الف عاجز اعجاز
کالج آف ایجوکیشن سرینگر
پورے گھر میں شادی کا ماحول اپنے جوش و خروش پر تھا۔ ڈھولکیا بج رہی تھی،۔ لڑکیاں ناچ رہی تھی اور سب بارات کا انتظار کر رہے تھے۔ آج داؤد کی بہن کی شادی تھی وہ بہت خوش تھا لیکن اندر ہی اندر اس بات پہ مایوس بھی ہو رہا تھا کہ آج اُس کی بہن ہمیشہ کے لئے دوسرے گھر چلی جائیں گی۔ بارات آگئی تو سب لوگ باراتیوں کا استقبال کرنے چلے گئے۔ داؤد بھی بڑی گرم جوشی سے باراتیوں کا استقبال کر رہا تھا۔ اُس کی نظر ثنا پر پڑ گئی تو وہ دیکھتا ہی رہ گیا۔ پُر کشش چہرہ، گلابی ہونٹ، جھیل جیسی آنکھیں اور زلفیں جب چہرے پر آتی تھی تو اُس کے حُسن میں چار چاند لگا دیتی تھی۔ سارے باراتی اندر چلے گئے اور داؤد ثنا کو دیکھتا رہ گیا۔ کتنی خوبصورت لڑکی ہیں جا کر بات کر لیتا ہوں کیا پتہ قسمت جاگ جائیں۔ داؤد من ہی من سوچنے لگا اور جاکر ثنا سے مخاطب ہوا۔
داؤد: اسلام علیکم
ثنا: وعلیکم اسلام
داؤد: آپ ٹھیک ہیں، میرا مطلب آپ کو کچھ چاہیں تو نہیں۔
ثنا: جی شکریہ، کچھ چاہیں ہوگا تو میں خود لے لوں گی۔
داؤد: ویسے اپنا تعارف کرائیں، مجھے لگتا ہے آپ کو پہلے بھی کبھی دیکھا ہے۔
ثنا: جی میرا نام ثنا یے، میں لڑکے والوں کی طرف سے، میں دولہے کی بھتیجی ہوں اور آپ؟
داؤد: داؤد نام ہے میرا، دلہن کا بھائی۔
ثنا: اس کا مطلب پہلے بھی کسی تقریب میں ہی دیکھا ہوگا آپ نے مجھے۔
داؤد: جی ہوسکتا ہے۔
ثنا: آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔
داؤد: مجھے بھی، ویسے ایک بات کہوں آپ بڑی خوبصورت لگ رہی ہے، پوری محفل کی جان۔
ثنا: جی تعریفوں کے لئے شکریہ
داؤد: آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو ہم دوست بن سکتے ہیں۔
ثنا: جی اعتراض کیسا، اب تو ہم رشتہ دار بھی ہے اور آپ بہت اچھے ہیں۔ آج سے دوستی پکی۔
داؤد: بہت شکریہ، یہ میرا نمبر لے لیجئے۔
اس طرح داؤد اور ثنا کی دوستی ہوگئی اور رفتہ رفتہ دوستی پیار میں کب تبدیل ہوگئی دونوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔ اب تو دونوں ایک دوسرے پر مر مٹتے تھے۔ سیر سپاٹے کرتے تھے اور دونوں کا ایک دوسرے کے بنا ایک پل بھی دل نہ لگتا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کا ساتھ پاکر بہت خوش تھے۔
آج بھی داؤد ثنا سے ملنے جانے والا تھا۔ کسی کام سے گھر کی چھت پر چڑھ گیا تو بجلی کے تار کو چھونے کی وجہ سے اُس کو زوردار جھٹکا لگا اور جھلس کر زمین پر گر گیا۔ گھر والوں نے فوراً ہسپتال پہنچایا اور وہاں ڈاکٹروں نے پٹی کر کے داؤد کو پرائیوٹ ہسپتال منتقل کیا کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق اس کا علاج صرف وہی ممکن تھا۔
ڈاکٹر صاحب ہمارا بیٹا کیسا ہے؟ وہ ٹھیک تو ہو جائیں گا نا؟ خطرے کی کوئی بات تو نہیں۔ داؤد کا باپ صدیق ڈاکٹروں سے اضطراب میں پوچھ رہا تھا۔
ڈاکٹر: دیکھیں آپ کے بیٹے کا جسم بُری طرح جل گیا ہے۔ اُس کا فوری طور پر آپریشن کرنا ہوگا اور اُس کے دونوں بازو اور ایک ٹانگ کاٹنی پڑے گی ورنہ اُس کا بچنا محال ہیں۔
صدیق: کیا! بازو اور ٹانگ کاٹنی ہوگی۔ ایسے تو میرا بیٹا پوری طرح معزور ہو جائیں گا ڈاکٹر صاحب۔
ڈاکٹر: دیکھیں ٹانگ اور بازو دوبارہ بھی لگ سکتے ہیں لیکن سانس ایک بار رُک گئی تو دوبارہ نہیں لگ سکتی۔ آپ ضروری لوازمات پورے کریں۔
صدیق: ٹھیک ہیں ڈاکٹر صاحب لیکن آپریشن کے بعد میرا بیٹا بچ تو جائیں گا نا۔
ڈاکٹر: جی ان شاء اللّہ، ہمارے ہاتھ میں کوشش ہیں باقی شفا تو اللّٰہ تعالیٰ دیتا ہے آپ دعا کریں سب ٹھیک ہو جائیں گا۔
وہاں ثنا لگاتار داؤد کو فون کئے جا رہی تھی اور اس کا رابطہ داؤد سے نہیں ہو پا رہا تھا۔ وہ بہت پریشان تھی۔ اُس کو کسی سے داؤد کے جلنے کی خبر مل گئی تو وہ فوراً ہسپتال جا پہنچی لیکن اس کو وہاں داؤد نہیں ملا تو وہ بہت پریشان ہو گئی اور مایوسی میں اُس نے داؤد کے ماموں کو فون لگایا تو اُس کو پتہ چلا کہ داؤد پرائیوٹ ہسپتال میں زندگی اور موت سے لڑ رہا ہیں اور اس کا امیرجنسی آپریشن ہو رہا ہے۔
یہ سب سُن کر ثنا پر قیامت ٹوٹ پڑی اور وہ داؤد کے پاس جانے کے لئے بیقرار ہو رہی تھی۔ وہ بس داؤد سے ملنا چاہتی تھی اُس سے اِس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ لوگ کیا کہیں گے، اُس کے گھر والے کیا سوچیں گے۔ اتنے میں اُس کے باپ نے اُس کو آواز لگائی۔ ثنا بیٹا ہم داؤد کو دیکھنے ہسپتال جارہے ہیں تم بہن بھائیوں کا خیال رکھنا۔ یہ سب سُن کر ثنا کی جان میں جان آگئی اور کمرے سے باہر آکر باپ کو راضی کرنے لگی کہ وہ بھی ساتھ چلے گی۔ آخر گھر والوں کو منا کر وہ ہسپتال پہنچ گئی۔ داؤد کا آپریشن ہوئے آٹھ گھنٹے ہورہے تھے اور وہ ہوش میں نہیں آیا تھا ابھی تک۔ ثنا اُس کے سرہانے بیٹھ گئی۔ داؤد کا چہرہ پوری طرح سوجھا ہوا تھا۔ ثنا نے اُس کے کان میں اُس کا نام لیا تو اُس نے اپنی آنکھیں کھول لی۔
ہوش میں آتے ہی داؤد کو ثنا کا خیال آنے لگا۔ وہ سوچ میں ڈوبنے لگا مجھے تو ثنا سے ملنے جانا تھا یہ میں کہاں آگیا، پتہ نہیں وہ کہاں ہوگی اس کو کسی نے بتایا بھی ہوگا کہ میں یہاں ہوں اور میری حالت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب دیکھنے کے بعد وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی تو، کیا وہ میرا یہ حال دیکھ کر میرا ساتھ دے گی۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔
ثنا: پریشان نہ ہو داؤد میں آگئی ہوں اور تمہارے ساتھ ہوں۔
داؤد: ثنا یہ دیکھو کیا ہو گیا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھ سے میرے بازو چھین لئے۔ میں تمہارے لائق نہیں رہا۔
ثنا: ایسا نہیں کہتے داؤد۔ اگر وہ لے رہا ہے تو دے بھی تو رہا ہے۔ میں دوں گی تمہارا ساتھ، میں کروں گی تم سے شادی، تم فکر نہ کرو میں کئے گئے سارے وعدے نبھاتی ہوں۔
داؤد: وعدے تو تب کئے تھے جب میں بلکل ٹھیک تھا۔ تندرست تھا، اب ان وعدوں کا کوئی مطلب نہیں رہا۔
ثنا: فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا، میں تمہارے ساتھ ہوں اور یہی ہوں تم آرام کرو۔
ثنا کی بات سُن کر سارے خاندان والے چونک گئے، اُس کے گھر والوں کو ایسا لگا کہ وہ جذبات میں آکر سب کچھ کہہ رہی ہے۔ اُنہوں نے اُس کو گھر جانے کا کہا تو وہ راضی نہ ہوئی اور بڑی مشکل سے اُس کو یہ کہہ کر لے گئے کہ اُس کی شادی داؤد سے ہی کروائے گے۔ اُنہیں لگتا تھا کہ وہ گھر جاکر ٹھیک ہو جائیں گی لیکن وہ اپنی بات پر قائم رہی۔ ثنا کا باپ مشتاق اُس کو سمجھاتا رہا مگر وہ کچھ بھی سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔
ثنا: نہیں بابا میں شادی کروں گی تو صرف داؤد سے کروں گی اور اُس میں کمی کیا ہے شریف ہیں، خاندانی ہیں اور آپ کو کیا چاہیے۔
مشتاق: کیا کمی ہیں! تمہیں دکھائی نہیں دیا کہ کیا کمی ہیں وہ دونوں ہاتھوں اور ٹانگ سے معذور ہو چکا ہیں اور تم پوچھ رہی ہو کیا کمی ہیں۔
ثنا: تو کیا ہوا بابا جان میں بنوں گی اس کے ہاتھ۔۔۔۔۔۔
مشتاق: کہنا جتنا آسان ہے نبھانا اُتنا ہی مشکل۔ کیا اُس کے ساتھ خوش رہ پاؤ گی۔
ثنا: جی بابا کیوں نہیں وہ محبت ہیں میری ہم دونوں نے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی ہیں اُس کے ساتھ خوش نہیں رہوں گی تو کس کے ساتھ؟ آپ دیکھنا وہ مجھے بہت خوش رکھیں گے، بہت خیال رکھیں گے میرا۔
مشتاق: جو خود دوسروں کا محتاج ہو گیا ہو وہ تمہارا کیا خاک خیال کرے گا۔
ثنا: لیکن بابا میں اسی سے شادی کروں گی اور خوش رہ کر دکھاوں گی آپ کو۔ میں جانتی ہوں داؤد مجھے بہت خوش رکھے گا۔
مشتاق: سمجھتی کیوں نہیں وہ معزور ہو چکا ہے اب، خود کا خیال نہیں رکھ سکتا تمہیں کیسے سنبھالے گا۔ تم اس کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی۔ سمجھنے کی کوشش کرو۔
ثنا: نہیں بابا وہ میری محبت ہیں مجھے پتہ ہیں میں اُس کے ساتھ بہت خوش رہوں گی۔
مشتاق: ایک معذور کے ساتھ کیسے خوش رہ سکتی ہو؟
ثنا: وہ معذور نہیں محبت ہیں میری اور محبت نقائص نہیں دیکھتی، جذبہ دیکھتی ہیں۔ محبت ساتھ دینے کا نام ہے بابا ساتھ چھوڑنے کا نہیں اور میں ہر حال میں داؤد کا ساتھ دوں گی۔
مشتاق: تم جذباتی ہو رہی ہو ثنا اسی لئے یہ بکواس کر رہی ہو۔ کل ہی تمہارے رشتے کی بات چلاتا ہوں کہیں۔ پھر دیکھنا تم خود بہ خود ٹھیک ہو جاؤ گی اور داؤد کو بھول جاؤ گی۔
ثنا: بابا اگر ایسا ہی کچھ میرے ساتھ ہو گیا ہوتا اور وہ میرا ساتھ نبھانے کی بات کرتا تب تو آپ خوش ہوتے نا پھر اب کیوں نہیں خوش ہو رہے ہیں یہ سوچ کر کہ آپ کی بیٹی وفاداری نبھا رہی ہیں۔
مشتاق: خاموش! اپنے کمرے میں چلی جاؤ مجھے کچھ نہیں سُننا۔ تمہاری مرحومہ ماں کو کیا جواب دوں گا کہ میں نے اُس کی لاڈلی کو ایک معذور کے گلے باندھ لیا۔ سوچو اس کو کتنی تکلیف ہوگی۔
ثنا: یہی تو مسئلہ ہے بابا کہ ماں نہیں ہے میرے ساتھ اگر امی جی زندہ ہوتی تو میری محبت کو سمجھتی مجھے یوں اکیلا نہ کر دیتی۔
مشتاق: اپنے کمرے میں چلی جاؤ اور ہوش کرو ذرا کہ تمہاری اس حرکت سے تمہارے چھوٹے بہن بھائیوں پر کیا اثر پڑے گا۔ وہ کیا سیکھے گے۔
ثنا: بابا۔۔۔۔۔۔۔
مشتاق: خبردار جو مجھ سے اور بحث کی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلی جاؤ میری نظروں کے سامنے سے، میں کل ہی تمہارے رشتے کی بات چلاتا ہوں کہیں۔
اگلے دن مشتاق نے کچھ لوگوں کو ثنا کے رشتے کے لئے بُلایا اور اس کی شادی کہیں اور طے کر دی اور فوراً شادی کی تاریخ بھی رکھی۔
ثنا کو ہر کوئی سمجھاتا تھا ، اپنے گھر والے، داؤد کے گھر والے یہاں تک کہ خود داؤد بھی ثنا سے کہتا تھا دیکھو ثنا وہ تمہارا باپ ہیں تمہارے لئے جو فیصلہ لے گا بہتر ہی لے گا۔ اُس کو تمہاری فکر ہیں اس لئے تم ہر زبردستی کر رہا ہے اور تم بھی تو جانتی ہو کہ وہ تم سے کتنی محبت کرتا ہے۔ لیکن وہ کچھ بھی سمجھنے کے لئے تیار نہ ہوئی شادی سے دو ہفتے پہلے موقع کا فائدہ اُٹھا کر وہ گھر سے بھاگ گئی اور اپنی ایک دور کی خالہ کے پاس چلی گئی تاکہ اُس کو کوئی ڈھونڈ نہ سکے اور ایک مہینہ وہاں پر رہ کر داؤد سے ملنے آگئی۔
داؤد: ثنا تم! تم یہاں کیسے؟ اور تم کہاں چلی گئی تھی۔ کہاں تھی اتنے دنوں سے،۔ انکل نے تمہیں کتنا ڈھونڈا، کتنے پریشان ہیں وہ تمہارے لئے، تمہیں کچھ اندازہ بھی ہیں
ثنا: میں نے کہا تھا نا داؤد کہ میں شادی کروں گی تو صرف تم سے۔ میں جانتی تھی گھر سے بھاگ کر اگر میں سیدھا یہاں اگئی تو وہ لوگ مجھے لے جا کر زبردستی میری شادی اپنی مرضی سے کرائیں گے اسی لئے میں اپنی خالہ کے پاس چلی گئی تھی۔
داؤد: لیکن ثنا یہ کیا پاگل پن ہیں۔
ثنا: بس داؤد اب انکار نہ کرنا اب میں تمہارا ساتھ پانے کے لئے بس کچھ چھوڑ کر آگئی ہوں۔
داؤد: ثنا میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں تم کیوں سمجھتی نہیں ہو میں اب تمہارے لائق نہیں رہا۔
ثنا: بس کرو داؤد سبکچھ چھوڑ کر آئی ہوں تمہارے لئے اب انکار نہ کرنا اور اگر اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے ہاتھ لئے ہیں تو دے بھی تو رہا ہے میں بنو گی تمہارے ہاتھ، آج تمہارے سارے کام میں کروں گی۔ اب تم میری زمہ داری۔
اور کچھ دنوں بعد داؤد کے گھر پر ایک سادہ سی تقریب منعقد ہوئی اور داؤد اور ثنا کا باضابطہ نکاح کر دیا گیا اور وہ دونوں ہمیشہ کے لیے ایک ہوگئے۔