‘نہ تو قانون میں کوئی تبدیلی کی گئی اور نہ ہی کسی بیرونی شخص کو زمین الاٹ کی جا رہی ہے’
سرینگر، جولائی 05: محکمہ دیہی ترقی نے جموں و کشمیر میں پی ایم آواس یوجنا کے تحت بے گھر لوگوں کو زمین فراہم کرنے کے لیفٹیننٹ گورنر کی قیادت والی انتظامیہ کے حالیہ فیصلے پر پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کے الزامات کو بدھ کو مسترد کردیا۔
محکمہ نے ایک تفصیلی بیان میں کہا کہ محبوبہ مفتی کا یہ بیان کہ حکومت دو لاکھ افراد کو زمین الاٹ کر رہی ہے حقائق کے مطابق نہیں ہے اور ان کے ذریعہ دیئے گئے تمام بیانات پی ایم اے وائی اسکیم اور جموں و کشمیر کے ریونیو قوانین کے برعکس ہے جس کے تحت بے زمین افراد کو رہائش کے مقاصد کے لئے زمین الاٹ کرنے کی اجازت ہیں۔
محکمہ نے ایک بیان میں کہا کہ پی ایم اے وائی (گرامین) کا پہلا مرحلہ جنوری 2016 کو شروع ہوا تھا جس میں سماجی اقتصادی اور ذات پات کی مردم شماری 2011 میں جموں و کشمیر میں 257349 بے گھر معاملوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ گرام سبھا وں کے ذریعہ مناسب جانچ پڑتال کے بعد 2022 تک سب کے لئے ہاؤسنگ کے لئے وزیر اعظم کے مجموعی وعدے کے تحت جموں و کشمیر کے لئے 136152 معاملوں کی منظوری دی گئی۔
اس اسکیم کے تحت حکومت ہند کے ذریعہ فی گھر 1.30 لاکھ کی فی یونٹ امداد فراہم کی جاتی ہےجس میں مکان کا کم از کم سائز ایک مرلہ ہے۔
حکومت نے جنوری ۲۰۱۸ سے مارچ ۲۰۱۹ کے دوران آواس پلس سروے کیا تا کہ اہل افراد کی نشاندہی کی جا سکے جو کہ 2011 کی سروے کے تحت باہر رہ گئے ہیں۔
آواس پلس کے ذریعے حاصل کیے گئے مستحقین کے اعداد و شمار کو ایس ای سی سی مستقل انتظار فہرست (پی ڈبلیو ایل) سے دستیاب مجموعی ہدف اور اہل مستحقین کے درمیان خلا کو پر کرنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔
پی ایم اے وائی فیز دوم (اے ڈبلیو اے ایس پلس) گرامین 2018 سے 2019 کے سروے کی بنیاد پر شروع ہوا تھا جو پورے ہندوستان میں کیا گیا تھا جس میں جموں و کشمیر میں 2.65 لاکھ بے گھر معاملے درج کیے گئے تھے۔ لیکن جموں و کشمیر کو صرف 63426 گھروں کا ہدف دیا گیا۔ ان مکانات کو صرف ٢٠٢٢ میں منظور کیا گیا ہے۔
اسکیم کا یہ مرحلہ 31 مارچ 2024 کو ختم ہو رہا ہے۔
گھروں کی منظوری اور تکمیل میں جموں و کشمیر کی اچھی کارکردگی کی بنیاد پر ، 30 مئی 2023 کو مزید 199550 پی ایم اے وائی آواس پلس مکانات کو خصوصی انتظام کے طور پر منظوری دی گئی تاکہ پی ڈبلیو ایل 2019 کا حصہ رہنے والے تمام 2.65 لاکھ بے گھر افراد کے لئے رہائش کو یقینی بنایا جاسکے۔
یہ سروے مندرجہ ذیل معیاروں کی بنیاد پر واضح ہدایات پر مبنی ہےجیسے کہ تمام بے گھر، صفر میں رہنے والے، ایک یا دو کمروں کے کچے گھروں اور کثیر سطحی ترجیحات جیسا کہ اسکیم گائیڈ لائنز کے سیکشن چار میں بیان کیا گیا ہے۔
وہ بے گھر افراد جن کے پاس زمین نہیں ہے یا زمین کا واضح مالکانہ حق نہیں ہے یا ان کے پاس اس قسم کی زمین ہے جہاں تعمیر کی اجازت نہیں ہے ، انہیں مکان کی منظوری نہیں دی جاسکتی ہے چاہے وہ اس مستقل ویٹنگ لسٹ کا حصہ ہی کیوں نہ ہوں۔
فیلڈ لیول سروے کی بنیاد پر 199550 میں سے صرف 2711 ایسے کیسز کی نشاندہی کی گئی جن کے پاس زمین کا واضح مالکانہ حق نہیں ہے جیسے کہ سرکاری زمین پر رہنے والے افراد، جنگل کی زمین پر رہنے والے لوگ، رخس اور کھیتوں کی زمین میں رہنے والے لوگ، جہاں تعمیر کی اجازت نہیں ہے، حکومت کی جانب سے زرعی مقاصد کے لیے داچی گام پارک کے قریب بے گھر افراد کو الاٹ کی گئی زمین جہاں تعمیرات کی اجازت نہیں ہے یا
کسی بھی دوسرے زمرے کے معاملے جو رہائش کے اہل ہیں لیکن تعمیر کے لئے کوئی زمین دستیاب نہیں ہے۔
چونکہ حکومت کسی ایسے شخص کو گھر کی منظوری نہیں دے سکتی جس کے پاس زمین نہیں ہے لہذا تمام لوگوں کے لئے رہائش کو یقینی بنانے کے لئے حکومت نے ان 2711 معاملوں میں پانچ مرلہ اراضی الاٹ کرنے کا پالیسی فیصلہ کیا تاکہ وہ گھر حاصل کرسکیں۔
لہٰذا نہ تو قانون میں کوئی تبدیلی کی گئی ہے اور نہ ہی کسی بیرونی شخص کو زمین الاٹ کی جا رہی ہے۔ یہ 2711 معاملے جموں و کشمیر کے بے گھر افراد کے 2018 سے 2019 کے پی ڈبلیو ایل کا حصہ ہیں جنہیں صرف اس وجہ سے گھر رکھنے سے روک دیا گیا تھا کہ یا تو ان کے پاس زمین نہیں ہے یا ان کے پاس جو زمین ہے وہ ریاست، جنگل یا کسی اور قسم کی زمین ہے جہاں تعمیر کی اجازت نہیں ہے۔
‘محبوبہ مفتی کی جانب سے دیئے گئے اعداد و شمار ہاؤسنگ اور شہری امور سے متعلق ہیں جبکہ پی ایم اے وائی جی اسکیم جموں و کشمیر کے دیہی علاقوں کے لئے دیہی ترقی کی وزارت کی ہے۔