تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس سلفیہ مسلم انسٹچوٹ پرے پورہ
رابطہ:miribrahiem229@gmail com
تہذیب فرنگی ہے اگر موت اس وقت
ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازاں
کہتے ہیں اس علم کو اربابِ ہنر موت
بیگانہ رہے دین سے اگر مدرسۂ زن
ہے عشق ومحبت کے لیے علم وہنر موت
اسلام نے روز اول سے ہی خواتین کے حقوق کی حفاظت کی۔ بعثت نبوی ﷺ سے پہلے خواتین کے حقوق پامال ہورہے تھے بلکہ بعض اقوام تو خواتین کو انسان ماننے کے لئے بھی تیار نہیں تھے۔بعض اقوام صنف نازک میں روح نہ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، خواتین کو فقط جنسی تسکین حاصل کرنے کا آلہ سمجھا جاتا تھا، جسے فائدہ اٹھا کر بیچا جاتا تھا۔ خواتین کی جسم فروشی ایک عام کاروبار بن چکا تھا۔ لیکن اسلام کی سنہری کرنوں نے عورت کو ان ظلمات سے نکال کر نور ہدایت کی طرف لایا۔نبوی ﷺ تعلیمات نے عورت کو دنیا کی اعلیٰ ترین نعمت قرار دیا، اتنا ہی نہیں بلکہ عورت کے قدموں میں جنت رکھی گئی۔ماں کے طرف نظر رحمت سے دیکھنے کو حج مبرور کہا گیا۔ بیٹیوں اور بہنوں کو جنت کی راہ قرار دیا گیا۔اسلام نے ہی حقوق نسواں کا تصور کائنات کے سامنے پیش کیا۔ جسم فروشی کے بدکار مراکز سے نکال کر اسلام نے عورت کو پردہ کی نعمت عظمیٰ عطا کی۔ عورت کی طرف شہوانی نظر ڈالنے کو بھی زنا قرار دیا گیا اور اس طرح اس فعل کو حرام ٹھہرایا گیا۔عورت کے ساتھ بات کرنے کے اصول و ضوابط وضع کئے گئے، عورت کے ساتھ شہوانی گفتگو کو بھی حرام قرار دیا گیا۔غرض اسلامی تعلیمات نے عورت کو مکمل تحفظ بخشا۔قرآن کا ایک عظیم حصہ عورتوں کے مسائل کے لئے رب تعالٰی نے وقف کردیا یہاں تک کہ عورت کے نام پر ایک سورہ مبارک بھی نازل کیا گیا یعنی سورہ نساء۔قرآن گواہ ہے کہ جب بھی کسی پاکدامن عورت پر تہمت لگائی گئی، رب تعالٰی نے عرش اعلیٰ سے انکی براءت نازل کردی، غرض یہ کہ اسلام نے عورت کے کردار و گفتار کو سنوارا، صورت کے ساتھ ساتھ سیرت سازی کی تربیت کی۔ نغمہ پروین کہتی ہیں کہ، "اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ بعض مرتبہ عورت کے ہاتھ میں زمام اقتدار بھی رہا ہے اور اس کے اشارے پر حکومت وسلطنت گردش کرتی رہی ہے، یوں تو خاندان اور طبقے پر اس کا غلبہ تھا؛ لیکن بعض مسائل پر مرد پر بھی ایک عورت کو بالادستی حاصل رہی، اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں، جہاں عورتوں کا بول بالا ہے؛ لیکن ایک عورت کی حیثیت سے ان کے حالات میں زیادہ فرق نہیں آیا، ان کے حقوق پر دست درازی جاری ہی رہی اور وہ مظلوم کی مظلوم ہی رہی”.، "مغربی تہذیب بھی عورت کوکچھ حقوق دیتی ہے؛ مگر عورت کی حیثیت سے نہیں؛ بلکہ یہ اس وقت اس کو عزت دیتی ہے، جب وہ ایک مصنوعی مرد بن کر ذمہ داریوں کابوجھ اٹھانے پر تیار ہوجائے؛ مگر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کالایا ہوا دین عورت کی حیثیت سے ہی اسے ساری عزتیں اور حقوق دیتا ہے اور وہی ذمہ داریاں اس پر عائد کی جو خودفطرت نے اس کے سپرد کی ہے۔”ثریا بتول فرماتی ہیں کہ، "عام طور پر کمزور کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کافی محنت وکوشش کرنی پڑتی ہے۔ تب کہیں جاکر ان کو ان کے جائز حقوق ملتے ہیں، ورنہ تصور بھی نہیں کیا جاتا ۔ موجودہ دور نے اپنی بحث وتمحیص اور احتجاج کے بعد عورت کے کچھ بنیادی حقوق تسلیم کیے اوریہ اس دور کا احسان مانا جاتا ہے؛ حالاں کہ یہ احسان اسلام کا ہے، سب سے پہلے اسی نے عورت کو وہ حقوق دیے جس سے وہ مدتِ دراز سے محروم چلی آرہی تھی۔ یہ حقوق اسلام نے اس لیے نہیں دیے کہ عورت اس کامطالبہ کررہی تھی؛ بلکہ اس لیے کہ یہ عورت کے فطری حقوق تھے اور اسے ملنا ہی چاہیے تھا ۔ اسلام نے عورت کا جو مقام ومرتبہ معاشرے میں متعین کیا، وہ جدید وقدیم کی بے ہودہ روایتوں سے پاک ہے، نہ تو عورت کوگناہ کا پُتلا بنا کر مظلوم بنانے کی اجازت ہے اور نہ ہی اسے یورپ کی سی آزادی حاصل ہے”.
عصر حاضر میں تحریک حقوق نسواں کے نام پر کئی ایک انجمن قائم کردئیے گئے ہیں جن کا نعرہ یہ ہوتا کہ ہم حقوق نسواں کی بحالی کے لئے کام کررہے ہیں حالانکہ جو بھی تحریک اس نام پر قائم کی گئی انکی راہ زندیقیت پر ختم ہوجاتی ہے، ایسی تحریکوں کا بنیادی مقصد بس یہ ہے کہ عورت کو پھر سے جسم فروشی کے بازاروں کی زینت بنایا جائے، اسی لئے گزشتہ کچھ سالوں سے "میرا جسم میری مرضی” کے نعرے بھی لگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ کبھی باطل نے فاطمہ جنا کو استعمال کیا تو کبھی ملالہ یوسف زئی کو۔ کبھی انکی قائد تسلیمہ نصرین تھی تو کبھی ماوری سرمد۔عورتوں کو حقوق دینے کے نام پر ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ کس طرح جنسی تسکین حاصل کرنے کے ناجائز اور غیر شائستہ ابواب کو کھولا جائے اور اس طرح مغربی ممالک کی طرح مسلم ممالک میں بھی طبی و روحانی امراض کی ترویج کی جاۓ۔ ایسی عورتیں نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کی مصداق ہیں کہ،”میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ (آزمائش) نہیں چھوڑی”.حالانکہ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے دنیا سے رخصتی کے وقت بھی حقوق نسواں احسن طریقہ سے ادا کرنے کی تلقین ملت کے مردوں کو کی۔بدنگاہی کے متعلق امام غزالی رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ، "نظر نیچی رکھنا دل کو بہت زیادہ پاک کرتا ہے اور نیکیوں میں اضافے کا ذریعہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تم نظر نیچی نہ رکھو بلکہ اسے آزادانہ ہر چیز پر ڈالو تو بسا اوقات تم بے فائدہ اور فضول بھی اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کر دو گے اور رفتہ رفتہ تمہاری نظر حرام پر بھی پڑنا شروع ہو جائے گی، اب اگر جان بوجھ کر حرام پر نظر ڈالو گے تو یہ بہت بڑ اگناہ ہے اور عین ممکن ہے کہ تمہارا دل حرام چیز پر فریفتہ ہو جائے اور تم تباہی کا شکار ہو جاؤ، اور اگر اس طرف دیکھنا حرام نہ ہو بلکہ مباح ہو، تو ہو سکتا ہے کہ تمہارا دل (اس میں ) مشغول ہو جائے اور اس کی وجہ سے تمہارے دل میں طرح طرح کے وسوسے آنا شروع ہو جائیں اور ان وسوسوں کا شکار ہو کر نیکیوں سے رہ جاؤ،لیکن اگر تم نے (حرام اور مباح) کسی طرف دیکھا ہی نہیں تو ہر فتنے اور وسوسے سے محفوظ رہو گے اور اپنے اندر راحت و نَشاط محسوس کرو گے”.(منھاج العابدین)
خواتین ملت کو یہ بات ذہن نشین کرنی ہے کہ شرعی تعلیمات میں ہی ان کے لئے بہتری ہے۔حقوق وراثت، حقوق ملازمت و دیگر حقوق اسلام نے ہی دنیا کے سامنے رکھے۔خواتین پر جنسی زیادتی کرنے والوں کے خلاف اسلام نے باقاعدہ ایک کامل قانون مرتب کردیا کہ شادی شدہ بدکار کو پتھروں سے سپردخاک کردیا جائے اور غیر شادی شدہ بندے کے وطن بدر کے ساتھ ساتھ مخصوص کوڑے دئیے جائیں۔عورتوں کے ساتھ جو غیر اخلاقی واقعات مختلف ممالک میں پیش آتے ہیں اس کی بنیادی وجہ شرعی تعلیمات سے دوری ہے۔اسلام وہ دین رحمت ہے کہ جس نے خندہ پیشانی سے اپنی بیوی سے بات کرنے کو بھی صدقہ قرار دے دیا، اسلام وہ دین مبارک ہے کہ جس نے مرد کو عورت پر مال خرچ کرنے کے لئے ابھارا، بلکہ بہترین صدقہ اس مال کو کہا گیا جو مرد اپنی اہلیہ پر خرچ کرتا ہے۔ اہل کتاب ایام حیض میں عورت کو ناپاک تصور کرتے تھے اور اس کے ہاتھ سے بنے ہوئے کھانے سے تحذیر کیا کرتے تھے لیکن اسلام وہ وحی آسمانی ہے کہ جس نے ایام حیض کے اندر عورت کی خدمت کرنے کی تلقین کی۔رسول کریمﷺ ، ایام حیض میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں سر مبارک رکھ کر قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے۔فرمان ربانی ہے کہ، "اوروسعت اورکشاد رزق والےکے لیے اپنی وسعت وکشادگی سےخرچ کرنا ضروری ہے اورجس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئي ہو اسے چاہیے کہ اللہ تعالی نے اسے جوکچھ دے رکھا ہے ( اپنی حیثیت کے مطابق ) خرچ کرے”.(سورہ طلاق)
یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم سوسائٹی کے اندر بھی بعض افراد ایسے ہیں جو عورتوں کو اپنے جبر کا شکار بنا دیتے ہیں۔اولاً مسئلہ یہ ہے کہ ایسے افراد کے پاس دین کا علم نہیں ہوتا اور اگر علم ہو تو فہم نہیں ہوتا۔ بعض رجال ایسے بھی ہیں جو عورت کو فقط ایک نوکرانی تصور کرتے ہیں جو فکر جہالت پر مبنی ہے۔ گھر سے نکل کر جب یہی عورت دفتر پہنچ جاتی ہے تو وہاں کا نظام اسے دفتر کی سجاوٹ کے لئے نمائش پر رکھتے ہیں تاکہ آسامی بڑھ جائیں۔ یہ بھی ایک عظیم استحصال ہے۔ بعض ادارے ایسے بھی ہیں جہاں کم قلیل تنخواہ پر عورت سے غیر معمولی کام کروایا جاتا ہے جو اصل بے غیرتی ہے۔مسلم معاشرے کے اندر بھی بعض تاجر ایسے ہیں جو اپنے سامان کو فروخت کرنے کے لئے عورتوں کے عریاں لباس products پر چپکا دیتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے سودے کے ساتھ ساتھ عورت کی عزت کو بھی سستے داموں بیچ ڈالتے ہیں۔فرمان ربانی ہے کہ، "مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ اُن کے لیے بہت ستھرا ہے بےشک اللہ کو اُن کے کاموں کی خبر ہے”.(سورہ نور)
گھریلو تشدد کی شرح میں covid lockdown کے بعد کافی اضافہ دیکھنے کے ملا جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مسلم معاشرے میں بھی شرعی تعلیمات کا نفاذ عملی طور ناقص ہے۔بعض طبقات ایسے بھی ہیں جو اس دور میں بھی عورتوں کی تعلیم کو عیب تصور کرتے ہیں، بیٹی کو بچپن سے ہی یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ تمہیں کسی اور گھر کی زینت بننا ہے اور اس طرح وہ محبت، شفقت، الفت سے محروم ہو جاتی ہے۔ عورت ذات کا استحصال فقط دنیاوی امور میں نہیں ہوتا بلکہ دینی اوامر و نواھی کے نظام سے بھی عورت کو محروم رکھا جاتا ہے جبکہ اسلام نے اس معاملے میں مرد و زن میں کوئی فرق نہیں کی۔
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہرہے، وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خرد مند
کیا چیز ہے آرائش وقیمت میں زیادہ
آزادئ نسواں کہ زمرد کا گلوبند
Women who seek to be equal with men lack ambition.
The king may rule the kingdom, but it’s the queen who moves the board.
علاج فقط یہ ہے کہ نبوی ﷺ سیرت کو عملی زندگی میں اپنایا جاۓ،شریعت اسلامیہ نے جو رہنما اصول زندگی گزارنے کے پیش کئے ہیں، ان پر عمل پیرا ہوکر اپنے ایام گزارے، تبھی جاکر یہ اندھیرا دور ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ