فکریات: الطاف جمیل ندوی
’وہ لوگ امریکی اور اسرائیلی اسلام چاہتے ہیں ایسا اسلام جس میں وضو کس طرح ٹوٹے اس کے بارے میں تو پوچھا جائے لیکن مسلمانوں کے سیاسی سماجی اقتصادی حالات کے بارے میں کچھ نہ پوچھا جائے…‘یہ جملے علامہ سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب ہیں۔تعلیمی نصاب میں اغیار کے تسلط کی بدولت ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جنہیں یہ بھی علم نہیں کہ سید قطب کا اصل نام سید ہے جبکہ قطب ان کا خاندانی نام ہے۔ ان کے آباواجداد اصلاً جزیرۃ العرب کے رہنے والے تھے۔ ان کے خاندان کے ایک بزرگ وہاں سے ہجرت کرکے بالائی مصر کے علاقہ میں آباد ہوگئے تھے۔کہا جاتا ہے کہ سید قطب کی پیدائش 9 اکتوبر 1906میں مصر کے ضلع اسیوط کے موشا نامی گاؤں میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں اور بقیہ تعلیم قاہرہ یونیورسٹی سے حاصل کی اوربعد میں یہیں پروفیسر ہوگئے۔ کچھ دنوں کے بعد وزارت تعلیم کے انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز ہوئے اور اس کے بعد ’اخوان المسلمین‘سے وابستہ ہوگئے اور آخری دم تک اسی سے وابستہ رہے
خاندانی پس منظر:
سید قطب کا کنبہ ایک زمیندار گھرانہ تھااورآپ کے والد محترم کاشماراپنے خاندان اورعلاقہ کے بڑے بزرگوں میں ہوتاتھا۔جملہ سیاسی وسماجی و انتظامی مسائل میں آپ کے والدبزرگوار کی رائے کوایک طرح سے فیصلہ کن مقام حاصل تھا۔گویاقیادت کی صلاحیت سیدقطب کوخاندانی وراثت سے ہی ملی تھی۔آپ کے والد محترم کی ایک خاص بات ہفتہ وار مجالس ہیں جن میں اس وقت کے سیاسی وقومی معاملات کوقرآن کی روشنی میں سمجھاجاتاتھا۔اس طرح گویاقرآن فہمی بھی آپ کو اپنے باباجان کی طرف سے علمی وراثت میں ملی۔شاید اسی کے باعث لڑکپن سے ہی روایتی ملائیت کے خلاف ان کے اندر شدید نفرت کی آگ بھڑک اٹھی تھی،کیونکہ روایتی مذہبی تعلیم کے مدارس قرآن مجید کی انقلابی تعبیر سے بہت بعیدہوتے ہیں ،الا ماشااللہ۔وہ بچپن سے ہی کتب کے بہت شوقین تھے،اپنی جیب خرچ سے پیسے بچاتے ہوئے اپنے ہی گاؤں کے کتب فروش ’امصالح‘سے کتابیں خرید لیتے تھے اور بعض اوقات شوق مطالعہ انہیں ادھار پر بھی مجبور کر دیتاتھا۔بارہ سال کی عمرمیں ان کے پاس پچیس کتابوں کی لائبریری مرتب ہو چکی تھی،گویا امت مسلمہ کا یہ یکے از مشاہیر اپنی جسمانی عمر سے دوہری نوعیت کی ذہنی و فکری عمرکا حامل تھا۔اس چھوٹی عمر میں بھی لوگ ان سے اپنے سوالات کیاکرتے تھے اور بعض اوقات بڑی عمرکے لوگوں کی ایک مناسب تعدادان سے اجتماعی طورپرکسب فیض بھی کرتی تھی تاہم خواتین کوان کی اسکول کی چھٹی کا انتظارکرناپڑتاتھااور خواتین سے خطاب کے دوران ان پر شرم غالب رہتی تھی۔
ابتدائی حالات:
ابتدائے شباب میں وہ قاہرہ روانہ ہوگئے اور 1929سے1933کے دوران برطانوی تعلیمی اداروں سے عصری تعلیم حاصل کی۔اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک معلم کی حیثیت سے کیا۔پیشہ ورانہ زندگی کی ابتدامیں ہی ادیب اور نقاد ہونا آپ کی پہچان بن گئی۔اگرچہ کچھ ناول بھی لکھے لیکن زیادہ تر ادیبوں ،شاعروں اور عربی ناول نگاروں کی مددکرتے رہے۔علوم و معارف میں ترقی آپ کی پیشہ ورانہ ترقی کا باعث بھی بنی اور1939میں مصر کی وزارت تعلیم جس کا مقامی نام ’وزارت معارف‘ہے ،میں انتظامی عہدوں پر تعینات ہو کراعلی افسر بن گئے۔1948تا1950آپ نے امریکہ میں قیام کیاجس کا مقصد وہاں کے تعلیمی نظام سے آگاہی حاصل کرنا تھا۔سیدقطب شہیدکاکسی بھی مغربی ملک میں یہ پہلا دورہ تھا۔نام نہادسیکولرمعاشرہ کی قباحتیں آپ نے بہت گہرائی سے محسوس کیں اور خاص طورپر مغربی دنیاکا جوروشن چہرہ سارے عالم کے سامنے ہے اس کے اندرون میں چنگیزسے تاریک تر تاریکی آپ نے بنظر خود مشاہدہ کی۔دل میں موجود ایمان بھڑک اٹھااور اسی دورہ کے موقع پر آپ کی پہلی شہرہ آفاق تصنیف’العدل الاجتماعیہ فی الاسلام‘1949میں شائع ہوگئی۔امریکہ میں دوسالہ قیام کے دوران کے تاثرات اور مشاہدات بھی’امریکہ ،جو میں نے دیکھا‘کے عنوان سے کتاب میں شائع ہوئے۔حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی طرح انتہائی دیانتداری سے سیدقطب شہید رحمۃ اللہ علیہ نے امریکی معاشرے کا تجزیہ پیش کیا،جہاں خامیوں اور کمزوریوں پر تنقید کی جبکہ اس معاشرے کی خوبیوں کوبھی واضح کیا۔
آزمائشیں:
1950کے آغاز سے ہی اس ذہین انسان کو مذہب نے اپنی طرف کھینچ لیااورسید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ نے ’اخوان المسلمین‘میں شمولیت اختیارکرلی۔ابتداََآپ کی علمی استعدادکے باعث کے ’اخوان المسلمین‘کے ہفتہ وار رسالے کامدیرمقررکیاگیا،بعد میں وہ ’اخوان المسلمین‘کے مرکزی ذمہ دار برائے نشرواشاعت بنادیے گئے اورپھرا ن کاخلوص اور تقویت ایمان انہیں ’اخوان المسلمین‘کے اعلی ترین مشاورتی ادارے کی رکنیت تک لے آئے۔ان دنوں جمال عبدالناصرنے حکومت کے خلاف تحریک چلارکھی تھی ابتداََ’اخوان المسلمین‘اور جمال عبدالناصر کے تعلقات بہت اچھے رہے تھے اور ایک بار تو جمال عبدالناصرخود چل کرسیدقطب شہید کے گھربھی گئے تاکہ انقلاب کی کامیابی کیلئے تفصیلی منصوبہ تیارکیاجائے،بعد میں بارہ بارہ گھنٹے طویل نشستوں میں جزیات پر بھی بحث کی جاتی رہی اوراس دوران سیدقطب شہیدکو آنے والی حکومت میں وزارتوں کی پیشکش بھی کی جاتی تھی۔جمال عبدالناصرکے ان اقدامات کے باعث ’اخوان المسلمین‘کی اکثریت بہت خوش ہو گئی کہ شاید اب نفاذاسلام کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔1952کے دوران جمال عبدالناصرنے ایک بغاوت کے ذریعے مصری حکومت کو چلتاکردیااورخود اقتدارکے ایوانوں پرقابض ہوگئے اورنفاذ شریعت کے تمام وعدوں سے منحرف بھی ہو گئے۔ بہت جلد جمال عبدالناصر کو سیکولرازم کی روایتی بدعہدی نے ’اخوان المسلمین‘سے بہت دور کردیاکہ مسلمانوں کو پہلے دن سے ہی ’لکم دینکم ولی دین‘کا سبق پڑھادیاگیاتھااور اسلام اورسیکولرازم اکٹھے نہ چل سکے۔اس کے باوجود بھی ’اخوان المسلمین‘عوام کے اندر نظریاتی اور خدمت خلق کاکام کرتی رہی اور عوام الناس میں مقبول تر ہوتی رہی۔بہت جلدمصر کے سیکولرحکمرانوں کیلئے ’اخوان المسلمین‘کاوجودہی ناقابل برداشت ہوگیاااور1954کے دوران بغاوت کے جھوٹے الزامات کے تحت سیدقطب شہید سمیت ’اخوان المسلمین‘کے ہزارہاکارکنوں اور مقتدررہنماؤں کو قیدوبندمیں ڈال دیاگیااور انہیں بدترین تشدداور انتہائی غیراخلاقی اور غیرانسانی بہیمانہ مارپیٹ کانشانہ بنایا گیاکہ سیکولرازم کویہی رویہ ہی زیب دیتاتھا۔
عدالتی شکنجہ:
تین سال کی طویل مدت تک جب طاغوت اپنی پوری کوشش کے باوجود ’اخوان المسلمین‘کے پائے استقامت میں لغزش پیدانہ کرسکاتو استعمار کی رگیں ڈھیلی پڑ گئیں اور سیدقطب شہیدرحمۃ اللہ علیہ کومحدود نقل و حرکت اور لکھنے کی اجازت مل گئی۔مصر میں ’فی ظلال القرآن‘ پس دیوار زنداں سے منظر عام پر آئی۔آہنی سلاخون کا دوسراعرق ’معالم الطریق‘کے عنوان سے امت کو میسرآیا۔اب تک ان کتب کے بے شمار طباعتیں اور کتنی ہی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔1964کے دوران انہیں عراق کے صدرعبدالسلام عارف کی سفارش پر رہاکردیاگیا۔یہ ایک اورامر تعجب ہے کہ پاکستان اور مصر کے مشاہیرکو عالمی حمایت تو حاصل ہوتی ہے لیکن اپنے ہی وطن کے حکمران ان کی نہایت نا قدری پر ہی کمربستہ رہتے ہیں۔محض آٹھ ماہ کی مختصرمدت کے بعد ہی انہیں ’معالم الطریق‘جیسی کتاب لکھنے کے جرم میں دھر لیاگیاجبکہ اس مرد مجاہد نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرعدالت میں اپنی تحریرکردہ کتاب پرکسی طرح کامعذرت خواہانہ رویہ اختیارکرنے کی بجائے ڈنکے کی چوٹ پراپنے موقف کے حق میں پرزوردلائل پیش کئے۔
کیاہے ’معالم الطریق‘میں؟
حالانکہ ’معالم الطریق‘12 ابواب پر مشتمل 160صفحات کی مختصرسی کتاب ہے ،لیکن محققین کے مطابق گزشتہ صدی میں عربی زبان میں اس سے عمدہ کتاب شاید نہیں لکھی گئی۔اس کتاب میں امت کو جھنجوڑاگیاہے کہ قرآن مجیدکی فراہم کردہ بنیادوں پرایک نئی فکراور نئے معاشرے کاقیام عمل میں لایا جائے۔اس کتاب کے مضامین کافی حد تک علامہ محمداقبال رحمۃ اللہ علیہ کے خطبات ’فکراسلامی کی تجدیدنو‘سے ملتے جلتے ہیں۔سیدقطب شہید کی بنیادی اٹھان توادیب اور شاعرکی حیثیت سے ہی تھی اور قرآن مجیدجیسی الہامی کتاب میں بھی صرف ایک چیلنج ہے اور ادیبوں اور شاعروں کوہے کہ اس جیسی کوئی کتاب یاسورۃ یاآیت ہی بناکردکھادو۔ مصر کی تاریخ گواہ ہے کہ جب ادب و نقد اورقرآن مجیدیکجا ہوگئے تو’معالم الطریق‘جیسی مختصر کتاب سے ہی باطل شکست کھاگیا۔سیکولرازم جیسے انسان دشمن نظریہ کی عدالتوں سے انصاف کی توقع رکھناگویااپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ۔
گرفتاری:
جمال ناصر کے تاریک دور آمریت میں کئی بار آپ کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اخوان المسلمین سے آپ کی وابستگی مصری حکومت کو بہت کھٹکتی تھی۔جمال ناصر کے دور میں جب آپ کو گرفتار ہوئے تقریبا 10 سال ہوچلے تھے۔ مصری حکومت نے یہ پیشکش کی کہ آپ چند سطور لکھ دیں جن میں مصری حکومت سے معافی کی درخواست کی گئی ہو آپ نے کہا کہ’مجھے تعجب ہوتا ہے ان لوگوں پر جو یہ کہتے ہیں کہ باطل سے معافی مانگ لے۔ اگر میری گرفتاری قدرت کی طرف سے ہے تو میں اسی میں خوش ہوں اور اگر میری گرفتاری باطل کی طرف سے ہے تو میں باطل سے رحم کی بھیک مانگنے کیلئے ہرگزتیار نہیں ۔‘ اس کے بعد آپ پر ظلم و ستم کا سلسلہ مزید تیز کردیا گیا۔
شہادت:
تاریخ شاہد ہے کہ دور غلامی کے بدترین اثرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قوموں کو ماضی کے صفحات میں دفن کر کے تو اس دنیاسے ان کا وجود نابود کر دیتاہے۔لیکن امت مسلمہ تاریخ انسانی وہ محترم و متبرک گروہ ہے جس کی کوکھ دور غلامی میں بھی علمیت و قیادت کے بارآورثمرات سے سرسبزو شاداب رہی ہے۔سیدقطب شہیداس امت وسط کے وہ مایہ ناز سپوت ہیں جنہوں نے دورغلامی کے پروردہ استعمار کے سامنے سپرڈالنے کی نسبت شہادت کے اعلی ترین منصب کو پسند کیا۔سیدقطب شہیدمصر کے نامور ماہر تعلیم،مسلم دانشوراورعربی کے معروف شاعر تھے۔’اخوان الملمون‘سے وابستگی ان کیلئے جہاں باشعورمسلمان حلقوں میں تعارف کا باعث بنی وہاں امت مسلمہ کو ذہنی طور پردورغلامی سے نکالنے کیلئے انہوں نے قلم کے ہتھیارکو بھی استعمال کرنا شروع کر دیا۔مصر کے غلامی زدہ سامراج کوسیدقطب کی قلمی کاوشوں کے نتیجہ میں مسلمانوں کاباشعورہونا پسند نہ آیااوروقت کے طاغوت نے اس بطل حریت کو راہی ملک عدم کردیا۔انبیاکرام علیہم السلام کے بعدانسانی تاریخ میں یہ آسمان شاید پہلی مرتبہ دیکھ رہاتھا کہ ملزم کس شان سے نہ صرف اعتراف جرم کررہاہے بلکہ اپنے جرم کے حق میں مضبوط ترین دلائل بھی بیان کررہا ہے۔اسلام کے اس عظیم مفکر ، داعی او ر مفسر قرآن کو ان کی شہرہ آفاق کتاب معالم علی الطریق لکھنے پر مصری حکومت کے خلاف سازشیں کرنے کے بے بنیاد الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔چنانچہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے مطابق سیدقطب شہید رحمۃ اللہ علیہ سمیت چھ اور اسلامیان مصرکو سزائے موت سنا دی گئی اور 25 اگست1966کو پھانسی دے دی گئی۔آپ نے پھانسی کے پھندے پر جھول کرابدی حیات جاوداں کے راستہ پر ہمیشہ کیلئے کامیاب و کامران ہو گئے۔
ادبی خدمات:
سید قطب شہید مصری معاشرہ کے اندر ایک ادیب لبیب کی حیثیت سے ابھرے۔ سیاسی اور اجتماعی نقاد کے عنوان سے انہوں نے نام پیدا کیا۔ ان کی اہم ترین تصنیف قرآن کریم کی تفسیر ہے جو ’فی ظلال القرآن‘کے نام سے عربی میں لکھی گئی ہے اور اس کا ترجمہ بشمول اردو کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔
تصانیف:
طفل من القریۃ (گاؤں کا بچہ)،
المدینۃ المسحورۃ (سحر زدہ شہر )،
النقد الادبی ،لتصوۃر الفنی فی القرآن،
مشاھد القیامۃ فی القرآن ،
معالم علی الطریق،
المستقبل لھذا الدین،
ھذا الدینفی ظلال القرآن (تفسیر قرآن)،
کیف وقعت مراکش تحت الحماہ الفرنسیہ؟،
الصبح یتنفس،
قیمہ الفضیلہ بین الفرد والجماعہ،حدثینی،
الدلالہ النفسیہ للالفاظ والتراکیب العربیۃ،
ھل نحن متحضرون؟،
ہم الحیاۃ،
وظیفۃ الفن والصحافۃالعدالۃ الاجتماعیہ ،
شیلوک فلسطین او قضیہ فلسطین،
این انت یا مصطفی کامل؟
ھتاف الروح،
تسبیح،
فلنعتمد علی انفسنا،
ضریبۃ الذل،
این الطریق؟