تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس سلفیہ مسلم انسٹچوٹ پرے پورہ باغات
رابطہ نمبر :6005465614
گناہوں کی عادت چھڑا دے یا الہی
ہمیں نیک انسان بنا دے یا الہی
جو تجھ کو جو تیرے محبوب کو پسند ہو
ہمیں ایسا انسان بنا دے یا الہی
صاحب عمدۃ القاری رقمطراز ہیں کہ، "ماہِ شعبان ایک بابرکت مہینہ ہے، ”شعبان“ عربی زبان کے لفظ ”شَعّْبْ“ سے بنا ہے، جس کے معنی پھیلنے کے آتے ہیں اور چوں کہ اس مہینے میں رمضان المبارک کے لیے خوب بھلائی پھیلتی ہے اسی وجہ سے اس مہینے کا نام ”شعبان“ رکھاگیا۔” (عمدة القاری، باب صوم شعبان۱۱/۱۱۶، فیض القدیر۲/۳)
ماہ شعبان،ھجری مہینوں کی ترتیب کے مطابق آٹھویں نمبر پر آتا ہے۔یہ مہینہ رجب المرجب اور رمضان المبارک کے وسط میں ہے۔ صحیح صریح روایات کے مطابق اس مہینہ کے روزہ رکھنا مسنون اور شارح کے نذدیک محبوب ہے۔سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ” میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی دو ماہ مسلسل روزے رکھتےہوئے نہيں دیکھا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کو رمضان کے ساتھ ملایا کرتے تھے”.(مسند احمد)اسی طرح سنن ابو داؤد کی ایک روایت میں ہے کہ، "نبی صلی اللہ علیہ وسلم پورے سال میں کسی بھی پورے مہینے کے روزے نہيں رکھتے تھے ، لیکن شعبان کو رمضان سے ملاتے”.(سنن ابو داؤد) یہ روایت محدثین کے نذدیک بالکل صحیح ہے۔ (صحیح سنن ابوداؤد) اس حدیث کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پورا شعبان روزہ رکھا کرتے تھے .بعض احادیث میں یہ بھی وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے اکثر ایام کا روزہ رکھا کرتے تھے ۔صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ، ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھنے لگتے تو ہم کہتیں کہ آپ تو روزے ہی رکھتے ہیں ، اورجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ چھوڑتے تو ہم کہتے کہ اب نہيں رکھیں گے ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے مہینہ سے زيادہ کسی اورمہینہ میں زيادہ روزے رکھتے ہوئے نہيں دیکھا ، آپ سارا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں اکثر ایام روزہ رکھا کرتے تھے۔ "(ام سلمہ کی روایت سے) شمس العلماء شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ، "کچھ علماء کرام تو کہتے ہيں کہ یہ اوقات کی مختلف ہونے کی وجہ سےتھا ، لھذا کچھ سالوں میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سارا شعبان ہی روزہ رکھا کرتے تھے ، اوربعض سالوں میں شعبان کے اکثر ایام روزہ رکھتے تھے ۔” (مجموع الفتاوی) . معروف شارح امام سندی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ، "اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان کے روزے رکھتے تھے ، لیکن دوسری احادیث اس کے خلاف دلالت کرتی ہيں ، اس لیے اسے اکثر شعبان پر محمول کیا جائے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں اکثرایام کے روزے رکھتے تھے ، گویہ کہ پورا شعبان ہی روزے رکھے ہوں اورپھر اسے رمضان سے ملاتے تھے”.(حاشیہ سندی) مذکورہ مؤقف کی تائید صحیح بخاری کی اس موقوف ریایت سے ہوتی ہے کہ، "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی اورمہینہ کےمکمل روزے نہيں رکھے”.(امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ قول ابن عباس سے نقل کیا ہے). فرمان مصطفی ﷺ ہے کہ، "یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کاشکار ہوجاتے ہیں جورجب اوررمضان کے مابین ہے ، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں ، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں”.(علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن نسائي ( 2221 ) میں اسے حسن قراردیا ہے ) مذکورہ بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ ماہ شعبان کے روزے مستحب ہیں، ماہ رمضان کے استقبال میں یہ روزے رکھ کر کے نبی کریم ﷺ ماہ غفران و ماہ قرآن کی خوش آمدید کرتے تھے۔
اہلِ ایماں کے لئے ہے یہ مسرت کا پیام
آگیا سرچشمہء فضلِ خدا ماہِ صیام
روح پرور ہے یہ تسبیح و تلاوت کا سماں
کررہے ہیں سب بقدرِ ظرف اس کا اہتمام
رمضان المباللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں صحابہ کرام کو اکٹھاکرتے اورخطبہ دیتے جس میں انھیں رمضان کی آمدکی خوش خبری سناتے تھے کہ جلد ہی ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "فگن ہونے والا ہے ۔اس ماہ مبارک میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزارراتوں سے بہترہے۔اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے،اس کے قیام کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ قراردیا،توجس شخص نے اس ماہ میں ایک چھوٹا سا کارخیرانجام دیااس نے دیگرماہ کے فرائض کے برابرنیکی حاصل کرلی۔”(مشکوة المصابيح ) شیخ ابوبکرالبلخیؒ کہتے ہیں، "’ماہ رجب کا شتکاری کا مہینا ہے،ماہ شعبان اس کی سیرابی کا مہینا ہے اورشہر رمضان کھیت کٹائی کا مہینا ہے۔اسی طرح ماہ رجب کو ہوا،شعبان کو غیم اوررمضان کو بارش سے تعبیرکرتے ہیں۔جس نے اعمال کی کھیتی کے موسم بہارمیں کاشتکاری نہیں کی اورماہ رجب میں اس کا پودانہیں لگایا اورشعبان میں اسے سیراب نہیں کیاتو وہ ماہ رمضان اعمال میںکے کھیتی کی کٹائی کیسے کرسکتاہے۔اگرماہ رجب گزرگیاہے تو کم ازکم شعبان کے مہینے سے اس کی کوشش کی جائے۔یہی ہمارے نبی اور اسلاف کا طریقہ رہا ہے”.اس لیے ہم رمضان المبارک کے تئیں آغازہی میں اپنی نیت کو درست کریں اوربہت سے نیک اعمال کرنے کی نیت کرلیں۔مثلا ً تلاوت قرآن کی کثرت،گناہوںسے توبہ کا اہتمام،دعاواذکارکی پابندی،عبادات کا التزام،لوگوںسے معاملات درست کرنے کی نیت، شعبان کے کچھ روزے رکھنا تاکہ آئندہ ماہ کے لیے مشق ہوجائے،دینی وتربیتی کتابوںکا مطالعہ ،رمضان سے متعلق دینی بیانات جوسی ڈی وغیرہ کی شکل میں ہوںتوان کا سننا تاکہ رمضان کااحساس دل میں رہے اوراس کی تیاری پرتوجہ ہوسکے۔ایک مرتبہ پھروہی رحمتوں، برکتوں، سعادتوں اور مغفرتوں کا مہینہ ہمارے سروں پر سایہ فگن ہے اور یہ تقاضا کر رہا ہے کہ دیکھنا کہیں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میری تما م تر فضیلتیں سمیٹنے سے محروم نہ رہ جانا۔ آج ہی پختہ عزم کرلیں کہ ماہ رمضان کا وقت ضائع نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ رمضان المبارک کے مہینہ میں، اپنا وقت زیادہ تر قرآن کریم میں تدبر وتفکر اور اس کی تلاوت وقرات میں گزاریں۔ یہ عمل جہاں ان کو رمضان جیسے مبارک مہینہ میں ادھر ادھر کی لغو اور لایعنی باتوں سے محفوظ رکھے گا، وہیں اس عمل سے اس کی آخرت بھی سدھرے گی اور من جانب اللہ بڑااجر و ثواب بھی ملے گا۔ اللہ تعالی نے ہمارے اسلاف واکابر کو اس حوالے توفیق دی اور وہ رمضان المبارک میں سارے مشاغل سے دور رہ کر، اپنے اکثر اوقات قرآن کریم کی تلاوت میں ہی صرف کرتے تھے۔
سکون ڈھونڈتا پھرتا تھا میں بہاروں میں
حسین وادیوں میں ، سرمئی نظاروں میں
میں اس تلاش میں جا پہنچا چاند تاروں میں
مگر یہ مجھے ملا قرآن کے تیس پاروں میں
اللہ رب العزت اپنے بندے سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔ اسی لئے بار بار اسے موقع دیتا ہے کہ اپنی آخرت سنوارنے کی پہل کر۔ انہیں اوقات حسنہ میں ماہ رمضان سید و سردار کی حیثیت رکھتا ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اورسرکش جن جکڑدیئے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔اورجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بندنہیں کیاجاتا، پکارنے والا پکارتاہے: خیر کے طلب گار!آگے بڑھ ، اور شرکے طلب گار! رُک جا اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزادکئے ہوئے بندے ہیں (توہوسکتاہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو) اور ایسا(رمضان کی) ہررات کو ہوتا ہے ”۔(جامع ترمذی، وسندہ صحیح) رمضان سے پہلے ہی اپنے آپ کو جہنم سے آزاد کروانے کی جدو جہد کریں۔اعمال صالحات کا ذخیرہ جمع کرنے میں اپنے آپ کو پیش پیش رکھیں۔ ماہ شعبان کو قراء کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔کیونکہ اس مہینہ میں قراء قرآن کی تلاوت پر زیادہ زور دیتے کیونکہ قیام اللیل میں اس کا ورد کرنا ہے۔لیکن کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ آج بھی بعض مساجد کے ائمہ سورہ فیل سے سورہ ناس تک ہی تیز رفتاری سے تراویح کی نماز کو رسم بناکر ادا کرتے ہیں۔ انتظامیہ مساجد رمضان سے پہلے اپنی مسجد کے لئے حافظ قرآن کا انتظام کرے تاکہ قرآن کے اسرار و رموز سے واقفیت حاصل ہوسکے۔اسی طرح اس سال پختہ عزم کرلیں کہ
قیام اللیل کو سکون و قرار سے ادا کریں گے اگرچہ دو گھنٹے ہی کیوں نہ لگیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تلاوت کا انداز کیا تھا؟ اور اس کو وہ کس ایمانی حلاوت کے ساتھ پڑھتے تھے کہ ان کی قراء ت سننے کے لیے ملائکہ آسمان سے اترتے تھے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ مشہور انصاری صحابی اپنے اصطبل میں ایک رات قرآن پڑھ رہے تھے، اچانک ان کے گھوڑے نے چکر لگانا اور بدکنا شروع کیا، وہ قدرے خاموش ہوئے تو گھوڑا بھی پُرسکون ہوگیا، مگر وہ پڑھنے لگے تو گھوڑا پھر بدکنے لگا، کئی مرتبہ ایسا ہوا تو وہ ڈرے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ یحییٰ (ان کے بیٹے) کو روند ڈالے، وہ گھوڑے کی طرف بڑھے، فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ میرے سر پر ایک سائبان ہے، اس میں جیسے بہت سے چراغ جل رہے ہوں، دیکھتا ہوں کہ وہ فضا میں اوپر چڑھ رہا ہے، پھر وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ حضرت اسید بن حضیرؓ نے صبح کو یہ سارا قصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ ملائکہ تھے، تیرا قرآن سننے آئے تھے، اگر تو پڑھتا رہتا تو ملائکہ اس حالت میں صبح کردیتے اور ان کو سب دیکھتے اور وہ کسی سے نہ چھپتے۔ (حیاۃ الصحابہ، ج:۳، ص:۶۱۳) پختہ عزم کرلیں کہ اس ماہ رمضان میں قرآن کی تفسیر و معانی پر غور و خوذ کرکے خود کو ظلمات سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئنگے۔ماہ رمضان میں نیند کم اور عبادات زیادہ جمع کریں۔باضابطہ ایک time table مرتب کریں۔ صحابہ کی سیریت کے درخشاں پہلوؤں کو تازہ کریں۔ مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ، "یہ ان مردانِ خداکی تاریخ ہے کہ جب ان کے پاس اسلام کی دعوت پہنچی تو انہوں نےاس کو دل وجان سے قبول کیا اور اس کے تقاضوں کےسامنےسرِتسلیم خم کردیا ’’رَبَّنَاإِنَّنَاسَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوابِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا‘‘(سورۃ آل عمران، آیۃ : ۱۹۳) اور اپنا ہاتھ رسول اللہ ﷺکے ہاتھ میں دے دیا ؛چنانچہ ان کے ليے اللہ کے راستے کی مشقتیں معمولی اور جان ومال کی قربانی آسان ہوگئی؛حتیٰ کہ اس پر ان کا یقین اور پختہ ہوگیا اور بالآخر دل ودماغ پر چھاگیا، غیب پر ایمان، اللہ اور اس کے رسول ﷺکی محبت، اہل ایما ن پر شفقت،کفار پرشدت نیز آخرت کو دنیا پر، ادہار کو نقد پر،غیب کو شہود پر اور ہدایت کو جہالت پر ترجیح اورہدایتِ عامہ کے بے پناہ شوق کے عجیب وغریب واقعات رونما ہونے لگے۔
ماہ رمضان کے استقبال میں یہ بھی آتا ہے کہ پچھلے دو سال سے ہم covid-19 کے وبائی قہر کی وجہ سے گھروں میں ہی محصور ہوچکے ہیں۔ اوپر سے سیاسی بحران نے بھی مزدور طبقے کو آسمان سے دھرتی پر گرا دیا۔ لہذا ہم پر واجب ہے کہ اس طبقے کا خیال رکھ کر انکی سحری اور افطاری کا انتظام کریں۔یہ انتظام ایک ہزار یا دو ہزار سے نہیں ہوسکتا بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق دل کھول کر غرباء، فقراء، مساکین، بے کس، مزدور لوگوں کی معاونت کریں۔دوسری بات یہ کہ صدقہ و خیرات کو مطلقاً مخفی رکھیں۔ کسی کے عزت نفس کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں۔ یہ مہینہ جہاں ماہ قرآن و ماہ غفران ہے، وہیں ماہ سخاوت بھی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نیکی میں سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں بہت ہی سخاوت کرتے تھے۔ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آپؐ سے ملتے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات آپؐ سے ملاقات کرتے تھے، یہاں تک کہ (رمضان) گزرجاتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان كے ساتھ قرآن کا دَور کرتے۔ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آپؐ سے ملتے تو آپؐ نیکی میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوتے۔”(بخاری، کتاب الصوم) بیت المال، دینی تنظیموں اور فلاحی اداروں سے التماس ہے کہ جمع کردہ زکاۃ و عطیات تقسیم کرنے میں بخیلی سے کام نہ لیں۔احسان جان کر نہیں بلکہ اپنا فرض سمجھ کر اس فعل عظمیٰ کو انجام دیں۔ افسوس کہ جس طرح دیگر عبادات میں رسم و رواج اور ریاء و دکھاوا اور نام و نمود اور شہرت نے جگہ بنا لی ہے صدقات و خیرات کی تقسیم میں بھی اخلاص و للہیت اور اخفا و رازداری ختم ہوتی نظر آرہی ہے اور شہرت، نام و نمود و دکھاوا اور پبلسٹی کا رنگ اور جھلک زیادہ نظر آرہا ہے ،اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس کی خوب خوب تشہیر اور پبلسٹی کی جاتی ہے ۔ غریبوں اور محتاجوں کو گھنٹوں لائن میں کھڑا کیا جاتا ہے اور خوب تصویریں کھینچی جاتی ہے اخبارات میں بڑھا چڑھا کر اس کی خبریں شائع کی جاتی ہیں ۔ یقینا یہ چیزیں روح عبادت کے بالکل خلاف ہیں اور شریعت اس کو کسی طرح بھی پسند نہیں کرتی ،اسلام تو چاہتا ہے اور شریعت کا حکم بھی ہے کہ راہ خدا میں اس طرح خرچ کرو کہ دائیں ہاتھ سے جو کچھ دیا جائے بائیں ہاتھ کو بھی اس کا علم نہ ہو ،اس جملہ اور تعبیر سے یہ بتانا مقصود ہے کہ صدقہ و خیرات کا عمل بالکل ہی راز داری،خاموش اور اخفا کے ساتھ ہو ،دینے والے اور لینے والے کے علاوہ تیسرے کو اس کا علم بالکل نہ ہو ۔
ماہ رمضان کے استقبال میں یہ بھی شامل ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد پر بھی توجہ دی جائے۔ کہیں ایسا نہ کو کہ ہمارے اخلاق سوء کی وجہ سے ہماری بھوک و پیاس کسی کام کی نہ رہے۔ ”رمضان“ عربی زبان کالفظ ہے، جس کے معنی ہیں ”جھُلسادینے والا“ اس مہینے کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ اسلام میں جب سب سے پہلے یہ مہینہ آیا تو سخت اور جھلسادینے والی گرمی میں آیا تھا۔ لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ اس مہینے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی خاص رحمت سے روزے دار بندوں کے گناہوں کو جھلسادیتے ہیں اورمعاف فرمادیتے ہیں، اس لیے اس مہینے کو ”رمضان“ کہتے ہیں۔اپنے اخلاق کو اس قدر مزین کریں کہ آپ کی سیرت سے معاشرہ سنور جائے اور آپکے گناہ زائل ہو جائیں۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔” (صحیح بخاری) ماہ رمضان کے روزوں سے آپ تبھی روحانی فیض حاصل کرسکتے ہیں جب آپ منکرات، محرمات اور لغویات سے پرہیز کرنے والے ہوں۔
When we restrict our food and drink intake, our senses are heightened. This allows us to be more connected to ourselves, from our speech, to our thoughts and ideas. Understanding ourselves better gives us a better direction and allows us to make better decisions.
چشم بار ہو کہ مہمان آ گیا
دامن میں الہی تحفہ ذیشان آ گیا
بخشش بھی، مغفرت بھی،جہنم سے بھی نجات
دست طلب بڑھاؤ کہ رمضان آگیا
استقبال ماہ رمضان میں یہ بھی آتا ہے کہ بھوک و پیاس کے ساتھ ساتھ اپنے کردار کی حفاظت بھی کی جاۓ۔ فحاشی، عریانی، بدفعلی جیسے قبیح گناہوں سے خود کو دور رکھے۔ اپنے نفس کی غلامی سے آزاد ہو جائیں۔ روزے کا مقصدِعظمیٰ انسانی سیرت کے اندر تقویٰ کا جوہر پیدا کر کے اس کے قلب و باطن کو روحانیت و نورانیت سے جلا دینا ہے۔ روزے سے حاصل کردہ تقویٰ کو بطریق احسن بروئے کار لایا جائے تو انسان کی باطنی کائنات میں ایسا ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے‘ جس سے اس کی زندگی کے شب و روز یکسر بدل کررہ جائیں۔قرآن و سنت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ روزے کی بدولت حاصل شدہ تقویٰ حرام چیزوں سے تو درکنار ان حلال و طیب چیزوں کے قریب بھی بحالتِ روزہ پھٹکنے نہیں دیتا‘ جن سے متمتع ہونا عام زندگی میں بالکل جائز ہے۔ ہر سال ایک ماہ کے اس ضبط نفس کی لازمی تربیتی مشق (Refresher Course) کا اہتمام، اس مقصد کے حصول کے لئے ہے کہ انسان کے قلب و باطن میں سال کے باقی گیارہ مہینوں میں حرام وحلال کا فرق و امتیاز روا رکھنے کا جذبہ اس درجہ فروغ پا جائے کہ اس کی باقی زندگی ان خطوط پر استوار ہو جائے کہ ہر معاملے میں حکمِ خداوندی کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے وہ حرام چیزوں کے شائبے سے بھی بچ جائے۔بدنگاہی سے پرہیز لازمی ہے تاکہ آنکھوں کا روزہ مکمل ہو سکے۔ فحش کلام سے تحذیر لازمی ہے تاکہ زبان کا روزہ مکمل ہوجاۓ۔فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ جن کو روزوں سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، اور کتنے ہی قیام کرنے والے ایسے ہیں جن کو اپنے قیام سے سوائے جاگنے کے کچھ نہیں ملتا”.(مسند احمد بن حنبل‘2: 441) ذکر و اذکار، تقدیس و تہلیل کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کی آشنائی بھی حاصل کریں۔
بے زبانوں کو جب وہ زبان دیتا ہے
پڑھنے کو پھر وہ قرآن دیتا ہے
بخشش پہ آتا ہے جب امت کے گناہوں کو
تحفے میں گناہ گاروں کو رمضان دیتا ہے
اہل ایمان! روزہ انسانوں کو تقویٰ، ضبطِ نفس، شکر گزاری، انسانی ہم دردی، باہمی ایثار و قناعت اور معاشی تعاون کا مقلد بناتا ہے جس طرح سے روح کے بغیر مادی جسم بے کار ہے اسی طرح اگر روزہ اخلاص، تقویٰ اور بے ریائی سے عاری ہو تو محض بھوک پیاس رہ جاتی ہے۔
اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں ماہ شعبان کی قدر کرنے کے ساتھ ساتھ ماہ رمضان کا استقبال احسن طریقہ سے کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔