از قلم: منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط:6006952656
وادی کشمیر میں عورتوں کی دنیا کو اگر تاریخی نگاہ سے دیکھا جائے تو لل دید سے لیکر آج تک ہزاروں کلیجہ چیر دینے والے قصے پڑھنے کو ملتے ہیں جو عورتوں کی مظلومیت کا اظہار ہے.عورت کی مظلومیتکو جب تحقیقی نگاہ سے دیکھتے ہے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عورت اپنی مظلومیت کا ذمہ دار خود ہے کیونکہ جہاں بھی کوئی عورت مظلومیت کی شکار بنتی ہے تو ضرور اس ظلم میں کسی دوسری عورت کا ہاتھ ہوتا ہے.
اب یہ خبریں روز سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں عورت کو سسرال والوں نے جہیز کے لیے قتل کیا جب اس مسلے کو مطلقہ محکمے دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے ساس یا نند اس کے بنیادی مجرم معلوم ہوتے ہیں تو یہاں یہ بھی عورتیں ہے جو ایک مقام کا غلط استعمال کرکے کسی دوسری عورت کی زندگی کو برباد کرتے ہیں. یہ عورت گھر کےلیے رحمت ہے لیکن تربیت کی کمزوری سے یہ کئی گھرانوں کو تباہی کا راستہ دکھاتی ہے.
لل دید کے نلہ وٹھ کو جب سنجیدگی سے پڑھتے ہے تو حاصل کلام وہاں بھی یہی رہتا ہے کہ اس کے مظلومیت میں اس کے ساس کا ہاتھ ہے. عورتوں کو پہلے اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہیے کہ جس عورت کے لیے یہ بدخواہی کا اظہار کرتی ہے وہ بھی عورت ہے. اگر جہیز کی بات کریں جس کے سبب بے شمار لڑکیوں کے ارمان زمین بوس ہوئے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس زیادتی میں بھی نند یا ساس کی صورت میں ایک ہاتھ ہوتا ہے.
اکثر گھروں میں جب بہو آتی ہے تو اس کے سامنے درپیش مسائلوں کے پیچھے اس کی ساس کا ہاتھ ہوتا ہے جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس کے شوہر کا مزاج بھی کمزور ہوجاتا ہے. گھریلو تشدد کے حوالے سے روز نئی دل دہلانے والی خبریں اخباروں کی سرخیاں بنی رہتی ہیں پھر جب ان خبروں کا جائزہ لیا جاتا ہے تو بات یہی رکتی ہے کہ اس تشدد میں عورت کا کردار ہے. اگر جہیز کے بدعت کوروکنا ہے تو ایک عورت کو بحثیت ساس بحثیت نند اور بحثت دوسرے کردار اپنا کر اس کے خلاف کھڑا ہونا ہے.
ایک عورت کو بہو بنا کر یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ایک نوکرانی آئی ہے ایک عورت ہے اور کسی باپ کے جگر کا حصہ ہے جب یہ احساس ہر عورت کے دل میں تولد ہوجائے تو عورتوں کے حوالے سے تمام مسائل خود بہ خود حل ہوجائیں گے. اگر کسی گھر میں مرد ہی عورت کا ظالم ہے تو اس کی ماں یا بہن کو اس کے خلاف کھڑا ہو کر اپنی بہو کا ساتھ دینا چاہیے یہ سمجھ کر کہ یہ بہو ایک عورت ہے اور ناانصافی صیح نہیں ہے.
تمام عورتوں کو اپنے اندر اس احساس کو زندہ کرنا ہے کہ اگر صیح میں عورت ہر تشدد سے آزاد ہوجائے تو لازمی ہے کہ ہر عورت دوسرے عورت کا احترام کرنا سیکھے اور ایک دوسرے کو عزت دیا کرے تب معاشرے میں تبدیلی ممکن ہے. عورتوں کے حوالے سے جو فتنے روز جنم لیتے ہیں وہ ہماری فکر کے سامنے للکار ہے کہ ان فتنوں کو کیسے لگام دیا جائے اس حوالے سے باشعور عورتوں کو فکرمند ہوکر ہر عورت کو متحرک کرنا چاہیے.
گھریلو مسائل میں عورتوں کو ایک کردار ادا کرکے ان کی تدابیر کے حوالے سے فک مند رہنا چاہیے کیونکہ ایک عورت کے غیر ذمہ دارنہ مزاج سے ایک خوش حال گھر ہمیشہ کے لیے مصیبت کا شکار ہوجاتا ہے. عورت اگر عورت پر ظلم کرنے کا یہ طریقہ چھوڑ دے تو ہر عورت پریشانی سے آزاد ہوجائے گی اور سماج کے چند ایسے مرد جو عورتوں پر ظلم کرتے ہیں وہ خود ہی سنبھل جائیں گے. اللہ عورتوں کے حال پر رحم فرمائے.آمین