُنہوں نے اس طرح کے عظیم کام کا بھیڑا کیسے اُٹھایا اور اسے پار لگانے کیلئے عملی طور پر کامیابی کی راہیں کیسے ہموار کردی۔ اُنکی محنت و مشقت لائقِ قدر اور بیش بہا دولت ہے۔ جس پر آپ ہر طرح سے شکر و دعا کے مستحق ہے۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشند خُداۓ بخشندہ
مشفق اُستادِ محترم نے تبلیغ کی ابتداء اپنے ہی گاؤں کی مسجد بنامِ حنفیہ مسجد اور جامع اہلحدیث ویری سے کی، اسکے بعد آپ دعوتی فریضہ انجام دینے کیلئے جامع اہلحدیث بجبہاڑہ، زینہ کدل سرینگر، ٹاک مسجد شوپیاں میں بحیثیت خطیب رہے۔ حال میں وہ جامع اہلحدیث شیرباغ میں اپنا دعوت و تبلیغ کا کام انجام دے رہے ہے۔ مگر بأذن ﷲ ویری صاحب پوری ریاست میں اپنی شیریں بیانی کی وجہ سے مشرف و مقبول ہوگئے۔
ویری صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ نے ملک کے مختلف شہروں کے ساتھ ساتھ سرزمینِ طائف میں بھی دعوتِ توحید کی آواز کو بلند کیا۔ یہ وہی سرزمینِ طائف ہے جسکے متعلق محمد ﷺ سے امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ کیا آپ ﷺ پر یومِ اُحد سے بھی کوئی سخت دن گزرا ہے؟
اسکے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ پر سخت ترین دن یومِ طائف تھا۔ کیونکہ یہ واحد موقع ہے جہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ جو سائے کی طرح ساتھ رہنے والی شخصیت تھی۔ وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہیں تھے۔ جہاں تنِ تنہا رسول اللہ ﷺ کو لہولہان کیا گیا۔
اُسی عظیم نبی ﷺ کے اُمتی ہونے کے ناطے ویری صاحب نے نوجوانانِ اُمت کو یہ بات باور کرائی کہ مسلکِ اہلحدیث ایک فکر اور عظیم حقیقت کا نام ہے جسے جُھٹلانا معاندین کے بس کی بات نہیں ہے اور نہ ہی کبھی حق – باطل کے حربوں سے نابود ہوسکتا ہے۔ ویری صاحب نے نوجوان نسل کو یہ یاد دلایا کہ یہ وہی دعوتِ حق ہے جو آج سے ۱۴۴۴ سال قبل فاران کی چوٹیوں سے نمودار ہوئی تھی۔
ہم سب کو یہ بات محلوظِ خاطر رہے کہ ویری صاحب کا ایک منفرد اسلوبِ بیان ہے جسکی وجہ سے وہ منہجِ اہلحدیث میں ایک خاص رائے و فکر رکھتے ہیں۔
انہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں جس سادگی کو مزخرفاتِ دنیا پر ترجیح دے رکھی ہے، وہ آپ کے خطبوں میں بھی کارفرما ہے۔ ویری صاحب تکلفات سے خود کو دور رکھتے ہے۔ وہ بہت سے بنیادی اور اہم کاموں کو جو تاریخ کا حصہ بنتے، جس سے َاُنکی دنیا سنورتی اور جو اُنکی ناموری کا ذریعہ بنتے پسِ پُشت ڈال کر محض ﷲ کی رضا کو ترجیحِِ اول رکھا۔ ویری صاحب اخاذ اور نقاد ذہن کے مالک ہیں، دعوت و تبلیغ اور مطالعے کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں۔ یہ ﷲ کی طرف سے احسان ہی رہا ہے کہ ویری صاحب آتشِ جوانی یا یوں کہے کہ عمر کے موسمِ بہار میں دینِ کی عظیم خدمت میں دن رات کوشاں رہے۔ ویری صاحب نے ﷲ کی دی ہوئی اس توفیق کو سمیٹ کر شاہینوں والا کام کیا ہے۔
تعریف کے محتاج نہیں ہوتے سچے لوگ
پھولوں کو کبھی عطر لگایا نہیں جاتا
ویری صاحب محض ﷲ کی رضا کی خاطر ہر باطل سے ٹکڑا گئے، تو ﷲ نے بھی اس صاحبِ عزیمت و استقامت کو سرخ رو فرمایا اور اسکی قربانیوں کو بآرآور فرمایا اور ان کو عزم و حوصلہ سے نوازا ،جیسے وہ ممولے کو شہباز سے لڑنے کا حوصلہ عطا فرما دیتا ہے اور گنجشک فرومايه کو ہمدوشِ سلیماں کر دیتا ہے۔
ویری صاحب کی ذات درج ذیل مصرعہ اور شعر کے بلکل مصداق ہے۔
ایں کار از تو آید و مرداں جنیں کنند
ہزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدور پیدا
ویری صاحب نے اپنی زندگی میں بہت ساری آزمائشوں کا سامنا خندہ پیشانی سے کیا۔ اُن کے جذبہ عمل بالقرآن و حدیث کی وجہ سے ویری صاحب کو اپنوں کی نشتروں سے نکلے تیر بھی سینے پر سہنے پڑے۔ ستم بالاۓ ستم یہ کہ ویری صاحب کو بہت سے ظلم تنِ تنہا برداشت کرنے پڑے، جس میں دار و ستم اور قید و بند جیسی بہت سی صعوبتیں شامل ہے۔ غیر تو غیر اپنوں کی آستینوں میں پنہاں خنجر بھی کارفرمائی میں آگے آگے تھے۔
ہمیں یاد ہیں سب ذرا ذرا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
یہ سب صعوبتیں برداشت کرنے کا فن ﷲ تعالیٰ نے ویری صاحب میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے دعوت و تبلیغ کے ذریعے تقلیدی اور شرکی جمود پر ضربیں لگائی۔ انہوں نے اصل حقائق کی وضاحت کی اور قرآن و حدیث پر اڑائی ہوئی تقلیدی گرد و غبار کو صاف کرنے میں ہر لمحہ کوشاں رہیں۔
خلاصہِ کلام یہ ہے کہ ہزار خرابیوں کے اس دور میں مشتاق احمد ویری صاحب جیسے لوگ پیکرِ اخلاص ہے۔ جو اپنی تمام تر خدمات نہایت خاموشی سے انجام دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ شب دیجور کے چراغ کی مانند ہیں جنکی روشنی دور دور تک پھیلتی ہے اور پُرنور زندگی کا پتہ دیتی ہے۔
آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم ویری صاحب جیسے عظیم اشخاص کی زندگیوں کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ ان نجومِ ہدایت لوگوں نے دین کی سربلندی کو برقرار رکھنے اور بعد کی نسلوں تک دین کی صحیح تفہیم کیلئے جو کچھ کیا ہے ہم سب اُس سے کیا کیا سیکھ سکتے ہیں۔
آخر پر میں ﷲ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ ﷲ تعالیٰ میرے مُشفق اُستادِ محترم مشتاق احمد ویری صاحب کی ہر کاوش کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور اُنکی ہر تگ و دو کو اُنکے والدین کیلئے ، اُنکی اپنی ذات کیلئے اور اُنکے اہلِ خانہ کیلئے نجات کا ذریعہ بنائے۔ ﷲ تعالیٰ اس روشن ستارے کی روشنی سے ہمارے تاریک وجود کو منور کریں اور ہمارے دلوں کو حسد سے اور سینوں کو کینوں سے پاک کریں۔ آمین یا رب العالمین
جوانوں کو میری آہ و سحر دے، پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
خُدایا آرزو میری یہی ہے کہ میرا نورِ بصیرت عام کر دے
( وما توفیقی الا با اللہ)