راقم الحروف: مزملؔ ابن عبداللہ
شوپیان وادی کشمیر کا وہ علاقہ ہے جسکی سرزمین گلستان علم و ادب کےلئے بہت ہی زرخیز ثابت ہوئی اس زمین کی کوکھ سے ایسے سدابہار درخت پیدا ہوئے اور پھلے پھولے کہ جنکی چھاؤں میں بھولے بھٹکے اور تھکے ہارے مسافروں نے منزل مراد پائی ۔ یہاں ایسے عالم و فاضل ادیب و شاعر معرض وجود میں آئے کہ جنکا دنیائے علم وادب میں اپنا ایک منفرد مقام ہے یہاں ایسے تارے چمک اٹھے جنہوں نے ظلمتکدوں کو منور کیا
اسی قصبہ شوپیان سے تقریباً آٹھ کلو میٹر دور مشرق میں ایک مشہورومعروف گاوں آتا ہے مولو ڈانگر پورہ ااور اسی ڈانگرپورہ گاوں میں 1904 میں ایک کسان کے گھر ایک بچہ جنم لیتا ہے جسکا نام اسکے والد محترم لسی پال نے عبدالقادر پال رکھا ۔عبدالقادر نے جب ہوش سنبھالا تو ہر طرف جہالت کا دور دورہ تھا فطری طور پر یہ ناسمجھ بچہ بھی اسی ماحول سے متاثر ہوجاتا مگر لوگوں کا کہنا ہےکہ وہ بچپن سے ہی بہت سمجھدار اور زیرک تھا متاثر ہونا تو درکنار وہ تو اس سماج سے بہت ہی متنفر ہوا۔اور جب وہ سِن شعور کو پہنچے تو انہیں روایتی طریقے سے کسی پیر صاحب سے گلستان بوستان پڑھائی گئی اور دینی تربیت بھی دی گئی پیر صاحب کی تعلیم و تربیت سے متاثر ہوکر اپنے کلام میں یوں رقمطراز ہیں
؎ قادر پالس یی وون پیرو
تِم گیہ عالم باارشاد
ہاوتھ تئی دیؤت کل تفسیرو
چھوَئے ہمشیرو آخرت یاد
یہ بچہ ناخواندہ ہونے کے باوجود بھی بچپن سے شعروشاعری کا شوق رکھتا تھا اور کبھی کبھی طنزیہ انداز میں شعر کہتا تھا لیکن ناتجربہ کاری کی وجہ سے سنجیدہ شعر نہ کہہ سکا ۔ خود مرحوم کا کہنا ہے کہ میری زندگی میں اور میرے دل ودماغ میں اسوقت انقلاب آیا جب وہ ابھی یہی کوئی دس بارہ سال کا تھا کہ ایک دن ژرارِ شریف زیارت کے دوران رات کو خواب دیکھا خواب میں کسی سفید ریش نورانی بزرگ نے اِنہیں دودھ کا پیالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسے ایک ہی گھونٹ میں نو ش کرے لیکن پاؔل صاحب جو کہ ڈرے ہوئے تھے اوردودھ پینے سے انکار کیا مگر بزرگ کے بار بار اصرار کرنے پر پاؔل صاحب نے اپنی انگشت شہادت پیالے میں ڈبودی اور انگلی کو چوسا تو بہت مٹھاس محسوس کی اب وہ سارا پیالہ پینا چاہتے تھے لیکن نظر اٹھا کر دیکھا تو بزرگ غائب ہوگئے تھے وہ جب بیدار ہوگئے تو اس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی اس کے اندر ایک آتش فشاں سلگ رہا تھا جو باہر نکلنے کو بیتاب تھا یہ آتش فشاں جب پھٹ پڑا تو پالؔ صاحب کے منہ سے شاعری کے چشمے ابلنے لگے۔اور اب وہ ایک پختہ شاعر بن چکے تھے غالباًً اسنے جو ابتدائی کلام کہا اس سے چند اشعار منقول ہیں
؎ الف اللہ پرودگار ب ہَس معنی ژار اتیے
تے چھی طمہچ تار ثے سبزار لئتیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شب وروز چھم تورئچ کل تہ لو لو
لارہ درگاہ حضرت بل تہ لولو
باغِ نسیم بونین تل تہ لو لو
لارہ درگاہ حضرت بل تہ لو لو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہ لاجس یارئی پامن میہ جامن چاک دِنوئی
شرک تراؤ صفا کر وچَھن گژھ سِرِ داوَر
سہ معبود چھوئی کنوئی میہ جامن چاک دنوئی
اگر چہ انکا کلام ابتداء سے ہی روایت پرستی سے پاک تھا مگر اسکی شاعری کو خالص اسلام اور توحید کے رنگ سے رنگنااسکے کچھ ہم اثر توحید پسند علماء کے عمل دخل کا نتیجہ ہے جن میں مرحوم الحاج محمد امینؔ شوپیانی جناب مولانا احرؔا ر صاحب اورمولانا حکیم غلام نبؔی صاحب انکے ہم پیالہ اور ہمنوالہ دوست شامل ہیں اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جب انکے کلام کو کتابی شکل مرحوم عبدلحی ندیؔم نے دی جوکہ پالؔ صاحب کے پوتے تھے تو مولانا حکیم غلام نبی کے کہنے پر ہی کتاب کانا م ” اشارہ توحید“ رکھا گیا
عبدالقادرپالؔ نے جب سنِ بلوغت میں قدم رکھا تو انکی شناسائی مرحوم محمد امین شوپیانی سے ہوگئی خیالات کی یک رنگی اور یکسانیت کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کے قریب آتے گئے امینؔ صاحب کی تبلیغ و ترغیب سے وہ توحید پرست, انسان دوست , آخرت پسند اور توحید پرست انسان ہوگئے اور انکے شعروسخن کا دھارا خالص شریعت اور توحید کی طرف بڑھا۔ اور اسی بنا پر وہ غلط رسم و رواج بے جا اصراف اندھے اعتقاد عوام کی غفلت شعاری حکام کی عیاری اور جہالت جیسے بدعات کے شدید مخالف ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ انکا کلام کہیں کہیں طنزیہ ہوگیا پہلے پہل تو کچھ نادان کم شعور اور جاہل لوگوں نے انکی سخت مخالفت لیکن پھر وہ وقت بھی آیا جب اِنہی لوگوں نے انکو اور انکے کلام کو اپنے دلوں میں جگہ دی اور اب انکا کلام زبان زد ہر خاص وعام ہوچکا ہے علاقے کی مائیں بہینیں شادیوں میں شوقاً انکا ونہ ون اور رؤف پڑھتے ہیں چناچہ دیدارِ محمدﷺ کی تمنا دل میں لئے نعت گو ہیں
میہ دَردل فراق چھم سیٹھاہ اشتیاق چھم
زِ یارب بہ وچھ ہا سوہ روئے محمدﷺ
۔۔۔۔۔۔۔
عربئکہ جوہر مدنی لالو ماہِ مثالو وندیو جان
یوس تئمی مالکن نیونکھ سالو فلکن کھورنکھ حشمتہ سان
ملکو کورہیے استقبالو ماہ مثالو وندیو جان
مرحوم اگرچہ ان پڑھ تھے مگرانکی شاعری پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے یہ کسی تعلیم یافتہ اور کسی عالم کی یاکسی واعظ کی وعظ و نصیحت ہو۔ انکے کلام میں ایسی حکیمانہ باتیں کہیں گئی ہیں جو کسی صاحبِ علم کا ہی کمال ہے اور کمال تو یہ ہے کہ ان پڑھ ہونے کے باوجود بھی انکے کلام میں انگریزی عربی اور فارسی کے الفاظ کثرت سے استعمال ہوئے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ انکی شاعری الہامی ہےاور انکی دوربین نگاہوں نے وہ سب کچھ پہلے ہی دیکھا تھا جو کچھ ہم آجکل دیکھ رہے ہیں وہ اپنی شاعری میں یوں رقمطراز ہیں
؎ درویش مستی تراو گوفہ نیر نیبر وچھ
سہلاب پکان چھوئی چھے نا ژیہ خبر وچھ
رودکھ ژہ غار نشین کئتیاہ گئیہ بے دین
اسلام گو مسکین کفرئچ تبر وچھہ
۔۔۔۔
سرکار ائستھ کیازہ مسلم بیکار گومت چھکھ
سردار ائستھ کیاز مسلم بیوار گومت چھکھ
۔۔۔
ہا بایِہ میانیو رایِہ ڈؤلس انجام مئشتھ گؤم
بندگی کئرم میہ نفسئچی اسلام مئشتھ گؤم
الغرض ایک ناخواندہ عام انسان سےلےکر ایک پختہ اوروسیع النظر شاعر بننے کے پیچھے کہیں نہ کہیں صحبت صالحین اور خواب میں بزرگ کے دیدار اوردودھ کے پیالے میں انگلی چوسنا ہی پاؔل صاحب کی شاعری کو بام عروج تک لے جانے کا بہانہ بنا
اللہ تعالی تمام مرحومین سمیت انہیں مرحوم عبدالقادر پال کو بھی مغفرت کرے اور اعلی علیین میں جگہ دے ۔ آمین