میرے ہاتھوں کے چھالے
میرے قدموں کے زخم
میری آنکھوں میں آنسو
گواہ ہیں مزدور ہوں میں
طلوع سحر کو نکلنا
غروب یوم کو لوٹ آنا
نگاہوں میں چھپے ارمان
یہ بوجھل قدم گواہ ہیں
۔
میری خواہشیں بڑی قلیل
میری تمنائیں بڑی مختصر
میرے ارادے ہیں بڑے بلند
میری محنت ہی میری دنیا
میرے ہاتھوں کے چھالے
جو انگلیوں کو بے نور کئے ہوئے
میرے چہرے پر آسار تھکن
میرے لباس پر لگئے پیوند
سوکھی سی روٹی لئے
ہر روز نکلتا ہوں میں
بیوی بچوں کے لئے لڑنے
میرے پسینے کی بو کی لہر
مجھے محبوب ہے عطور سے
اسی پسینے کی بوند بوند سے
آتی ہے صدا میرے کرب کی
آئے وہ جو میرے حاکم ہو ٹھرے
تمہیں نیند نہیں آتی ریشم پر
میں سرراہ بھی سو جاتا ہوں
گرمی و سردی میری معاون
ریشمی تکئے کی حاجت نہیں
لے کے پتھر میں رکھ دیتا ہوں سر
میرے سکون و تیرے سکون میں
یہ فرق ہے مجھے آئے تم کو نہیں
اک روز کو رکھا گیا ہے میرا نام
میں اس دن بھی در در کام کیا
اک انجانا سا جنٹلمین جیسا
میرے نام پے گرجا دن بھر وہ
جب شام ہوئی مزدوری میری
وہ اپنی جیب میں رکھ کر مسکایا
میں حیران رہ کر تکتا رہا
اس منصف کی راہ وہ چل دیا
بوسہ لیا پھر اپنے ہاتھوں کا
پیر جلے پر میں چلتا رہا
میرے گھر میں بچے تھے
وہ دیکھ مجھے پھر مسکائے
پر میرا سر جلدی میں جھک گیا
میرے ہاتھ لفافے خالے تھے
میرے گھر پر خوشیاں ہوتی نہیں
غیروں کی خوشی میں ہنستا ہوں
میرے بچے بھی بڑے عاقل ہیں
میری غربت میں وہ روتے نہیں
پر شکوہ کبھی وہ کرتے ہیں
کیا بابا ہم انسان نہیں
الطاف جمیل ندوی