فاضل ظہور
چمر کولگام کشمر
ای۔میل : [email protected]
انشاء اللہ ہم بہت جلد ایک مبارک اور عظیم مہینے میں داخل ہونے جارہے ہیں، جس میں ہر لمحہ،ہر پل اللہ سبحانہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔نفل عبادات کااجر وثواب فرائض کے برابر ہو جاتا ہے اور فرائض کاستر( ۷۰) گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں،جس سے ماحول نیکیوں کے لئے سازگار ہو جاتا ہے۔دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں،روزہ گناہوں سے بچانے کے لئے ڈھال بن جاتاہے۔شیاطین قید کر دئے جاتے ہیں،برائی کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔رمضان کے پہلے عشرہ میں رحمتوں کانزول ہوتا ہے،دوسرا عشرہ اللہ کی جانب سے مغفرت کا مژدہ لے کر آتاہے اورتیسرے عشرہ میں اہل ایمان کو جہنم کی آگ سے نجات کی نفیر عام سنا دیجاتی ہے۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ خود اپنے نیک بندوں کے لئے فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ عید الفطر کے گزرتے ہی آنے والے رمضان تک جنت کو سجانے اور سنوارنے میں مصروف ہو جائیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی جانب سے بخشش اور نجات کے اتنے سارے انتظامات کے باوجود اگر ہم نے اپنے آپ کو ان کے حصول کے لئے تیار نا کیا تو ہم سے برا بدنصیب اور کون ہو سکتا ہے؟ہمارے کتنے ہی رشتہ دار اور دوست و احباب جو پچھلے رمضان ہمارے ساتھ تھے، آج نہیں رہے۔کیا بھروسہ ہمیں اگلا رمضان ملے نا ملے؟رسول اللہ ﷺ شعبان کا مہینہ آتے ہی اللہ کی عبادت کے لئے اپنی کمر کس لیتے اور صحابہ کرام کو بھی تاکید فرماتے۔ آیئے ہم سب فوراً اپنے آپ کو رمضان کے فیوض و برکات سے اپنا اپنا دامن بھرنے کے لئے تیار کرلیں او راس کی نیت اور ارادہ کرلیں۔ چند نہایت اہم اور ضروری امور کو ہم اپنے سامنے رکھتے ہوئے رمضان المبارک کا شایان ِ شان استقبال کریں۔
(۱)۔روزہ کی حفاظت : روزہ بھوکے اور پیاسے رہنے کا نام نہیں ۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہیں چھوڑا ،اس کے بھوکے اور پیاسے رہنے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں ۔لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنے روزہ کو ان تمام مفسدات سے بچائیں جن سے روزہ عند اللہ مقبول نہیں ہوتا۔دوسری عبادات پر اجر و ثواب کی حد مقرر ہے ،مگرروزہ کے اجر کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے” روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دونگا” ۔
(۲)۔تعلق باللہ: روزہ اہل ایمان کے دلوں میں ایمان باللہ کو مضبوط اور تعلق باللہ کو مستحکم کرتا ہے۔اس کے حصول کے لئے ہم روزہ کی حالت میں ہر لمحہ اپنی زبان کواللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر سے تر اور دل کواللہ تبارک وتعالیٰ کی یاد مین مشغول رکھیں۔مسنون اذکار کو یاد کریں اور ان کا ورد کرتے رہیں۔
(۳)۔تعلق بالقرآن : رمضان کی قدر و منزلت صرف اس لئے ہے کہ اس میں قرآن کے نزول کا آغاز ہوا، اور ہم پر روزہ صرف اس لئے فرض کیا گیا کہ قرآن جیسی عظیم نعمت کے ملنے پر ہم اپنے پرور دگار کا شکر ادا کریں۔اس کا حق صحیح معنوں میں اسی وقت ادا ہو سکتا ہے جب ہم قرآن کے معنی و مطلب کوسمجھیں ۔ رمضان میں ہم کثرت سے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور تراویح میں پورا قرآن سنتے ہیں، مگر عربی زبان نا جاننے کی وجہ سے قرآن کے پیغام اور مطالبات کو سمجھنے سے قاصررہ جاتے ہیں۔لہٰذا ہم اس بات کی کوشش کریں کہ روزانہ جتنا قرآن تراویح میں پڑھا جاتا ہے اس کا ترجمہ انفرادی طور پرپڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں یا اجتماعی طور پر سننے کا اہتمام کریں ۔ورنہ نزول قرآن کامقسدہی فوت ہو جاتا ہے۔ ہم روزانہ کچھ وقت قرآن کے مطالعہ کے لئے نکال کر اسمیں قرآن کی چھوٹی سورتیں جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں یاد کرنے کا پروگرام بنا لیں۔
(۴)قیامِ لیل اور تہجد: رمضان المبارک کی اہم ترین عبادت قیام لیل (تراویح) ہے۔ہم سب عشاء کے بعد تراویح پڑھتے ہیں اوراس میں قرآن سنتے ہیں۔میدان حشر میں روزہ، ترویح اور قرآن مبین اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور گواہی دینگے اور سفارش کریں گے کہ تیرے بندوں نے دن میں روزہ رکھا اور رات میں طویل قیام کیا اور قرآن سنا، پس تو اپنے ان بندوں کو بخش دے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم پوری دلجمعی کے ساتھ رمضان کا پورا مہینہ قیام لیل کریں اور قرآن سنیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ پہلے عشرہ کے بعدتراویح ادا کرنے والوں کی تعداد گھٹنے لگتی ہے اور مساجد کی صفیں خالی ہونے لگتی ہیں۔
(۵)حصول تقوٰی : روزہ کا اصل مقصد تقوٰی کا حصول ہے۔روزہ کی حالت میں بندۂ مومن اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پراپنے آپ کو کھانے ،پینے اور جائز طریقے پر اپنی جنسی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھتاہے، جس کی بدولت اس کے دل میں ہر وقت اللہ کے موجود ہونے اور نگرانی کرنے کا احساس پروان چڑھتا ہے،اس طرح وہ اپنے آپ کو زندگی بھر ان کاموں سے بچائے رکھنے کا قابل بنتاہے،جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔اگر روزہ کی حالت میں ہم اپنے آپ کو برائیوں اور گناہوں سے نا بچا پائیں تو رمضان کے بعد سال بھر کیسے روک پائیں گے؟ محض بھوکا اور پیاسا رہنے سے روزہ کا مقصد ہرگز حاصل نا ہوگا۔
(۶) زبان کی حفاظت اور نظر کی پاکی: نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دیگا ،میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔اور یہ کہ نگاہوں ، کان،زبان اور دل کا بھی روزہ ہوتا ہے۔ روزہ کی حالت میں بُرا دیکھنے،سننے،بولنے اور سوچنے سے بھی بچناکرنا چاہئے۔دنیا میں جتنے بھی برائیاں،شرور، فتنے اور مسائل پیدا ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں وہ تمام زبان اور شرمگاہ کے غلط اور نا جائز استعمال سے ہی ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔روزہ ہمیں ان دونوں کے غلط استعمال سے روکتا ہے۔جھوٹ،گالی،چغلی،غیبت اور بہتان ،یہ سب زبان سے صادر ہوتے ہیں اور گناہ کے کام ہیں۔ان سے عام حالات میں ہی روکا گیا ہے۔اسی طرح مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے۔ اگر ان کا ارتکاب روزہ کی میں ہو توگناہ اور بھی سنگین ہو جاتا ہے۔
(۷) حقوق العبا د: رمضان اللہ تبارک وتعالیٰ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کا مہینہ ہے۔رمضان آتے ہی نبی کریم ﷺ کیسخاوت میں بے انتہا اضافہ ہو جاتا۔ ہمیں بھی چاہئے کہ امضان میں اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کریں ۔ زکوٰۃ کے علاوہ غریبوں، مسکینوں،یتیموں،بیواؤں اور بے سہارا لوگوں پر دل کھول کر خرچ کریں ، کیوں کہ رمضان ہمدردی اور غمگساری کا مہینہ ہے۔(۸) کم کھانا اور کم سونا : رمضان قرآن مجید کی سالگرہ کا مہینہ ہے۔قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت، اسکی آیات میں غور و فکر اورتدبر کا مہینہ ہے۔زیادہ کھانے سے نیند کا غلبہ ہوتا ہے اور ہم یہی کرتے ہیں۔ سحری پیٹ بھر کرتے ہیں اور افطار کا تو عالم ہی نرالہ ہوتا ہے۔افطار میں اتنا کھالیتے ہیں جتنا عام دنوں میں بھی نہیں کھاتے۔ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا سب ملا کرایک ہی وقت افطار میں کھا جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے بسا اوقات تراویح بھی ٹھیک سے ادا نہیں کر پاتے۔دوسری طرف سحری کے بعددیر تک سوتے رہتے ہیں، ظہر کے بعد بھی سوتے ہیں اور بسا اوقات عصر کے بعد بھی۔اس سے روزہ کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔(۹) افطار کرانے کا اجر : نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کراتا ہے اس کی مغفرت ہو جاتی ہے اور اس کو جہنم کی آگ سے نجات مل جاتی ہے۔ یہ اجر و ثواب اس کے لئے بھی ہے جو ایک کھجور کھلا دے یا ایک گلاس لسی یا پانی ہی پلا دے۔ ہمارا عام مشاہدہ ہے کے رمضان کے مہینے میں افطار کی بڑی بڑی دعوتیں اور پارٹیاں دی جاتی ہیں۔ جن میں دولت مند لوگ اپنے ہم رتبہ امیروں کو بلاتے ہیں۔لاکھوں روپیہ خرچ کر کے انواع و اقسام کے کھانے کھلاتے ہیں مگر اپنے غریب رشتہ داروں اورمفلس و لاچار پڑوسیوں کو بلانا بھول جاتے ہیں یا اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ہمیں تھنڈے دل سے سوچنا چاہئے کہ کیا ایسا کرنے سے ہمارا یہ عمل جسے ہم ثواب کی نیت سے کرتے ہیں، کیا عند اللہ مقبول ہوگا؟
(۱۰) شب ِ قدر : رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ایک ایسی رات پوشیدہ ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اسی رات میں قرآن کا نزول شروع ہوا۔یہ تقدیر ساز رات ہے ،جس میں انسانیت کی فلاح و کامرانی کا وہ کام ہوا جو ہزار مہینوں میں نہیں ہوا۔اس رات اللہ کے حکم سے روھ الامین جبرئیل ؑ اور فرشتے انسانوں کی تقدیر کے فیصلے لیکر اترتے ہیں۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے پوشیدہ رکھا اور نبی کریم ﷺ نے شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا تاکہ امت مسلمہ زیادہ سے زیادہ اجر وثواب حاصل کر سکے۔ہمیں چاہئے کہ ہم اس رات بازاروں میں گھوم کر اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے قرآن کے مطالعہ ،نوافل اور تہجد کا التمام کریں۔
(۱۱) لیلۃ الجائزہ: عیدالفطر کا چاند نظر آنے کے بعد رمضان کی آخری رات لیلۃ الجائزہ یعنی اجر ت کی رات کہلاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جب رمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ روزہ داروں کے تمام گناہ بخش دیتے ہیں، مزدوروں کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دی جاتی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس رات اللہ کے آگے سر بسجود ہوکر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے اجرت و مزدوری حاصل کرنے کی فکر کریں ناکہ مزدوری ملنے کے وقت اللہ کے دربار میں غیر حاضر رہ کر رات بھر بازاروں میں گھومتے پھریں اوراپنی مزدوری گواں بیٹھیں۔
(۱۲) عید کی خریداری: رمضان کے مہینہ میں ہماری ساری دلچسپی اور مصروفیت خریداری پر مرتکز ہوتی ہے۔کچھ لوگ سارا مہینہ خریداری میں لگا دیتے ہیں، کچھ دوسرا اور تیسرا عشرہ اس کی نذر کرتے ہیں۔جبکہ اکثریت رمضان کے آخری عشرہ کو عید کی خریداری پر قربان کر دیتے ہیں۔ اکثر لوگ بازاروں میں ہوٹلوں،چائے کی دکانوں اور ٹھیلوں پر افطار کر لیتے ہیں، جن میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے۔آخری عشرہ میں ہم لوگ عید کی خریداری کے چکر میں طاق راتیں ضائعکردیتے ہیں اور لیلۃ القدر بھی گواں دیتے ہیں۔ آنحضور ﷺ کا فرمان ہے کہ زمین پر سب سے اچھی جگہ مسجد کی ہے اور خواتین کے لئے گھر کے اندر انکا حجرہ ہے اور بدترین جگہ بازار ہیں۔ یہ عام دنوں کی وعید ہے جبکہ رمضان میں بازار کی برائیاں اور گناہ اور بھی سنگین ہو جاتے ہیں۔ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی بڑی تعداد رات دیر گئے تک بازاروں میں خریداری کے لئے گھومتی پھرتی ہیں۔اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ نامحرم مرد اور خواتین ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر گذر نہیں پاتے۔ یہسب طاق راتوں میں بھی ہوتا ہے اوررمضان کی آخری شب تو عروج کہ پہنچ جاتا ہے۔ ہمیں اس ضمن میں ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہئے کہ اور ہم کرکیا رہے ہیں؟ مناسب یہ ہے کہ رمضان شروع ہونے سے قبل عید کی خریداری کر لیں، اگر کسی وجہ سے نا کر پائیں تو پہلے عشرہ میں دن میں کر لیں۔
(۱۳) ٹیلی وژن سے پرہیز: اس دور کا سب سے بڑا فتنہ ٹی وی ہے۔اس کی برائیوں سے ہر کوئی واقف ہے،مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔جو لوگ ٹی وی دیکھنے کے عادی ہیں خصوصاً خواتین یہ طے کرلیں کم از کم رمضان کے مبارک اور قیمتی لمحات ٹی وی کی بھینٹ چڑھا کر اپنی اور اپنے بچوں آخرت برباد نہ کریں گی۔ کم از کم رمضان کا ایک مہینہ تو ٹی وی کے شیطان لعین کو قید کر دیا جاے۔ (۱۴) دعوت اِللقرآن:رمضان المبارک اور لیلۃ القدر ان دونوں کی قدر ومنزلت نزول قرآن کی وجہ سے ہے۔قرآن مجیدخالق کائنات کی جانب سے صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ سارے انسانوں کے لئے نازل ہوا ہے۔ہر مسلمان پرقرآن کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اسے ان لوگوں تک پہنچائے جن تک یہ نہیں پہنچا ہے۔ہمارے برادران وطن جو ہمارے ساتھ بچپن میں کھیلے،سکول اور کالج میں ہمارے ساتھ پڑھ رہے ہیں یا پڑھ چکے ہیں،جن کے ساتھ بازاروں میں ہمارا لین دین ہوتا ہے،ان تک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہدایت کی آخری کتاب پہنچانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اگر ہم نے یہ فریضہ اد ا نہیں کیا تو میدان حشر میں قرآن ہمارے خلاف حجت بن کار کھڑا ہوگا۔اس کے لئے رمضان بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
ہم اپنے قریبی غیر مسلم دوستوں اورپڑوسیوں کو افطار پر بلا کرقرآن کا ترجمہ یا قرآن کے تعارف پرکتابچہ یا کم از کم ایک ورقیہ فولڈرضرور دیںحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرماتے کہ اکثر اس کے پانے کی دُعا فرماتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے شوق و محبت سے ماہ رمضان کا استقبال فرماتے۔
1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مبارک مہینے کو خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال فرماتے اور صحابہ کرام سے سوالیہ انداز میں تین بار دریافت کرتے :
مَاذَا يَسْتَقْبِلُکُمْ وَتَسْتَقْبِلُوْنَ؟
’’کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟‘‘
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! کیا کوئی وحی اترنے والی ہے؟ فرمایا : نہیں۔ عرض کیا : کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں۔ عرض کیا : پھر کیا بات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِنَّ اﷲَ يَغْفِرُ فِی أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ لِکُلِّ أَهْلِ الْقِبْلَةِ.
منذری، الترغيب والترهيب، 2 : 64، رقم : 1502
’’بے شک اﷲ تعالیٰ ماہ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے۔‘‘
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جیسے ہی ماہ رجب کا چاند طلوع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا فرماتے :
اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي رَجَبٍ، وَشَعْبَانَ، وَبَارِکْ لَنَا فِی رَمَضَانَ.
أبو نعيم، حلية الأولياء، 6 : 269
’’اے اللہ! ہمارے لئے رجب، شعبان اور (بالخصوص) ماہ رمضان کو بابرکت بنا دے۔‘‘
3. عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَمْ أَرَکَ تَصُوْمُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ؟ قَالَ : ذَالِکَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيْهِ الأَعْمَالُ إِلَی رَبِّ الْعَالَمِيْنَ فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ.
1. نسائي، السنن، کتاب الصيام، باب صوم النبي صلی الله عليه وآله وسلم بأبي هو وأمّي وذکر اختلاف الناقلين للخبر في ذلک، 4 : 201، رقم : 2357
2. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 201، رقم : 21801
’’حضرت اُسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! جس قدر آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اس قدر میں نے آپ کو کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان میں (آتا) ہے اور لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں (پورے سال کے) عمل اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل روزہ دار ہونے کی حالت میں اُٹھائے جائیں۔‘‘
4۔ اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلسل دو ماہ تک روزے رکھتے نہیں دیکھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان المعظم کے مبارک ماہ میں مسلسل روزے رکھتے کہ وہ رمضان المبارک کے روزہ سے مل جاتا۔
نسائي، السنن، کتاب الصيام، ذکر حديث أبی سلمه فی ذلک، 4 : 150، رقم : 2175
ماہ شعبان ماہ رمضان کے لئے مقدمہ کی مانند ہے لہٰذا اس میں وہی اعمال بجا لانے چاہییں جن کی کثرت رمضان المبارک میں کی جاتی ہے یعنی روزے اور تلاوتِ قرآن حکیم۔ علامہ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ ’لطائف المعارف (ص : 258)‘ میں لکھتے ہیں :
’’ماہ شعبان میں روزوں اور تلاوتِ قرآن حکیم کی کثرت اِس لیے کی جاتی ہے تاکہ ماہ رمضان کی برکات حاصل کرنے کے لئے مکمل تیاری ہو جائے اور نفس، رحمن کی اِطاعت پر خوش دلی اور خوب اطمینان سے راضی ہو جائے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول سے اِس حکمت کی تائید بھی ہو جاتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ شعبان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :
کان المسلمون إِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ أکبُّوا علی المصاحِفِ فقرؤوها، وأَخْرَجُوْا زَکَاةَ أموالهم تقوِيَةً للضَّعيفِ والمسکينِ علی صيامِ و رمضانَ.
ابن رجب حنبلی، لطائف المعارف : 258
’’شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے، اپنے اَموال کی زکوۃ نکالتے تاکہ غریب، مسکین لوگ روزے اور ماہ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کورمضان المبارک سے بھرپور استفادہ کرنے کا موقع اور توفیق نصیب کرے۔ آمینثم آمین۔