کالم نویس: میاں محمد یوسف
مظفرآباد
اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے انسان کو خوبصورت پیدا کیا اس خوبصورتی سے مراد ظاہری شکل وصورت کے ساتھ ساتھ کردار کی خوبصورتی بھی شامل ہے ویسے تو سب انسان ایک جیسے ہیں لیکن رنگ نسل شکل و صورت قوم قبیلے کا فرق ضرور ہوتا ہے پھر یہ بھی کہا گیا سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور کسی کو کسی پر فوقیت ہے تو تقویٰ کی بنیاد پر ہے. لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قومیں کُنبے قبیلے کیوں بنائے تو اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ یہ صرف شناخت اور پہچان کے لئے بنائے تاکہ یہ ایک دوسرے کی پہچان کر سکیں اور ہر قوم کی زبان کلچر ادب ثقافت اس کی پہچان ہوتی ہےشناخت ہوتی ہے.
جب حبشی کہا جائے تو ذہن میں سیاح فام کا نقشہ آتا ہے اسی طرح دیگر قومیں بھی اپنی شناخت رکھتی ہیں اپنی پہچان کو باقی رکھنا اس کا پرچار کرنا عیب نہیں زبان ہی کسی قوم کی پہچان ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مختلف قوموں کو مختلف زبانیں عطا کیں بلکہ پرندوں کو بھی ان کی الگ الگ بولیاں عطا کیں انسانوں میں جیسے اھل عرب کو عربی زبان انگریزوں کو انگریزی زبان دی اسی طرح گُجروں کو بھی گوجری زبان عطا کی اب گجروں کی پہچان گوجری زبان سے ہی ہوتی ہے موجودہ دور میں مقامی اور علاقائي زبانوں کے بولنے کا رجحان کم ہو رہا ہے جس کی وجہ سے کچھ اہل ذوق نے اس پر کام شروع کیا اپنی زبان کو باقی رکھنا قوم پرستی یا ازم نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو ہر قوم میں نبی بھی ان ہی میں سے بھیجے کئی مقامات پر ارشاد فرمایا کہ ہم نے زیادہ انبیاء ان کی قوموں میں سے بھیجے جیسے قوم مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو نبی بنا کر بھیجا اور قوم ثمود کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا اسی طرح اہل عرب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور دوسری جانب فرمایا کہ جس نے رسول صلی کی اطاعت کی اس نے گویا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی .
اگر تم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہو تو رسول اللہ کی اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اب بحیثیت مسلمان تو مشروط ہو گیا کہ جو نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی اتباع کرے گا اس سے اللہ تعالیٰ محبت کرے گااسی طرح ہر قوم میں سے انبیاء علیہم السلام بھیجے تاکہ وہ انہیں اپنی زبان میں دین کی تعلیم دیں اور انہوں نے بھی جب قوم سے خطاب کیا تو فرمایا کہ اے میری قوم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو اگر یہ عیب ہوتا تو اللہ تعالیٰ کبھی نبی ان قوموں میں سے نہ بھیجتے اور پھر ہمارا مقصد اپنی زبان وادب کو باقی رکھنا ہے. ہم کسی کے خلاف کوئی طاقت نہیں بناتے اور نہ کسی قوم کی مخالفت کرتے ہیں سب قومیں ہمارے لئے قابل احترام ہیں قابلِ قدر ہیں سب زبانیں اہم ہیں خواہ وہ عربی ہو فارسی ہو انگریزی ہو اردو ہو پہاڑی کشمیری ہو ڈوگری ہو گوجری ہو پشتو ہو یا کوئی بھی زبان ہو اب اس وقت زیادہ تر انگریزی بولی سیکھی اور سکھائی جاتی ہے تو اس کو کیوں ازم نہیں کہا جاتا اسی طرح عربی ہماری مذہبی زبان ہےاور نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی زبان عربی تھی تو اللہ تعالیٰ نے قران مجید عربی میں نازل کیا.
اللہ تعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اپنے محبوب کو کسی اور زبان میں بھی وحی بھیج سکتا تھا مگر ان کی ہی زبان میں قران پاک کا نزول بھی برادری اور قومیت کے ازم کی نفی کرتا ہے.
ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے ازم کیا بلکہ حکم ہے کہ بندہ جو زبان جانتا ہو اس میں اس کے ساتھ بات کرو اس سے ایک مثال یوں سمجھ لیں کہ جب بچہ بولنا شروع کرتا ہے تو وہ توتلی زبان میں بات کرتا ہے اور اس کے والدین اس کے ساتھ اسی توتلی زبان میں گفتگو کرتے ہیں تو وہ توتلے تو نہیں ہوتے مگر اس بچے کو سکھانے کے لئے وہی لہجہ اپناتے ہیں جو لوگ عربی نہیں ہیں عرب میں رہتے ہیں تو وہ عربی بولتے ہیں جیسا ماحول ہو گا انسان اس حساب سے چلے گا اور یونیسیف کا ایک ادارہ ہے جس میں قومی اور مقامی زبانوں کو تحفظ دینے کا قانون موجود ہے اکثر لوگ اس خلفشار کا شکار ہوتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ یہ زبانوں کو اہمیت دینا ازم ہے اپنی زبان کو اہمیت اور فروغ دینا قران وسنت سے ثابت ہے یہ ازم نہیں ہے ازم تب ہوتا ہے کہ کسی زبان کی مخالفت کی جائے اور اپنی زبان کو اہمیت دی جائے کسی کے خلاف طاقت بنائی جائے ہمارے لئے سب زبانیں سب قومیں یکساں قابلِ احترام ہیں. اور جہاں تک بات ازم کی ہے تو چار افراد ایسے ہوتے ہیں جو ازم کر ہی نہیں سکتے ایک ادیب دوسرا عالم تیسرا لیڈر چوتھا ولی ان کے لئے تو سب قومیں برابر ہوتی ہیں اور ویسے بھی ہم ازم کے قائل نہیں ہم چاہتے ہیں کہ زبان وادب باقی رہے اس کی بقا قوم کی بقا ہے اور وہ قوم مٹ جاتی ہے جس کی زبان مٹ جائے تو زبانوں کی بقا اور فروغ کے لئے کام کرنا قوم پرستی نہیں بلکہ ضروری ہے اور کوئی زبان سیکھنے میں حرج نہیں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری اسلامی زبان عربی ہے میں کہتا ہوں بالکل درست ہے مگر ہم میں سے اکثریت عربی نہیں جانتے سیکھنے میں حرج نہیں ہے لیکن عجمی لوگوں کے لئے عربی سمجھنا مشکل ہوتا ہے تو اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف قوموں کے علماء کرام نے قران مجید کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا اب اس کو قوم پرستی نہیں کہا جا سکتا بلکہ اگر یہ غلط ہوتا تو علمائے کرام ترجمہ نہ کرتے .
ہر فرد کو اپنی زبان سے فطری طور پر پیار ہوتا ہے بچہ پیدا ہونے کے بعد جو زبان مانھ بولتی ہے وہ سیکھتا ہے اس لئے وہ اپنی مادری زبان میں بات درست طریقے سے سمجھ سکتا ہے اسی لئے ان زبانوں کو مادری زبان کہا جاتا ہے ایک کہاوت ہے کہ کوؤں کی زبان کوے ہی جانتے ہیں تو یہ کوئی عیب والی بات نہیں اس کو قوم پرستی کا نام دینا زیادتی ہے ایک عالم دین سے کسی نے سوال کیا تھا کہ اھل جنت کی زبان عربی ہوگی ہمیں تو عربی زبان نہیں آتی تو اس پر انہوں نے جواب دیا کہ اگر جنت مل گئی تو زبان بھی مل جائے گی اور کسی بھی قوم کی زبان بڑی طاقت رکھتی ہے اور اہمیت رکھتی ہے اس لئے زبان کو اہمیت دینا وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی قومی اور مادری زبانوں کو فروغ دیں کیونکہ یہ آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہیں اگر ان کو باقی رکھنے کی کوشش کریں گئی تو یہ ختم ہو جائیں گی جتنے بھی لوگ اس کاز پر کام کر رہے ہیں ان سب کا مقصد بھی یہی ہےکہ ان زبانوں کا وجود باقی رہے اور متذکرہ بالا دلائل بھی ثابت کرتے ہیں کہ یہ مشن کتنا اہم ہے.