”میں نے بڑے بڑے مفکروں، دانشوروں، ادیبوں، فلسفہ دانوں اور شاعروں سے سُنا بھی اور پڑھا بھی ہے کہ جب کسی کو محبت ہوتی ہے، سر چڑھتی ہے، دلجگر سے پار ہوکر دیوانہ وار کرتی ہے تو یہ شعلہ بنتی ہے، بُجھتی نہیں ہے پھر، جل کر راکھ کرتی ہے، ایندھن بناتی ہے۔ لیکن اب میں اس کے پریکٹیکل سے گزرتا ہوں محبت ہوئی، عشق کے انتہا کو پہنچا، دیوانہ کیا، زندگی کو دوام مل گئی، جلنا شروع ہوا، جل جاتا ہوں، راکھ ہونا ہے، ایندھن بن کر فوت ہونا ہے۔ آجائے گی وہ رونے میری میت پر، جنازے تک ساتھ ہوگی، کفن دفن ہوگا، شفا ملے گی۔۔۔۔۔، عشق با اثر اور مکمل ہوگا۔
غزل
عروجِ وفا میں دغا دے گئے ہیں
شبابِ دل کو سزا دے گئے ہیں
فنا کر دے ساقی ہر اک میخانہ
محبت میں وہ جفا دے گئے ہیں
اعجازِ عشق میں جیتے ہے وگرنہ
دل کی عمارت گرا دے گئے ہیں
بے تابی دل کی جاتی نہیں ہے
جانے کیا وہ دعا دے گئے ہے
شبِ ہجراں میں ڈوبی ہے کشتی
وفاؤں کی ایسی جزا دے گئے ہیں
دشتِ قیس یا کوہِ فرہاد ہو
عشق میں زندگی لُٹا دے گئے ہیں
ٹکڑے جگر داغِ دل ہے ہمارا
زخموں کو ایسی بقا دے گئے ہیں
راہِ وفا میں جلتا ہوں ایثار
جوانی کو آگ لگا دے گئے ہیں
عاجز ایثار
کلسٹر یونیورسٹی سرینگر