تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس سلفیہ مسلم انسٹچوٹ پرے پورہ
رابطہ نمبر :6005465614
تمھاری باتوں کی بھینی خوشبو
ہماری سوچوں میں بس گئی ہے
تمھارے نقش قدم سے ہم نے
ہزاروں اُجلے خیال پائے
تمھارا دستِ شفیق تھاما
تمھاری اُنگلی پکڑ کے خود کو
سنبھال پائے
سوشل میڈیا کے جہاں متعدد فوائد ہیں لیکن وہیں اسکے زہریلے اثرات بھی کافی زیادہ ہیں۔ سوشل میڈیا جدید دور میں تعلیم و تعلم کا ایک اہم مصدر بن گیا ہے تو وہیں نا شائستگی بھی پروان چڑھ رہی ہے۔ دعوت و تبلیغ کے اعتبار سے بھی سوشل میڈیا عصری ذرائع ابلاغ میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے لیکن وہیں جرائم کی تعداد بھی اس راہ پر چل کر بڑھتے چلے جارہے ہیں۔سوشل میڈیا کے مضر اثرات میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ عمر بھی کی کمائی ہوئی عزت سیکنڈوں میں سپردخاک ہوجاتی ہے۔ کسی کے معمولی و غیر شعوری حرکت سے کسی کی دنیا تباہ ہوسکتی ہے۔ یہاں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بناکر پیش کیا جاتا ہے، امین کو خائن اور خائن کو امین باور کرانے کی سیء کی جاتی ہے۔ اور ایسے افراد و اشخاص تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں جو نااہل و حقائق سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ جب بھی اس platform سے کوئی خبر شایع ہو تو بلا تحقیق نہ آگے پھیلایا جائے اور نہ ہی اسکی تصدیق کی جاۓ کیونکہ عصر حاضر میں دشمن اپنے مخالف کو سماج کی نظروں میں گرانے کے لئے اس platform کو خوب استعمال کر رہے ہیں۔اسی کڑی کی ایک وائرل ویڈیو کلپ گزشتہ کچھ روز سے سوشل میڈیا پر گشت کرتی ہوئی دیکھی گئی جس میں یک طرفہ معاملہ دکھا کر قوم کے ایک معزز اور ذہین و فہیم استاد کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ویڈیو کلپ میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک معروف استاد اپنے ایک طالب علم پر تادیبی کاروائی کررہا تھا لیکن معاملہ کیا تھا اور کس وجہ سے استاد نے اس طالب علم پر ہاتھ اٹھایا، اس کی تحقیق کرنے کی زحمت کسی نے نہیں کی۔راقم نے جب استاد ھذا کے بعض طلاب سے بات کی تو سب طلاب العلم نے استاد کی مدح کی اور استاد کے دفاع میں اپنے جذبات کا اظہار کیا۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ استاد ھذا اپنے طالب علموں کے تئیں بڑے ہی مخلص ہیں۔ لیکن یک طرفہ videography کرنے والے کے ذہن میں کیا تھا، یہ بات عقل سے بالاتر ہے۔ یہ معاملہ جب سوشل میڈیا پر آیا تو فیس بک مفتیوں اور ان پر جاہلوں نے استاد کے خلاف کافی کچھ لکھا لیکن اہل شعور پہلے ہی جان گئے تھے کہ استاد کے ہاتھ بلا وجہ کسی طالب علم پر نہیں اٹھتے، کیونکہ ایک مخلص استاد والدین سے زیادہ بچے کے تئیں فکر مند ہوتا ہے۔استاد کے دل میں بچے کے تئیں جو درد ہوتی ہے اس کا ادراک سوشل میڈیا پر تبصرہ کرنے والا نہیں کرسکتا۔راقم نے اسکے بعد پرے پورہ کے بعد اساتذہ سے گفتگو کی تو سبھی نے ایک ہی جملہ بولا کہ "احمد سر جیسا کوئی دوسرا نہیں جو chemistry کا حق ادا کرسکے”، بعض اساتذہ نے یہاں تک کہا کہ استاد ھذا دینی اور اخلاقی تربیت کے لحاظ سے بھی بچوں کے ہردل عزیز استاد ہیں۔ لیکن معاملہ کی حقیقت یک طرفہ رکھ کر استاد کو تیروں کا نشانہ بنایا گیا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے نظروں میں استاد کی کیا اہمیت اور قدر و منزلت ہے۔یہ بات بھی صحیح ہے کہ استاد کا ہاتھ بچے پر اٹھنا والدین پر شاق گزرتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے۔ اگر اس حرکت کو غلط بھی سمجھا جاۓ پھر بھی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ استاد کی عزت نفس یوں سربازار نیلامی کے لئے رکھ دی جاتی۔ استاد کے خلاف قانونی کاروائی بھی کی گئی، کاش وادی کے والدین سمجھ پاتے کہ استاد کا مار بچے کے لئے شفقت والدین سے لاکھ درجہ افضل ہوتا ہے۔ والدین خود بھی بچوں کو قابو نہیں کرپاتے اور نہ ہی اب اساتذہ کو کرنے دیتے ہیں۔ عقلمندی کا تقاضا تھا کہ اس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کیا جاتا لیکن اس طرح کی نازیبا حرکت سے قوم کے اساتذہ پر ایک سؤالیہ نشان اٹھتا ہے کہ کیا استاد قوم کے ستون ہیں یا پیسوں سے خریدے ہوۓ غلام؟ عزت اور ذلت کا مالک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جسے کوئی اپنے اختیار میں نہیں لے سکتا۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ مجلس درس بڑی باوقار ہوا کرتی تھی.تمام طلبہ ادب سے بیٹھتے.حتی کہ ہم لوگ اپنی کتابوں کا ورق بھی آہستہ الٹتے تاکہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز بلند نہ ہو۔ ۔ ہارون رشید کے دربار میں جب کوئی عالم دین تشریف لاتے تو ہارون رشید اس کے استقبال کے لئے کھڑے ہوجاتے .اس پر انکے درباریوں نے ان سے کہا اے بادشاہ سلامت! اس طرح سلطنت کا رعب جاتا رہتا ہے تو ہارون رشید نے جو جواب دیا یقیناًوہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے.آپ نے کہا اگر علماء دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے جائے.زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک جنازے پر نماز پڑھی.پھر آپکی سواری کے لئے خچر لایا گیا تو عبداللہ بن عباس آگے بڑھ کر رکاب تھام لی.تو اس پر زید بن ثابت نے کہا اے ابن عم رسول اللہ! آپ ہٹ جائیں.اس پر ابن عباس نے جواب دیا کہ علمائے دین اور اکابر کی عزت اسی طرح کرنی چاہئے۔ لیکن یہاں حال یہ ہے کہ جس استاد نے قوم کو ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹر، انجینئر اور دیگر شعبوں کے قائد دئیے، اسی استاد کو اپنی صفائی دینے کے لئے ایک بارویں پاس یا گریجویٹ ملازم کے پاس جانا پڑتا ہے جو کہ قوم کے اذہان کی عکاسی کررہا ہے۔ آج بھی بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں استاد کو VIP protocol دیا جاتا ہے لیکن یہاں جنگل راج چل رہا ہے۔ یاد رکھیں کہ ایک تو وہ منبعہ علم ہونے کے ناطے ہمارے روحانی باپ ہوا کرتے ہیں.ہماری اخلاقی اور روحانی اصلاح وفلاح کے لئے اپنی زندگی صرف کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ وہ عموما طلبہ سے بڑے ہوتے ہیں اور مذہب اسلام اپنے سے بڑوں کے احترام کا حکم بھی دیتا ہے.ارشاد نبوی ہے”من لم یرحم صغیرنا ومن لم یوقر کبیرنا فلیس منا”.اسلامی تعلیم میں بھی استاد کی تکریم کا جا بجا حکم ملتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا”انما بعثت معلما”کہ مجھے ایک معلم بنا کر بھیجا گیا ہے اس بات کی بین اور واضح دلیل ہے کہ استاد کا مقام ومرتبہ نہایت بلند وبالا ہے.واقعہ:سکندر اعظم کا باپ یونان کی ایک چھوٹی سی ریاست مقدونیہ کا حکمران تھا لیکن سکندر اعظم نے بڑا نام پا کر شہرت عام حاصل کیںاس نے تقریبا آدھی دنیا کو فتح کیا حقیقت میں سکندر اعظم کی عظمت اس کے استاد اور وزیر ارسطو کی مرہون منت ہے سکندر اعظم خود کہا کرتا تھا ‘کہ میرا باپ مجھے آسمان سےدنیا پر لایا لیکن میرے استاد نے مجھے دنیا سے آسمان پر پہنچادیا۔
رہبر بھی یہ، ہمدم بھی یہ، غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
سیدنا عبداللہ بن عباس اساتذہ کے سامنے تواضع اور انکساری کا اظہار کرتے تھے، علم حدیث کے لیے ان کے گھروں کی دہلیز پر بیٹھ جاتے اور استاد کے نکلنے کا انتظار کرتے رہتے ،ہوا سے چہرے پر گرد اور مٹی پڑتی رہتی تھی ،جب وہ حضرات اپنے کا م سے باہر نکلتے تو آپ کو منتظر اور طالب علم پاتے اورآپ استاذ کے سامنے یوں گویا ہوتے کہ میں علم کا طالب ہوں، میرادل نہ چاہا کہ آپ میری وجہ سے اپنی ضروریات سے فارغ ہونے سے پہلے آئیں(دارمی)۔یہی ادب تھا جس کی وجہ سیدنا عبداللہ بن عباس کوامام المفسرین ، حبر الامت اور بحر العلم کا لقب عطا ہوا۔ عربی شاعر نے سچ کہا ہے کہ،
مَاوَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاَّ بِالْحُرْمَۃِ
وَمَاسَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلَّا بِتَرْکِ الْحُرْمَۃِ
ایک اثر میں آیا ہے کہ, "مَنْ عَلَّمَ عَبْدًا آيَةً مِنْ كِتَابِ اللهِ ، فَهُوَ مَوْلَاهُ۔۔۔۔۔ یعنی، "جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے”.
ترجمہ: جس نے جو کچھ پایا اَدب واحترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ اَدب واحترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔
یہاں بات یک طرفہ نہیں ہورہی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ استاد کی عظمت سمجھنے میں ہی طلاب العلم کی کامیابی پوشیدہ ہے اور یہ بھی لازمی ہے کہ استاذ درس و تدریس کے اصول و قواعد سے جامع پر ہو۔ لیکن قوم کے فرزندوں کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ استاد کو سکھانے کی کوشش وہ لوگ نہ کریں جو خود اپنے مقصد حیات سے غافل ہیں۔ اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں اساتذہ کی عظمت سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائیں اور قوم کو استاد کی خدمت کرنے کی سعادت نصیب فرماۓ۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔