تحریر: سلمہ رسول
طالبہ
بڈگام کشمیر
حامدا،ومصلحا،امابعد،
قال الله تعالی : وَنَبۡلُوۡكُمۡ بِالشَّرِّ وَالۡخَيۡرِ فِتۡنَةً ؕ وَاِلَيۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ ــــ [ الانبیاء :٣٥ ]
ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری طرف لوٹائے جاؤ گےـ
اگر ہم فتنہ کا لغوی معنی جاننا چاہیں گے تو اسکا لغوی معنی ہے،” سونے کو آگ میں ڈالنا تاکہ ہم اس کا کھرا اور کھوٹا ( اصلی اور نقلی) معلوم کریں۔
علامہ ازھری رحمہ اللہ کہتے ہیں ”کہ کلام عرب میں فتنہ کے معنی : آزمائش یا امتحان کے ہیں ، اور اس کا اصل یہ ہے جیسا کہ آپ کہیں، فتنت الفضۃ والذھب ، یعنی میں نے سونے اورچاندی کوآگ میں پگلایا تا کہ ردی اور اچھے کی تمیز ہوسکے یعنی اصلی اور نقلی میں فرق ہوسکے۔
اور اسی سے فرمان باری تعالی ہے
يَوۡمَ هُمۡ عَلَى النَّارِ يُفۡتَنُوۡنَ ــــ [ الذاریات : ١٣ ]
ہاں یہ وہ دن ہے کہ یہ آگ پر تپائے جائیں گے“
( تھذیب الغۃ 14 / 296 )
امتحان یا آزمائش کو فتنہ کہا جاتا ہے ،ایسی چیز یا ایسا راستہ جو گمراہی کی طرف لے جائے فتنہ کہا جاتا ہے،قتل و خون ریزی، فساد اور بگاڑ بھی فتنہ میں آتے ہیں،الله کی طرف سے نازل کردہ عذاب یا کوئی انسان جو باقی انسانوں پہ ظلم کرے یہ بھی فتنہ تصور کئے جاتے ہیں۔یہ سب فتنہ کے زمرے میں آتے ہیں لیکن آج ہم ان فتنوں کے بارے میں جانیں گے جن سے ایک انسان دنیا میں گمراہی کا راستہ اپنا کر بھٹک جاتا ہے اور اپنی دنیا و آخرت دونوں میں ناکام ہوسکتا ہے۔آج ہم جانیں گے کہ ہمیں ان فتنوں سے بچنے کےلیے کس طرح کا کرار نبھانا ہے۔ہم خود کو مسلمان تو تصور کرتے ہیں الحَمْد لله مگر ہمیں ذمہ داریاں بھی نبھانی ہیں۔آج ہم جانیں گے کہ ہم ان فتنوں سے کیسے نجات پائیں اور ہم پر کونسی ذمہ داریاں ہیں۔
سونے کو اسلئے آگ میں ڈالا جاتا ہے تاکہ ہم اسکی اصلیت سے واقف ہوجائے۔اسی طرح الله تعالی بھی اپنے بندوں کو آزماتا ہے امتحان کرتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :وَنَبۡلُوۡكُمۡ بِالشَّرِّ وَالۡخَيۡرِ فِتۡنَةً ؕ وَاِلَيۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ ــــ [ الانبیاء :٣٥ ]
ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری طرف لوٹائے جاؤ گےـ
انسان کو زندگی میں مختلف حالات سے گزرنا پڑتا ہے کبھی خیر سے اور کبھی شر سے،کبھی اچھائی سے اور کبھی برائی سے، ایک حدیث میں آیا ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : خَطَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا مُرَبَّعًا ، وَخَطَّ خَطًّا فِي الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْهُ ، وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلَى هَذَا الَّذِي فِي الْوَسَطِ مِنْ جَانِبِهِ الَّذِي فِي الْوَسَطِ ، وَقَالَ : هَذَا الْإِنْسَانُ ، وَهَذَا أَجَلُهُ مُحِيطٌ بِهِ ، أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِهِ ، وَهَذَا الَّذِي هُوَ خَارِجٌ أَمَلُهُ ، وَهَذِهِ الْخُطَطُ الصِّغَارُ الْأَعْرَاضُ ، فَإِنْ أَخْطَأَهُ هَذَا نَهَشَهُ هَذَا ، وَإِنْ أَخْطَأَهُ هَذَا نَهَشَهُ هَذَا ـــ [ بخاری، رقم ٦٤١٧ ]
”عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چوکھٹا خط کھینچا۔ پھر اس کے درمیان ایک خط کھینچا جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا۔ اس کے بعد درمیان والے خط کے اس حصے میں جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا چھوٹے چھوٹے بہت سے خطوط کھینچے اور پھر فرمایا کہ یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ جو ( بیچ کا ) خط باہر نکلا ہوا ہے وہ اس کی امید ہے اور چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی دنیاوی مشکلات ہیں۔ پس انسان جب ایک ( مشکل ) سے بچ کر نکلتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے“
ان سب حالات میں انسان کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ ان حالات و معاملات کے سلسلے میں کونسا طریقہ اپناتا ہے،کس طرح کا کردار اختیار کرتا ہے۔وہ الله تعالی کے احکام کو بجا لاتا ہے یا ان سے خارج ہوجاتا ہے،وہ دین پر مکمل طور رہتا ہے یا دین کو ترک کرتا ہے۔ایسے ہی امتحانات سے انسان کو مسلسل گزرنا پڑتا ہے لہذا ایک مسلمان کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ ہر امتحان،ہر آزمائش میں کامیابی حاصل کرے۔اگر انسان الله تعالی کی ایسی آزمائش میں ناکام ہوگیا،اگر اس نے دنیا کو صرف اپنی خواہشات نفس میں گزارا، اگر اس نے دنیا کو سب کچھ سمجھا اور آخرت بھول گیا تو اسکا کوئی اور امتحان نہیں ہوگا۔الله کے امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے پر اس کو آخرت میں بہت ساری نعمتوں سے نوازا جائے گا جیسا کہ الله ﷻ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّا جَعَلۡنَا مَا عَلَى الۡاَرۡضِ زِيۡنَةً لَّهَا لِنَبۡلُوَهُمۡ اَ يُّهُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ـــ [ الکہف :٧ ]
روئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے زمین کی رونق کا باعث بنایا ہے کہ ہم لوگوں آزمالیں کہ ان میں سے کون نیک اعمال والا ہے۔
اگر انسان ناکام ہوا،یہ صرف دنیاوی لذتوں کے بارے میں سوچتا ہوگا،اگر یہ صرف دنیا کی لذت پرستی کے پیچھے پڑے،نہ اسکو پرواہ ہو کہ الله رب العزت نے اس دنیا کو صرف آخرت کی کھیتی اور عمل کا گھر بنایا اور آخرت میں ہمارے اعمال کا جزا ملے گا،یہ صرف اپنی دنیاوی خواہشوں کے پیچھے پڑا ہو تو اسکا انجام کیا ہوسکتا ہے۔وہ خسارے میں ہے۔الله ﷻ ارشاد فرماتا ہے :
اِنَّ الَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا وَرَضُوۡا بِالۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَاطۡمَاَنُّوۡا بِهَا وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَنۡ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوۡنَۙ ــــ [ یونس : ٧ ]
جن لوگوں کو ہمارے پاس آنے کا یقین نہیں ہے اور وہ دنیاوی زندگی پر راضی ہوگئے اور اس میں جی لگا بیٹھے ہیں اور جو لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔
اُولٰٓئِكَ مَاۡوٰٮهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ ـــ [ یونس : ٨ ]
ایسے لوگوں کا ٹھکانا ان کے اعمال کی وجہ سے دوزخ ہے۔
ایسے لوگوں کے بارے میں الله تعالی اور ایک جگہ فرماتا ہے:
مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا وَ زِيۡنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيۡهِمۡ اَعۡمَالَهُمۡ فِيۡهَا وَهُمۡ فِيۡهَا لَا يُبۡخَسُوۡنَ ـــ [ ھود : ١٥ ]
جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال (کا بدلہ) یہیں بھرپور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انھیں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔
اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ لَـيۡسَ لَهُمۡ فِىۡ الۡاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوۡا فِيۡهَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ ـــ [ ھود :١٦ ]
ہاں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انہوں نے یہاں کیا ہوگا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچھ اعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں ـ
ایسا انسان ناکام ہوا تو اسکےلیے کوئی دوسرا امتحان نہیں ہوگا۔جیسے کہ ہم دنیاوی امتحانات میں اگر کسی پرچے میں ناکام ہوئے ،ہم دوبارہ محنت و مشقت کرکے دوسرے امتحان میں کامیابی حاصل کرتے ہیں، مگر یہ امتحان جو الله تعالی نے دنیا میں ہمارے لئے رکھا ہے اگر ایک بار اس امتحان کی مدت ختم ہوئی اور انسان اس میں ناکام ہوگیا تو دوبارہ کامیابی کےلئے کوئی دوسرا امتحان نہیں ہوگا۔جو انسان اپنی خواہشوں کو دنیا تک ہی محدود رکھتا ہے۔اس کےلئے آخرت میں کوئی دوسرا موقع نہیں ہوگا۔وہ روئے گا،پچھتاوا کرے گا کہ کاش مجھے ایک اور بار دنیا میں بھیجا جائے میں اپنی غلطیوں کی اصلاح کرکے اس امتحان میں کامیابی حاصل کرتا مگر پھر کوئی فائدہ نہیں۔ لہذا عقلمند آدمی وہ ہے جو اس موقع کو آخری موقع سمجھ کر اپنی زندگی گزارے۔وہ ان گمراہیوں سے دور رہے جو ہلاکت کا باعث بنتی ہیں۔وہ ایسی گمراہی میں مبتلاء نہ ہوجائے کہ اسکےلیے پھر سنبھلنا مشکل ہوجائے۔کبھی کبھی چھوٹا گناہ بڑے گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور بڑے گناہ ہلاکت کی طرف لے جاتے ہیں اور ہلاکت اسکی بربادیوں کا سبب بن جاتی ہے۔ لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ گمراہیوں،ضلالت سے خود کو محفوظ رکھے، خصوصًا اس دور میں کیونکہ آج گمراہی،ضلالت،شرک،بدعات و خرافات کے فتنے بہت تیزی سے پھیل رہے ہیں، آج لوگوں کو صرف دنیا کی فکر ہوتی ہے۔وہ اپنی دنیاوی زندگی میں مشغول ہیں۔لہذا مسلمان کا اس دور میں احتیاط نہ برتنا اسکی بربادی کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ دنیا دار الامتحان ہے،یہاں انسان کا نفس،اسکی ضروریات،اسکی کمزوریاں،بُرا ماحول اور ساتھ ساتھ شیطان بھی ہیں۔
اگر ہم دور حاضر کی حالات کا مشاہدہ کریں تو یہ عیاں ہوجائے گا کہ فتنوں نے ہمیں کس طرح غیر رکھا ہیں اور اسی طرح مستقبل میں فتنوں کی رفتار بہت تیز ہوگی۔رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے: من یعش منکم فسیری اختلافًا کثیراً ــــ [ ترمذی ج٢،ص ٩٦ ابواب العلم ]
”تم میں سے جو زندہ رہے گا اسے بہت سارے اختلافات بظر آئیں گے“
لہذا ایک مسلمان کےلیے یہ واجب ہے کہ وہ اپنے دین اسلام و ایمان کو مضبوطی سے تھامے،اسکی حفاظت کرے۔
یہ بات ثابت ہوگئی کہ اختلافات اور فتنوں میں کثرت ہوجائے گی۔آج اگر دو فتنے ہونگے کل چار ہوجائیں گے۔ ایک مسلمان کےلئے یہ ناممکن نہیں کہ وہ ان فتنوں میں بھی اپنے آپکو اور اپنے اہل و عیال کو محفوظ رکھے،کیونکہ بعض اوقات والدین اپنی فکر کرتے ہیں مگر اپنے بچوں کو آزاد چھوڑتے ہیں۔اگر باپ واقف ہے تو وہ اپنے بیٹے کو بھی واقف کرائے،اگر ماں واقف ہے تو وہ اپنی بیٹی کو بھی درس دے۔اگر اولاد پہ تھوڑی سی گرم چائے یا پانی اسکے ہاتھ پہ گر کر اسکے ہاتھ کو جلائے تو یہ تکلیف والدین بہت محسوس کرتے ہیں اور اگر یہی اولاد الله بچائے آخرت میں ناکام ہوجائے اور جہنم اسکا ٹھکانہ بن جائے تو کیا یہ تکلیف والدین برداشت کرسکتے ہیں،اسلئے اپنے ساتھ ساتھ اپنے گھروالوں کی اصلاح کرنا ضروری ہے کیونکہ الله تعالی کا ارشاد ہے :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَاَهۡلِيۡكُمۡ نَارًا وَّقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ عَلَيۡهَا مَلٰٓئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعۡصُوۡنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمۡ وَيَفۡعَلُوۡنَ مَا يُؤۡمَرُوۡنَ ــــ [ التحریم :٦ ]
اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔
رسول الله ﷺ نے فتنوں کی کثرت کے متعلق بولا تھا۔اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ان فتنوں سے کیوں دور رہنا چاہئے،کیونکہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ،” بَادِرُوا بِالأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا يَبِيعُ أَحَدُهُمْ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا ” ـــ [ ترمذی ــ ٢١٩٥ ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ نیک اعمال کی طرف جلدی کرو، ان فتنوں کے خوف سے جو سخت تاریک رات کی طرح ہیں جس میں آدمی صبح کے وقت مومن اور شام کے وقت کافر ہو گا، شام کے وقت مومن اور صبح کے وقت کافر ہو گا، دنیاوی ساز و سامان کے بدلے آدمی اپنا دین بیچ دے گا“
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک انسان دنیا کی لذت کےلیے اپنے دین کو چھوڑے گا۔اس کے سامنے دین کی اہمیت بہت کم ہوجائے گی اور وہ دنیا کو دین سے زیادہ ترجیح دے گا۔اس حدیث سے ایک اور بات ثابت ہوئی کہ آدمی کےلئے اپنے دین کو بچانا بہت ہی مشکل ہوجائے گا۔اگر ہم آج اپنے ارد گرد کے ماحول،معاشرہ کی طرف متوجہ ہوجائے تو یہ چیز عیاں ہے۔آج لوگ شرک،بدعات میں اس طرح شامل ہوچکے ہیں کہ ان کو صحیح اور غلط میں بھی تمیز کرنا نہیں آتا۔وہ بالکل اس ضلالت و گمراہی میں اندھے ہوچکے ہیں۔بعض اوقات وہ سماج میں اپنا رتبہ و مقام قائم رکھنے کےلئے بُت پرستی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں،حالانکہ وہ اس بات سے واقف بھی ہوتے ہیں کہ غیرالله کی عبادت کرنا ہمارے اسلام میں جائز نہیں۔لہذا ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنے توحید کو مضبوط رکھے۔حالات کیسے بھی ہو وہ الله کے علاوہ کسی کو معبود نہ بنائے۔ایک دور ایسا بھی تھا جب صحابہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم کو اتنی سخت سزائیں دی گئی پھر بھی ان کی زبان گواہی دیتی تھی ”أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا رسول الله“ــــ پھر بھی وہ صرف الله کی عبادت کرتے تھیں لیکن آج کا مسلمان دنیا کی جھوٹی عزت و لذت کے خاطر غیرالله کو اپنا معبود بناتا ہے۔یہ کتنا بڑا فتنہ ہے۔یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ایک مسلمان الله کو چھوڑ کر کسی اور کے پیچھے پڑا ہے۔لہذا اپنے توحید کی حفاظت کرے۔اپنے آخرت کو بہتر بنائے۔اپنے دین اور ایمان کو دنیا پرستی کے بدلے نہ چھوڑیں۔اپنے دین و ایمان کے محافظ بن جائیں جیسے سیدنا یاسر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ تھے۔جس نے مشرکین کا ظلم برداشت کیا اور اسلام کے پہلے شہید کا رتبہ حاصل کیا۔جس کی بیوی کو اتنی سختی اور بے رحمی سے شہید کیا گیا مگر پھر بھی انکی زبان ایک معبود برحق الله ﷻ کی گواہی مسلسل دے رہی تھی۔اسلئے ہم کو بھی اپنے ایمان کو مضبوط بنانا ہے۔ایک انسان سارے فتنوں سے محفوظ رہ سکتا ہے شرط یہ ہے کہ اسکے ایمان میں قوت ہو۔وہ اپنے دین و ایمان پر جمے رہے۔ اگر ایمان میں قوت ہو تو ایک آدمی ہر پھسلنے والے کاموں سے بچ سکتا ہے۔آج لوگ دنیاوی مسئلوں کے خاطر اپنے ایمان کو ترک کرکے،اپنے توحید کو چھوڑ کے، کفر اور شرک کا راستہ اختیار کرتا ہے۔بعض اوقات وہ رجوع بھی کرتا ہے،وہ توبہ بھی کرتا ہے لیکن اسکے ایمان میں اتنی قوت نہیں ہوتی جتنی پہلے ہوتی ہے۔اس کے ایمان کو پیوند لگتا ہے۔ہمارے معاشرے میں ایسا ہوتا رہتا ہے کہ اگر انسان کسی مصیبت میں پڑتا ہے تو لوگ اسکو بولتے ہیں کہ فلاں درگاہ پہ جاؤں، مصیبت دور ہوجائے گی۔ وہ جاتا ہے اور بعض دفعہ اسکا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے۔جو درگاہ پہ جانے سے نہیں بلکہ الله اسکا مسئلہ حل کرتا ہے مگر اسکو گمراہ کرتا ہے۔یہ ایمان کو کھو دیتا ہے اور گمراہی کا راستہ چُنتا ہے۔لہذا ان فتنوں سے بچنے کےلیے ایک مسلمان کے اندر ایمان کی قوت ہونی چاہئے۔ایمان میں ایسی قوت ہونی چاہئے کہ اگر ایک آدمی کی اولاد بھی کسی مصیبت میں مبتلاء ہوجائے۔لوگ بولیں گے وہاں جاؤں،لیکن وہ بولے اگر میری اولاد اس مصیبت سے فوت بھی ہوجائے تب بھی میں الله کا شریک مقرر نہیں کروں گا۔اگر میری جان بھی جائے تب بھی میں غیرالله کے سامنے نہیں جھکوں گا۔اسے کہتے ہے ایمان کی قوت۔
مسلمان ان فتنوں سے محفوط رہ سکتا ہے اگر وہ رسول الله ﷺ کی تعلیم و تربیت کا مطالعہ کرے۔اگر وہ دین کا علم حاصل کرے۔اگر وہ ہر مسئلے کو رسول الله ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں سے حل کرے۔زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرے کیونکہ فتنوں کے دور میں علم کو اٹھایا جایا گا اور لوگ گمراہی میں مبتلاء ہوجائیں گے۔رسول الله ﷺ نے فرمایا : إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتى إذا لم يبق عالم اتخذ الناس رؤوسا جهالا فسئلوا فأفتوا بغير علم فضلوا وأضلوا ــــ [ بخاری،ج١،ص٢٠ ، کتاب العلم ]
”بے شک اللہ تعالی علم کو بندوں سے چھین کرنہیں اٹھاتا بلکہ علماء کو اٹھاتا ہے، لہذا جب کوئی عالم باقی نہیں رہتا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیتے ہیں اور ان سے مسائل ) پوچھتے ہیں ، لہذا وہ بغیر علم کے فتوی دیتے ہیں ، خود بھی گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں“ـ
یہ آجکل ہوتا ہے۔ہمارے علماء کی وفات ہورہی ہے مگر پھر بھی ہم پرواہ نہیں کرتے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ایک مسلمان کو لازمی دین کا علم ہونا چاہئے۔وہ علماء سے جڑا رہے،انکی صحبت میں رہے اور یہ بھی عبادت میں آتا ہے۔دین کا علم حاصل کرنا بھی عبادت ہے۔جب علماء کی باتوں پر عمل کریں گے تو انسان ہر مسئلے کے متعلق محتاط اور واقف ہوجائے گا۔اس واقفیت سے وہ ان تمام فتنوں سے خود کو اور اہل و عیال کو دور رکھے گا۔اپنے مسائل کا حل علماء سے حاصل کرے۔اپنے اولاد کو دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی تعلیم و تربیت سے روشناس کرے۔قرآن و سنت کے ذریعے اپنے مسئلوں کو حل ڈھونڈیں۔آج مسلمانوں کے اندر بہت سے مسئلے پیدا ہوچکے ہیں۔سیاسی مسائل،معاشی مسائل ،بہت سارے مسائل ہیں۔اگر آج کا مسلمان ان مسائل میں قرآن و سنت کو چھوڑ کر،علماء کا فیصلہ ترک کرکے آزاد اور خود مختار بن کر حل تلاش کرے گا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے اندر بگاڑ پیدا ہوجائے۔وہ اختلاف کا شکار بھی ہوسکتا ہے اسلئے ایک مسلمان کو چاہے کہ وہ قرآن و سنت اور علماء کے ذریعے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈے۔ایک حدیث میں آیا ہے: عَنْ ابي شریح الخزاعی، قَالَ، خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ ، ” أَبْشِرُوا أَبْشِرُوا ، أَلَيْسَ تَشْهَدُونَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ ” قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ ،” فَإِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ سَبَبٌ طَرَفُهُ بِيَدِ اللَّهِ وَطَرَفُهُ بِأَيْدِيكُمْ ، فَتَمَسَّكُوا بِهِ ، فَإِنَّكُمْ لَنْ تَضِلُّوا وَلَنْ تَهْلِكُوا بَعْدَهُ أَبَدًا ”
”ابی شریح الخزاعی روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ ہمارے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا ،خوشخبری سن لو،خوشخبری سن لو،کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں الله کا رسول ہوں ؟ ،انھوں نے فرمایا،ہاں ــــ پھر فرمایا،یہ جو قرآن ہے یہ سبب ہے، جس کا ایک کنارہ الله کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا تمہارے ہاتھوں میں ہے۔اور جو حصہ تمہارے ہاتھوں میں ہے اس کو مضبوطی سے تھامے رہو،اگر تم اسکو مضبوطی سے پکڑو گے تو ہرگز گمراہ اور ہلاک نہیں ہوجاؤ گے“
فتنوں سے اپنے ایمان کو بچانے کےلئے ہمیں قرآن و سنت کی راہ اختیار کرنی ہے لیکن آج اس کے برعکس ہے۔قرآن گھر میں سجاوٹ کےلیے رکھا جاتا ہے،پڑھنے کےلیے نہیں،اگر کوئی پڑھ بھی لیتا ہے لیکن علملاتا نہیں۔ہم نے قرآن کا حق ادا نہیں کیا۔عمومًا آج ایک رواج عام ہوگیا ہے۔جب کسی کے گھر میں کوئی بہت زیادہ بیمار ہو،وہ زندگی کے آخری لمحات میں ہو تب قرآن پڑھا جاتا ہے کہ اسکی روح آسانی سے نکلے۔شادیوں میں دلہا اور دلہن قرآن پڑھتے ہیں حالانکہ بعض دلہا دلہن نے کبھی قرآن کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ہوتا ہے۔بس رسم پوری کرنے کےلیے اور فوٹو گرافی کےلئے،باقی اخلاص سے نہیں پڑھتے ہیں۔ رسول الله ﷺ فرماتے ہیں، يرفع بهذا الكتاب أقواما ويضع به آخرين "ـــ [ رواه مسلم ]
”یقیناً اللہ تعالیٰ اس کتاب یعنی کلام اللہ کے ذریعہ کتنے لوگوں کو بلند کرتا ہے اور اس کے ذریعہ کتنے لوگوں کو پست کرتا ہے“
قرآن کو اخلاص سے پڑھنا،اس کو عملانا،اس کے مطابق اپنے مسئلے حل کرنا الله کی اطاعت اور عبادت ہے۔اور جو شخص ایسا کرے الله اسکے درجات دنیا و آخرت میں بلند کرے گا اور اسکو ہر فتنہ سے محفوظ رکھے گا۔سب سے بڑا فتنہ دجال کا فتنہ ہے جس کے بارے میں رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے: من حفظ عشر آيات من أول سورة الكهف ، عصم من الدجال [ رواہ مسلم ]
” جو سورۃ الکہف کی پہلی دس آیات حفظ کر لیں، وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا “
دس آیات سے ہم اتنے بڑے فتنے سے خود کو محفوظ کر سکتے ہیں تو سوچئے سارا قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے سے ہم کتنے ہی فتنوں سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔قرآن کے ساتھ ساتھ ہمیں رسول الله ﷺ کی سنت کو بھی مضبوطی سے تھامنا ہے اور سلف صالحین کی سنت و طریقہ کو بھی مضبوطی سے تھامنا ہے۔رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے:من یعش منکم فسیری اختلافًا کثیراً ، فعلیکم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدین المھدیین ـــــ [ ترمذی ج٢،ص ٩٦ ابواب العلم ]
” تم میں سے جو زندہ رہے گا اسے بہت سارے اختلافات نظر آئیں گے،لہذا ایسے وقت میں میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت و طریقہ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا“۔
دن بہ دن ہمارے دین میں ایسی بدعات و خرافات لوگ ایجاد کرتے ہیں،جو نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ رسول الله ﷺ اور نہ کسی صحابہ سے،یہ بھی ایک فتنہ ہے جو لوگوں کو گمراہی کے راستے کی طرف لے جاتا ہے۔اور گمراہی کا ٹھکانہ جہنم ہے۔اس فتنے سے جتنا چاہو خود کو محفوظ کرلو کیونکہ اس فتنے میں انسان اس طرح مبتلاء ہوجاتا ہے کہ اسے لگتا ہے میں دین کا کام کر رہا ہوں مگر اصل میں وہ کام اسے ہدایت سے ہٹا کر ضلالت کی طرف لے جاتا ہے۔رسول الله ﷺ کا اس بارے میں ارشاد ہے: ایاکم و محدثات الامور،فان کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة ـــ [ ابوداؤد ص ٦٣٥ ،کتاب السنة ]
”دین نئی نئی باتوں سے بچو،ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے “
یہی مسلمان کی دعوت ہونی چاہئے کہ وہ لوگوں کو اتباع قرآن و سنت و سلف صالحین کی دعوت دے۔آج کل ہم ایسے مسلمانوں کو بھی دیکھتے ہیں جو بولتے ہیں،آپ بھی اپنی جگہ صحیح ہے اور ہم بھی اپنی جگہ صحیح ہے،مسئلہ ختم،ہمیں چاہئے کہ فتنہ کے دور میں مل جھل کے رہے،بالکل غلط بات ہے۔ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اختلاف کے وقت اتفاق و اتحاد کی ایک واحد راہ ہے اور وہ راہ ہے، قرآن و سنتِ رسول الله ﷺ پر جمے رہے،اسکی دعوت دے،اسکو پھیلائے،اسکی طرف لوگوں کو متوجہ کریں،اس پر عمل کریں تب ہی ہم ان سب فتنوں میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔یہی اہل السنة و جماعت کی دعوت ہے۔یہی ہماری دعوت ہے۔دین میں ہر بدعت گمراہی ہے اور جو شخص دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرے جو رسول الله ﷺ سے ثابت نہ ہو وہ مردود ہے،فرمان رسول الله ﷺ ہےـــ من عمل عملًا لیس علیه امرنا فھو رد ـــ [بخاری،ج١،ص٣٧٠،کتاب الصلح ]
”جو کوئی بھی ایسا عمل کرے جس پر ہمارا دین نہ ہو،وہ مردود ہے “
دینی تعلیم کی طرف توجہ دیں، یہ اس دور میں ہم سب کےلیے ضروری ہے،زیادہ سے زیادہ دینی تعلیم کے مراکز قائم کریں،اپنے بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم کی طرف متوجہ کریں۔فتنہ کا شکار اکثر عورتیں ہوجائے گی اور جہنم میں زیادہ تعداد بھی عورتوں کا ہوگا۔اسلئے اپنی بچیوں کو دینی تعلیم سے روشناس کریں۔ان کو اس دور کے وحشی فیشن و ماحول سے آگاہ کریں۔انکی آخرت بہتر بنائے،انکو پردے کی دعوت دیں۔جونہی کوئی نیا فیشن ایجاد ہوتا ہے،اسکا شکار پہلے عورتیں ہوجاتی ہیں کیونکہ انکو علم نہیں ہوتا کہ اس فیشن کی وجہ سے کتنی بربادیاں پیدا ہوسکتی ہیں،وہ اپنے دنیا میں مست ہوجاتی ہیں۔اگر اسکو صحیح تعلیم و تربیت سے روشناس کیا جائے تو یہ پہلے ہی اس فیشن کے نقصانات کا مطالعہ کرے گی۔یہ اسکی شکار نہیں ہوجائے گی۔
فتنوں کے دور میں ہم سب کو توحیدکی دعوت،ایمان کی دعوت،قرآن و سنت کی دعوت کو عام کرکے اسکو بہت تیزی سے پھیلانا ہے۔ہم سب کو دنیاوی علم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی طرف رُخ کرنا ہے۔تب ہی ہم دور حاضر کے بگاڑ،گمراہی،جہالت،ضلالت اور بدعات کا شکار نہیں ہوسکتے إن شاء الله ــــ اس فتن دور میں کثرت سے توبہ کرنی چاہیے اور کثرت سے الله تعالی سے دعا کرنی چاہیے ــــ اللَّهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِينِيَ الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَاىَ الَّتِي فِيهَا مَعَاشِي وَأَصْلِحْ لِي آخِرَتِي الَّتِي فِيهَا مَعَادِي وَاجْعَلِ الْحَيَاةَ زِيَادَةً لِي فِي كُلِّ خَيْرٍ وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ ” ـــ [مسلم ٢٧٢٠ ]
اللهم إنا نعوذ بك أن نرجع على أعقابنا، أو نفتن عن ديننا ـــ [ بخاری ]
اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر، ومن عذاب النار، ومن فتنة المحيا والممات، ومن فتنة المسيح الدَّجال ـــ [ بخاری و مسلم ]
لہذا مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ الله کی طرف رجوع کرکے اس سے دعا کرے کہ وہ اسے ہر فتنہ سے محفوظ رکھے،ہر امتحان یا آزمائش میں کامیابی سے نوازے اور ہر گمراہ سے دور رکھے اور صراط مستقیم کا راستہ اپنانے کی توفیق دے۔۔۔۔اَمِين يَا رَبَّ الْعَالَمِيْن