از قلم: عزرہ زمرود
عقل ہی وہ قوت ہے جس کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کی ذات عالی، اس کی صفت کمالیہ جلالیہ کی معرفت حاصل کرتا ہے اس عقل کے ذریعے مومنین اللہ تعالیٰ کی کتابوں،رسولوں، بعث بعد الموت،اور فرشتوں پر ایمان لاتے ہیں،اور اسی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے ربوبیت کی نشانیاں،اس کی وحدانیت کے دلائل،اور اس کے رسولوں کے معجزات کی پہچان ہوتی ہے، اس کے بل بوتے پر انسان اوامر کو پورا کرتا ہے،اور نواہی سے بچتا ہے۔ عقل ہی وہ طاقت ہےجو انجام کو تاڑ لیتی ہےاور اس کے بارے میں محتاط کر دیتی ہے اور انجام کے مصلحت کے تقاضوں پر عمل کرتی ہے خواہشات کا مقابلہ کر لیتی ہے، اور اس کے لشکر کو شکست فاش دیتی ہے،صبر کو تقویت دیتی ہے جو کہ خواہشات کی تیر کی زد میں ہوتا ہے،عمدہ کاموں پر ابھارتی ہے،برے کاموں سے منع کرتی ہے، پیچیدگیوں کا ادراک کرتی ہے، ارادہ کی پشت پناہی کرکے اسے مضبوط بناتی ہے،اور عزم کو تقویت پہنچاتی ہے، یہاں تک کہ انسان اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اپنا حصہ حاصل کر لیتا ہے،باعث زینت چیزوں کو طلب کرتی ہے ،اور عیب دار چیزوں کو چھوڑ دیتی ہے, جب عقل کا سلطان خواہشات کے لشکر کو قیدی بنا لیتا ہے،اور اسے اس بات میں آمادہ کر لیتا ہے کہ خواہش چھوڑ نے پر اعلی چیز ملے گی، اور جب انسان اپنی خواہش کو غلام بنا لیتا ہے تو عقل ایسے آدمی کو بادشاہ بنا لیتی ہے.
عقل ایسا درخت ہے جس کی جڑ انجام میں غوروفکر کرنا ہے ، اس کا تنا صبر ہے، اس کی ٹہنیاں علم ہے، اچھے اخلاق اس کے پتے ہیں ، حکمت اس کا پھل ہے، اور اس کا مادہ امور کے مالک حق تعالیٰ کی توفیق ہے ،اور اسی سے اس کی ابتداء ہوتی ہے، اور اسی پر انتہا ہوتی ہے بہر حال یہ تو عقل کے عمدہ اوصاف ہوئے لیکن بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس پر دشمن غالب آجائے،اور اس کو اس کی بادشاہت سے معزول کر دیے، اس کے درجے کو گھٹا دے، اور اس کی حیثیت کو ختم کر دے،جس کے نتیجہ میں عقل جو کہ ایک امیر تھی اب قیدی بن جاتی ہے اور حاکم ہونے کے بعد محکوم بن جاتی ہے، اور متبوع ہونے کے بعد تابع بن جاتی ہے عقل ایک ایسی طاقت ہےکہ جو اس کے حکم پر عمل کرے یہ اس کو جنت کی سیر کرواتی ہے، اور جب اس کی حکم عدولی کرے یہ اس کو ہلاکت ، اور بربادی کے گھاٹ کا پانی پلاتی ہے.
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں،” جنت عدن میں جانے والے اکثر لوگ ایسے نہیں جو نماز،روزہ،حج،اور عمرہ وغیرہ کے پابند ہوں، بلکہ اکثر جنتی ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نصیحتوں کو سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے دل اللہ تعالیٰ سے ڈر جاتے ہیں،اور ان کے دل اللہ تعالیٰ سے مطمئن ہو جاتے ہیں،اور ان کے اعضاء اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں،یہ لوگ درجہ کی عمدگی،اور بلندی کے اعتبار سے دنیا میں لوگوں کے ہاں صاحب عزت ہیں،” عاقل وہ نہیں جو برائی،اور بھلائی میں تمیز کرے ، بلکہ عاقل وہ ہے برائی میں سے بہتر کو سمجھے ” حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں” جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے عقل عطا کی وہ کامیاب ہو گیا”۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں” کسریٰ کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا تو اس نے چند اہل علم و دانش کو بلوایا،اور ان سے کہا ،” وہ کون سی بہترین چیز ہے جو اس بچے کو عطا کی جائے گی؟” انہوں نے کہا” عقل” اس نے پوچھا” اگر یہ نہ ہو تو ؟” جواب ملا،” عمدہ آداب جن کے ساتھ یہ لوگوں میں زندگی گزار سکے” اس نے پھر سے پوچھا” اگر ایسے آداب بھی میسر نہ ہوں تو پھر کیا کیا جائے؟” ارباب دانش نے جواب دیا،” پھر اس کو آگ میں ڈال دیا جائے۔ایک عالم کا قول ہے، ” جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو زمین پر بھیجا تو جبریل علیہ السلام ان کے پاس تین چیزیں لے کر آئے،دین،اخلاق،اور عقل۔۔۔۔۔اور عرض کیا،” اللہ تعالیٰ آپ کو ان تین میں سے ایک کے چننے کا اختیار دیتا ہے۔” آدم علیہ السلام نے ہاتھ آگے بڑھایا،اور عقل کو پکڑ لیا، اور دوسرے دونوں سے کہا تم کہا” تم چلے جاؤ” ان دونوں نے کہا،” ہمیں یہ حکم ہے ہم بھی عقل کے ساتھ رہے” لہزا یہ تینوں چیزیں آدم علیہ السلام کو حاصل ہو گئیں یہ تینوں چیزیں (یعنی دین، اخلاق،اور عقل) اللہ کے یہاں انتہائی قابل وقعت وحثییت چیزیں ہیں،اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو حاصل ہونے والا بہترین ہدیہ ہیں، اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسان کے تین دشمن بھی بناۓ ہیں:
١۔ خواہش نفسانی
٢. شیطان
٣. نفس امارہ
اور دونوں فریقوں میں ایسی لڑائی ہے کھبی ایک غالب آجاتا ہے کھبی دوسرا
(وما النصر الا من عند الله العزيز الحكيم) یعنی” مدت تو صرف غالب حکمت والے اللہ ہی کی طرف سے ہے،
وھب بن منبہ فرماتے ہیں: ” شیطان کے لئے عاقل مؤمن سے زیادہ تکلیف دہ چیز کوئی نہیں ، کیونکہ وہ جاہل کو بہکاتا ہے، اور اس کو اپنا تابع بناتا ہے اور اس کی گردن پر سوار ہو جاتا ہے،یہ لوگ جیسے شیطان چاہتا ہے ویسے اس کی پیروی شروع کر دیتے ہیں، لیکن عاقل مؤمن شیطان کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے، یہاں تک کہ شیطان اپنے مقصد میں ایک فیصد بھی کامیاب نہیں ہوتا ہے، شیطان کے لئے پہاڑ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے تو توڑ دینا مؤمن عاقل کو بہکانے سے آسان ہے ،جب وہ اس عاقل مؤمن کو بہکانے سے عاجز آجاتا ہے تو جاہل کے پیچھے جاتاہے,اور اسے اپنا قیدی بنا لیتا ہے،اور اسے ایسے اعمال سرزد کرواتا ہے جو دنیا میں سنگسار کئے جانے،ہاتھ کٹوانے،سولی پر چڑھاۓ جانے کا ذریعہ بنتے ہیں، اور اس کی رسوائی،اور ذلت کا نشان بنا دیتے ہیں، اگر دو آدمی نیکیوں میں برابر ہو تو ان میں عقل کی وجہ سے ایسا فرق ہو جاتا ہے جو فرق مشرق و مغرب کے درمیان ہے ،جن چیزوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے ان میں سب سے افضل چیز عقل ہے،”
معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں” اگر ایک عقلمند کی صبح وشام اس حال میں ہوکہ اس کے گناہ ریت کے زرات کے برابر ہوں تو امید ہے کہ وہ ان سے نجات، اور خلاصی حاصل کر لےگا، لیکن ایک جاہل اگر اس کے پاس ریت کے زرات کے برابر نیکیاں ہوں تو امید ہے کہ اسے ان نیکیوں کے بدلہ کچھ نہ ملے گا۔” لوگوں نے پوچھا،” یہ کیسے ہو سکتا ہے؟” فرمایا” عاقل جب گناہ کرے گا تو توبہ کریگا، اور اپنی عقل کے ذریعہ ان گناہوں سے چھٹکارا پالےگا، اور جاہل کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو عمارت بناتا ہے، اور اسے گرا دیتا ہے، وہ اپنی جہالت کی وجہ سے ایسا عمل کریگا جو اس کی نیکیاں برباد کر دے گا۔”
حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، آدمی کا دین اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی عقل کامل نہ ہو جائے،اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اس لیے عطا فرمائی ہے،وہ اس کے ذریعہ نجات حاصل کرے ”
ایک دانشمند کا قول ہے،” جس انسان کی عقل اس پر غالب نہ ہو تووہ اپنی محبوب چیزوں میں ہلاک ہو جائے گا”…..
"یوسف بن اسباط فرماتے ہیں” عقل پوشیدہ چیزوں کا چراغ ہے،ظاہری اشیاء کی زینت ہے،جسم کی نگران ہے، انسان کے معاملات کی منتظم ہے، زندگی کی درستگی عقل کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی، اور تمام امور کا دارومدار اسی پر ہے۔”
ایک مرتبہ عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ سے سوال کیا گیا،” اسلام کے بعد سب سے اعلیٰ وہ کون سی چیز ہے جو انسان کو عطا کی گئی ہے؟” فرمایا،” عمدہ عقل” پوچھا گیا,”اگر یہ نہ ہو تو پھر؟” فرمایا،” اچھے آداب” لوگوں نے سوال کیا، اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر؟” فرمایا،” لمبی خاموشی” کہا گیا اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر؟” فرمایا،” جلدی آجانے والی موت”
بہرحال اسی بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
"اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل،و آداب سے عمدہ چیز عطا نہیں فرمائی۔۔۔۔۔یہ دونوں انسان کو خوبصورت بناتی ہیں،اگر انسان میں یہ دونوں نہ ہوں تو آدمی کی موت اس کی زندگی سے بہتر ہے۔
"اب ہم آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں "الوالباب”میں بنا دیے اور ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے آمین یارب العالمین”