ڈاکٹر اویس احمد بٹ
فون:9149958892
اردو افسانچہ نگاری میں خالد بشیر تلگامی کے نام سے اپنی پہچان بنانے والے بشیر احمد حجام کا تعلق مرکزی خطہ جموں وکشمیر کے ضلع بارہ مولہ کے ایک گاؤ ں تلگام سے ہے۔اُن کے والد کا نام عبدالصمد حجام اور والدہ کا نام فضی ہے۔اُن کے والد نے 1966 ء میں دسویں کا امتحان کامیاب کیا تھا لیکن قسمت کا کھیل دیکھ لیجیے، اُنھیں پھر بھی دوکان داری کو ہی اپنا ذریعہ معاش بنانا پڑا تھا۔عبد الصمد کی سات اولادیں ہیں جن میں تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔جن کے نام علی الترتیب تسلیمہ، رفیقہ، خالد بشیر، جواہرہ اختر، گلشنہ اختر، نثار احمد اور بشارت احمد ہیں۔خالد بشیر کی پیدائش 15 مارچ 1977ء کو تلگام میں ہوئی۔اُن کی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائراسکنڈری اسکول تلگام میں ہوئی جو اُس وقت مڈل اسکول تھا۔ اُس کے بعد گورنمنٹ ہائراسکنڈری ا سکول نہال پورہ سے 1994ء میں دسویں پاس کیا۔1996ء میں بارہویں جماعت کا امتحان گورنمنٹ ہائراسکنڈری اسکول پٹن سے پاس کیا۔ اُس کے بعد بی۔اے گورنمنٹ ڈگری کالج بارہ مولہ سے2000ء میں مکمل کیا۔پھر مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی سے 2014ء میں بی۔ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔ اُس کے بعد 2018ء میں پبلک ایڈمنسٹریشن میں IGNOUسے ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔ اُن کی شادی2007ء میں سوپور میں مرحوم ماسٹر عبدالخا لق کنہ کی بیٹی سکینہ سے ہوئی۔سکینہ نے ہائر اسکنڈری سطح تک تعلیم حاصل کی ہے۔اُن کے والد ماسٹر عبد الخالق ایک کالم نگار تھے اور جموں و کشمیر کے مختلف اخبارات میں چھپتے رہتے تھے۔خالد بشیر کی تین بیٹیاں ہیں زرنین جان جو پانچویں جماعت کی طالبہ ہے،نورین جان اور حورین جان جو بالترتیب اول اور نرسری جماعت میں پڑھتی ہیں۔خالدبشیر2009ء میں درس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہوئے اور فی الوقت گوئمنٹ پبلک اسکول تلگام میں بہ حیثیت اُستاد اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
خالد صاحب بہ یک وقت اردواور کشمیر ی میں افسانچے لکھتے ہیں۔اس کے علاوہ کشمیری میں شعر بھی کہتے ہیں۔ اُن کے ادبی سفرکا آغاز 2010 ء میں کشمیری غزلوں سے ہوا ہے۔اُس کے بعد 2014ء سے کشمیری افسانے اور افسانچے لکھتے رہے لیکن اردو میں افسانچے لکھنے کا باقاعدہ آغاز 2016ء میں ہوا۔ضمنی طور پر یہاں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ تلگام کا علاقہ ادبی اعتبار سے زرخیزرہا ہے۔اس ضمن میں خالد صاحب محترم رنجور تلگامی اور محترم فیاض تلگامی سے کافی متاثر رہے ہیں جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اُن کا رجحان ادب کی طرف بڑھ گیانیز دونوں نے اُن کی ادبی کاوشوں کو نہ صرف سراہا ہے بلکہ وقتافوقتا رہنمائی بھی کرتے رہے ہیں۔وہ افسانچہ نگاری میں دلچسپی کیوں لینے لگے یا یوں کہیے کہ اُن کی طبیعت فن افسانچہ نگاری کی طرف کیوں مائل ہوئی اور اُنھوں نے اسی صنف کو اپنی پہچان کا ذریعہ کیوں بنایا ہے۔؟اس کا جواب اُنھوں نے یوں دیا ہے:۔
”آج کے دور میں ہر کوئی اتنا مصروف ہو گیا ہے کہ بڑی بڑی کہانیاں پڑھنے کے لیے لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔اس نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے افسانچہ لکھنا شروع کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ کم وقت میں افسانچے پڑھیں گے اور ادب کے ساتھ ان کا رشتہ بھی جڑ جائے گا۔۔۔ اصل میں لوگوں کے تیز قدموں کی آہٹوں کو افسانہ نگاروں نے محسوس کیا۔ افسانچہ اسی کا نتیجہ ہے۔“
یہ بات سچ ہے کہ موجودہ دور کا فرد(جس میں قاری بھی شامل ہے)نہایت ہی مصروف ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ افسانے محض اس لیے نہیں پڑھے جاتے ہیں کہ قاری کے پاس وقت کی تنگی ہے۔اگر ایسا ہوتا تواس تیز رفتار زندگی میں افسانہ نگاری سے پہلے ناول نگاری دم توڑنا چاہیے تھی لیکن حقیقت حال اس کے برخلاف ہے۔اب اگر اس کے لیے قاری کو مورد الزام ٹھہرایاجائے کہ اُس کے پاس بڑی بڑی کہانیاں پڑھنے کا وقت نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ افسانہ نگار افسانچے لکھنے پر مجبور ہوئے۔اس تناظر سے دیکھا جائے تو کیا یہ الزام افسانہ نگار پر بھی عائد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اُ س نے بھی آٹھ یا دس صفحات پر مشتمل افسانہ لکھنے کی بجائے چار یا پانچ سطروں پر مشتمل افسانچہ لکھنے میں ہی اپنی عاقبت سمجھ لی؟لیکن افسانچہ نگاری کے حوالے سے یہ مفروضہ قابل قبول نہیں ہو سکتا ہے۔ افسانچہ قاری کے پاس وقت کی تنگی کے باعث رجحان پایا نہ افسانہ نگار نے اسے محض اس لیے قبول کیا کہ اُ س کے پاس طویل افسانے لکھنے کا وقت نہیں ہے بلکہ افسانچہ فن افسانہ نگاری کا ایک کامیاب تجربہ ہے جسے ضبط تحریر میں لانے کے لیے افسانے کی شعریات پر اچھی خاصی دسترس ہونا ضروری ہے۔
جہاں تک ادب میں ”ادب برائے زندگی“ اور”ادب برائے فن“ کا تعلق ہے تو خالد بشیر ادب برائے زندگی کے قائل معلوم ہوتے ہیں۔اس تناظر سے دیکھا جائے تو وہ ادب میں ترقی پسندنقطہ نظر کے حامی نظر آتے ہیں۔وہ اد ب کا رشتہ سماج اور سماج میں موجود افراد کی زندگیوں کے نشیب و فراز سے جوڑتے ہیں اور ادب کو فرد کی حقیقی زندگی کا ترجمان تصور کرتے ہیں۔
خالد بشیر پیشے کے لحاظ سے مدرس ہیں۔ اس ضمن میں اُن کی وابستگی جموں وکشمیر ٹیچرس فورم سے ہے اور پچھلے سات سال سے بہ حیثیت زونل صدر نہال پورہ اپنی خدمات انجام دیتے آرہے ہیں۔اُنھوں نے جموں و کشمیر کی کئی افسانوی محفلوں اور کانفرنسوں میں شرکت کی ہے۔وہ بہ یک وقت کئی ادبی انجمنوں سے وابستہ ہیں جن میں بہار ِادب تلگام،کشمیری ینگ رائٹرس ایسوسی ایشن، رائٹرس گلڈ،بزم شعروادب سنگرامہ، بزم ادب رفیع آباد، کروہن کلچرل فورم کریری وغیرہ قابل ذکرہیں۔اُن کے پسندیدہ افسانچہ نگار وں میں جو گند پال، رتن سنگھ، عظیم راہی، رونق جمال چھتیس گڑھی، ایم۔ اے حق،ڈاکٹر نذیر مشتاق وغیرہ شامل ہیں۔اُن کے افسانچے مرکزی خطہ جموں وکشمیر کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے کئی اردورسائل اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں کشمیر عظمیٰ،تعمیل ارشاد،لازوال جموں،سنگرمال،خلق ادب،رسالہ نگینہ انٹر نیشنل،عالمی انوارِ تحقیق رانچی،ماہنامہ رسالہ تریاق ممبئی اوردنیائے افسانچے خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
خالد بشیر کے افسانچوں کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ اُنھوں نے ایسے موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے جو بہ ظاہر سطحی معلوم ہوتے ہیں لیکن جب وہ اُنھیں افسانچے کے قالب میں ڈھال کر نصیحت اور عبرت کے کئی پہلو نکال لیتے ہیں تو اُن موضوعات کی اہمیت کا اندازہ خوب ہو جاتا ہے۔”مصروف“،”بٹوارہ“،”شاٹ کٹ“،”واٹس ایپ کا قہر“،”بھول“، ”گناہ کا کھیل“،”ڈر“ اور”دیوار“ وغیرہ ایسے افسانچے ہیں جوایسے مسائل کا احاطہ کرتے ہیں جن کو ہم روزمرہ زندگی میں بڑی آسانی سے نظر انداز کر جاتے ہیں لیکن اُن معمولی مسائل کے شکم میں ہمارے لیے کس قدر تباہی و بربادی نشوونما پاتی ہے؛اُس کا شاید ہی ہم اندازہ لگا سکتے ہیں۔تمہید کو مزید طول نہ دیتے ہوئے ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور خالد صاحب کے منتخب افسانچوں کا موضوعاتی مطالعہ کرکے اُن کی افسانچہ نگاری کی جہات سے روشناس ہوتے ہیں۔
ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ رضائے الٰہی کے لیے گھر یا باہر بازار میں کوئی نہ کوئی بھکاری اپنے ہاتھ پھیلائے کھڑا رہتا ہے۔ لوگ اُن کی مدد کریں یا نہ کریں لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا رویہ بھکاریوں کے تئیں بالکل بھی اچھا نہیں ہوتا ہے۔کسی بھکاری کو دیکھتے ہی وہ ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور اُسے زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھانے لگتے ہیں کہ کوئی کام کرکے محنت اور عزت سے اپنے لیے دو وقت کی روٹی کیوں نہیں کما لیتے ہو، تم ابھی جوان ہو، تمہیں بھیک مانگنے کی کیا ضرورت آن پڑی وغیرہ وغیرہ۔ افسانچہ ”مصروف“ میں افسانچہ نگار نے انسان کی تخلیقیت کے پیچھے کار فرما بنیادی مقصد کو ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے۔مذکورہ افسانچے میں ایک سیٹھ اپنے کتے کوروٹی کھلا رہے ہوتے ہیں لیکن دو دن سے بھوکے ایک بھکاری کی مدد کرنایا اُسے کھانے کے لیے کوئی چیز دینا تو دور کی بات ہے لیکن اُس کی طرف وہ اپنی نظریں اُٹھانا بھی گنوارا نہیں کرتے ہیں بلکہ ”کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا ہے کہ میں مصروف ہوں۔“ کہتے ہوئے اُس کے دل کو ٹھید ضرور پہنچاتے ہیں۔ سیٹھ کی مصروفیت کیا ہوتی ہے؟وہ اپنے کتے کو روٹی کھلارہے ہوتے ہیں۔ یہاں پر اصل میں نوع بشر کے ہمدرداورغم خوارہونے پر سوالیہ نشان لگایا گیا ہے جس کے لیے اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا ہے۔یہ افسانچہ خواجہ میر دردؔ کے مشہور زمانہ شعر”درد دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو“ کی غمازی کرتا ہے۔حقوق العباد کا دامن ایک مسلمان سے کبھی نہیں چھوٹنا چاہیے کیوں کہ ایسا ہونے پر اُس کی تخلیقیت پر سوالیہ نشان ضرور لگ جاتا ہے۔
افسانچہ”بٹوارہ“کے ذریعے ایک اہم مسئلے کی طرف انگشت نمائی کی گئی ہے۔کشمیرمیں بالخصوص ایک مسئلہ جو فی زمانہ روایتی مسئلہ کی صورت اختیار کر چکا ہے کہ ایک باپ جیتے جی اپنی جائیداد اولادوں میں تقسیم نہیں کرتا ہے بلکہ اس ضد پر قائم رہتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی ہی جائیداد کا بٹوارہ دیکھنا گوارا نہیں کر سکتا۔مذکورہ افسانچے میں جب ایک اولاد اپنے بوڑے باپ سے جائیداد کی تقسیم کے لیے پوچھتا ہے تو اُس کا باپ کچھ یوں جوا ب دیتا ہے۔:
”نہیں بیٹا! میری حیات میں تو یہ ممکن نہیں۔“
لیکن جب وہی باپ بڑھاپے کو پہنچتا ہے وہ اس ناممکن کام کو ممکن نہیں بنا سکتا کیوں کہ طبیعت ہی اس لائق نہیں ہوتی ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ ابدی نیند سو جاتا ہے تو تب کی اولادیں اپنے حصے کی جائیداد حاصل کرنے کے لیے جاگ جاتی ہیں اور اس دوران کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جس پر افسوس کے سوا اور کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے۔بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ اولادوں کی بھی اولادیں ہوتی ہیں لیکن جائیداد کی تقسیم ابھی تک عمل میں نہیں آئی ہوتی ہے اور اگر کوئی اولاد انتقال کر جاتی ہے تو اُس کی اولادوں کو اپنے چچوں سے جائیداد حاصل کرنے میں بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہم کئی ایسے واقعات کے چشم دید گواہ بھی ہیں جہاں جائیداد کی تقسیم کے وقت قتل بھی ہوئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے باپ دادا پہلے سے ہی اس بات کاخیال نہیں کرتے ہیں کہ اگر اُن کی زندگی میں ہی زمین و جائیداد بچوں میں تقسیم ہوجائے تو وہ آنے والے کسی بڑے حادثے کو ٹال سکتے ہیں۔ افسانچہ نگار نے اس مسئلے کو موضوع بنا کر اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہمارے بزرگ جس مسئلے کو ٹالتے رہتے ہیں وہ ہماری زندگی میں کبھی ایسا طوفان لاسکتا ہے جسے کئی پیڑھیاں محسوس کر سکتی ہیں۔
اسی طرح افسانچہ”شاٹ کٹ“ میں جیسا کہ عنوان سے ہی ظاہر ہے،ایسے مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے جس نے آج کل کے معاشرے بالخصوص نوجوان طبقے کو جکڑ رکھا ہے۔ دور حاضر میں ہر کام کے لیے شارٹ کٹ اختیار کرنا وبا کی طرح پھیل چکا ہے۔ بچوں سے لے کر نوکر پیشہ لوگ اور کاروبارسے منسلک اشخاص غرض ہر کوئی اپنے کام کو انجام دینے کے لیے شارٹ کٹ ڈھونڈتے رہتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر اُن کے ہاتھ سے ایمان داری اور خلوص کا دامن چھوٹ جاتا ہے۔شاید ہی اس بات سے کسی کو انکار ہو سکتا ہے کہ بعض شارٹ کٹ بھلے ہی کامیابی کی نوید لے کر آتے ہیں لیکن اپنے ساتھ منفی عناصر بھی لے آتے ہیں۔ شارٹ کٹ کے چکر میں رشوت خوری،بے ایمانی،جھوٹ، فریب و مکاری اور دھوکہ دہی جیسی برائیاں خوب نشوونما پاتی ہیں جو انسان کے لیے ایسے مسائل پیدا کرتی ہیں جن سے لاکھ کوشش کے باوجود بھی خلاصی پانا ناممکن بن جاتا ہے۔مذکورہ افسانچے میں ایک نوجوان جعلی پیر بابا کے پاس اس غرض سے جاتا ہے کہ اُسے اُن سوالات کا پہلے ہی سے علم ہو جائے جو اُسے کون بنے گا کروڑ پتی پروگرام میں پوچھے جائیں گے۔اس کام کے لیے وہ جعلی پیر نوجوان سے موٹی رقم وصولتے ہوئے کہتا ہے:”بیٹا یہ پانی لے جا۔ گھر میں اسے جلدی پی کر سو جانا۔ تمہیں ہاٹ سیٹ پر بیٹھنے تک سارے سوالات کے جواب مل جائیں گے۔ ان شا اللہ۔“
افسانچہ نگاراصل میں اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ کسی بھی کام کے لیے شارٹ کٹ بعض اوقات اگر انسان کو منزل تک پہنچا بھی دے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کامیاب ہونے کے لیے محض شارٹ کٹ ہی واحد ذریعہ ہے۔کیوں کہ نوجوان کے چلے جانے کے بعد پیر بابا کے دوست اُن سے مخاطب ہوکر پوچھتے ہیں:
”کیا واقعی ایسا ہوگا“۔؟
”ارے بیوقوف تم نے میرے ان شا اللہ پر غور نہیں کیا۔“؟۔۔۔۔بچہ کامیابی کے لیے شاٹ کٹ راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔“
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خود پیر بابا بھی جانتا ہے کہ نوجوان جو شارٹ کٹ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اُسے منزل تک تو اُس کے آس پاس بھی بھٹکنے نہیں دے سکتا ہے۔اسی لیے انسان کو ہمیشہ محنت،لگن اور خود اعتمادی کے ساتھ کام کرنا چاہیے اور جو بھی کام ہاتھ میں لے وہ اپنے بل بوتے پر پائے تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرے۔
افسانچہ”واٹس ایپ کا قہر“ کے ذریعے افسانچہ نگار نے ایک ایسا نکتہ سمجھانے کی کوشش کی ہے جو ہر ذی حس بالخصوص پڑھے لکھے افرد کے ذہن میں ہونا چاہیے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ گھر کے بڑے افراد جب اپنے موبائیل فون پر کوئی ایسی ویڈیو دیکھتے ہیں جو بچوں کو اس لیے دکھانے کے قابل نہیں ہوتی ہے کہ کہیں اُنھیں دلی صدمہ نہ پہنچے۔حالاں کہ ایسی ویڈیوز بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جن کے آغاز میں ہی انتباہ کیا جاتا ہے کہ بچے اور کمزور دل والے اس ویڈیو کو نہ دیکھیں لیکن پھر بھی اس بات کا خیال نہ رکھتے ہوئے جان بوجھ کر بچوں کو ایسی ویڈیوز یا تصویریں دکھا ئی جاتی ہیں جن سے وہ ڈر جاتے ہیں اور اُن پر خوف طاری ہوجاتی ہے۔اس طرح کی حرکتوں کا خامیازہ اُس وقت بھگتنا پڑتا ہے جب کوئی بچہ اُن ویڈیوز کی وجہ سے دل کی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے اوروہ اُس صدمے سے زندگی بھر نہیں نکل پاتا ہے جو اُسے ویڈیو دیکھتے وقت پہنچتا ہے۔مذکورہ افسانے میں بھی شازیہ نام کی بچی اُس وقت بے ہوش ہو جاتی ہے جب اُس کے والد اٹلی میں کرونا وائرس کی وجہ سے مریضوں کی چیخ و پکار پر مبنی ویڈیو دکھارہے ہوتے ہیں اور شازیہ یہ سب برداشت نہیں کر پاتی ہے اور وہ وہیں بے ہوش ہوجاتی ہے۔جب شازیہ بے ہوش ہوجاتی ہے اور راوی اُس کے والد خلیل صاحب سے اُس کی بے ہوشی کی وجہ پوچھتے ہیں؛تو وہ کہتے ہیں:
”بھائی میں وٹس ایپ پر اٹلی کی اموات کی ویڈیو دیکھ رہا تھا۔مریضوں کی چیخ و پکار اور تڑپ تڑپ کے دم توڑتے ہوئے مریضوں کی حالت دیکھ کر شازیہ کا نپنے لگی۔میری نظر اُس پر پڑی تو دہاڑیں مار کر رونے لگی اور بس۔۔۔ بے ہوش
ہوگئی۔۔۔مجھے تو اس کے دل کی دھڑکن بھی محسوس نہیں ہورہی ہے۔“خالد بشیر نے فن کارانہ مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے ایک ایسے موضوع کو پیش کیا ہے جو ضبط تحریر میں لانے کے لیے بہ ظاہر تخلیق کار کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے لیکن اُنھوں نے اس موضوع کو افسانچے کی صورت میں پیش کرکے اہم مسئلے کی طرف اپنے قاری کی توجہ مبذول کرائی ہے۔
رواں سال کرونا نے پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بیماری کے ساتھ ساتھ کئی ایسے مسائل کھڑا کر دئیے ہیں جن کا سامنا آج تک انسان کو نہیں ہوا تھا۔ایک طرف کرونا وائرس روز ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا تو دوسری طرف لاک ڈاؤن نے انسان کو اپنے ہی گھر میں قیدی بنا ڈالا تھا۔اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے افسانچہ نگار نے اس مہاماری کے منفی پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے کئی ایسے مثبت پہلو ؤ ں کو تلاش کیاہے جن کی طرف شاید ہی کسی کا ذہن چلا گیا ہو۔افسانچہ ”آئی لو کرونا“ میں دکھایا گیا ہے کہ جہاں کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں لوگوں کے لیے طرح طرح کی مشکلات پیدا ہوئیں وہیں ایک مثبت پہلویہ بھی تھا کہ اُن لوگوں کو اپنے اہل خانہ بالخصوص ماں باپ یا اپنے بچوں کے ساتھ رہنے سے اُس شفقت اور محبت کا پھر سے احساس ہونے لگا جسے وہ زندگی کی دوڑ دھوپ میں کھو چکے تھے۔ لاک ڈاؤن کے دوران ہی ایک وبا یہ پھیلی تھی کہ جب بھی کسی غریب کے دروازے پرکھانے پینے کی چیزیں پیش کی جاتی تھیں تو کھانے پینے کی اشیا سمیت اُس غریب کی ایک عدد تصویر(سیلفی) لازماً لی جاتی تھی جو دوسرے دن سوشل میڈیا پر وائرل ہوجاتی تھی۔افسانچہ نگار نے افسانچہ ”طریقہ“ میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران غریبوں کی مدد کرنے کا جو طریقہ کئی لوگوں نے اختیار کیا تھا وہ کسی بھی طرح اُن کے مخلصانہ اور ہمدردانہ رویے کوظاہر نہیں کرتا تھا۔مذکورہ افسانچے میں جب راوی ماجد سے اُس کی غریبوں میں راشن تقسیم کرنے کی ویڈیوز سے آگاہ کرتا ہے تو وہ نہایت خوش ہوجاتا ہے۔ماجد جیسے لوگوں نے غریبوں اور محتاجوں کی امداد کا یہ مخصوص طریقہ شاید اس لیے اختیار کیاتھا تاکہ لوگوں سے اُنھیں سخی، ہمدرد اور غریبوں کے مسیحا ہونے کی سند حاصل ہو سکے لیکن اس طرح غریبوں کا مزاق اُڑاتے وقت اُن کے دلوں کو جو ٹھیس پہنچتی تھی؛اُنھیں اُس کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی غریبوں نے پھر بھوکا رہنا برداشت کیا لیکن اس طرح سر عام اپنے آپ کو مزاق بننا قطعی برداشت نہیں کیا تھا۔
آج کے معاشرے میں اضافی ادواجی تعلقات یعنی Extramarital Affairsنے جڑ پکڑ لی ہے۔ یہ رشتوں کی ایک ایسی وبا ہے جس نے کئی ازدواجی رشتے اپنی لپیٹ میں لے لیے ہیں۔ان تعلقات سے نہ صرف خوشگوار ازدواجی رشتے متاثر ہوجاتے ہیں بلکہ بچوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگ جاتا ہے۔ جب ہم آس پاس اپنی نظر دوڑاتے ہیں تو ضرور اس مصیبت سے دوچارکئی شادہ شدہ جوڑے بھی نظر جاتے ہیں۔ چوں کہ ایک تخلیق کار اپنے معاشرے کا نباض ہوتا ہے اور وہ اپنے اطراف و اکناف سے اس قدر حساس ہوتا ہے کہ وہ چھوٹی سی چھوٹی تبدیلی بھی بھانپ لیتا ہے۔ خالد بشیر اپنی حساسیت کا ثبوت دیتے ہوئے قاری کو ذہن نشین کراتے ہیں کہ عارضی رشتوں کی آڑ میں تاحیات رشتوں کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا ہے۔افسانچہ ”جھٹکا“میں اضافی ازدواجی تعلقات کو ہی موضوع بنایا گیا ہے۔ کافی عرصے تک فون سروسز معطل ہونے کے بعد جب شازیہ اپنے شوہر کو اپنی سہیلی کے نمبر سے ٹیلی فون کرتی ہے تو شازیہ کا شوہر اُسے پہچان نہیں پاتا ہے اور شازیہ اُسے پہچاننے کے لیے کہتی ہے۔ لہذا اُس کا شوہر پہلے تین لڑکیوں نیلوفر، ادفر اور سمیرہ کا نام لے لیتاہے۔جب شازیہ عابد سے یہ کہتی ہے کہ اگر اُسے سچی محبت ہے تو وہ اُسے پہچاننے کی کوشش کریں۔ اُس کے بعد عابد کیا کہتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ کریں:
”آپ نیلوفر ہیں۔؟“
”نہیں۔“
”ادفر۔؟“
ُُ”نہیں۔“
”پھر بلاشبہ آپ سمیرہ ہیں۔“
اس کے بعد شازیہ کے ذریعے افسانچہ نگار نے جو مکالمہ گھڑا ہے جو افسانچے کا آخری جملہ بھی ہے کہ”کچھ شرم کریں اب آپ بھی ایک لڑکی کے باپ ہیں۔“مذکورہ افسانچے کا مغز کہا جا سکتا ہے۔ یہ ایک جملہ کئی باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایک طرف یہ ازدواجی رشتے کو خراب کرنے اور اُسے زمین بوس کرنے کا احساس دلاتا ہے تو دوسری طرف گھر کے ذمہ دار فرد کی ایسی حرکت پر واویلا ہے جو اپنی عزت کے ساتھ ساتھ پورے خاندان کی عزت کو نیلام کرتا ہے۔ اس جملے میں وہ کھلواڑ،دھوکہ اور فریب بھی مضمر ہے جو ایک باپ دوسری لڑکیوں کے ساتھ کرتا ہوا دکھایا گیا ہے۔وہ بہ ذات خود ایک لڑکی کا باپ ہوتا ہے؛ جس کی بد حرکت سے کل اُس کی لڑکی کو بھی شرمسار ہونا پڑسکتا ہے۔ایک اہم بات اس میں یہ بھی پوشیدہ ہے کہ جب ایک باپ ہی اس طرح کی حرکتوں میں ملوث ہوتا ہے تو اُس سے اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی اُمید بھی بے سُود ہے۔
افسانچہ”بھول“ میں سلمان کی بیوی سے ایک شادی کی تقریب میں یہ بھول ہوجاتی ہے کہ وہ شوہر کے منع کرنے کے باوجود بھی ناچتی ہے لیکن وہاں موجود افراد میں سے کوئی اُس کی ویڈیو بنا لیتا ہے اور اُسے سوشل میڈیا پر شیئر کر دیتا ہے۔ جب سلمان تک وہ ویڈیو پہنچ جاتی ہے تو اُسے غصے کے ساتھ ساتھ سخت شرمندگی محسوس ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنی بیوی کو بہت مارتا ہے۔ سلمان جب اپنی بیوی کی ویڈیو دیکھتا ہے تو اُسے بہت غصہ آجاتا ہے:
”۔۔۔اس (بیوی) نے میری عزت نیلام کردی اور میرے منع کرنے کے باوجود بھی اس کتیا نے میری بات نہیں مانی۔“
افسانچہ نگار کا مقصد اس بات کا اعادہ کرنا ہے کہ کچھ لوگ بعض اوقات موقع ومحل کا خیال نہ رکھتے ہوئے شادی بیاہ یا دیگر اس نوع کی تقریبات میں کسی کا بھی ویڈیو اُس سے اجازت طلب کیے بغیر بنالیتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ویڈیو غلطی سے سوشل میڈیا پر شیئر ہوجاتی ہے جو بعد میں کسی کی بد نامی کا باعث بن جاتا ہے۔ مذکورہ افسا نچہ میں اس بات کی طرف واضح اشارہ کیا گیا ہے کہ بعض اوقات ہم تک ایسی ویڈیو پہنچتی ہے جو یا تو کسی نے غلطی سے سوشل میڈیا پر ڈال دی ہوتی ہے یا پھر کسی سے بدلہ لینے کی غرض سے شیئر کی گئی ہوتی ہے یا پھر اُس کے پیچھے کسی کو بدنام کرنے کا مقصد ہوتا ہے۔ کچھ لوگ بغیر سوچے سمجھے اُس ویڈیو کو اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں اور اس طرح وہ بھی کسی کی زندگی خراب کرنے میں برابر شریک ہوجاتے ہیں؛بس فرق یہ ہے کہ اُنھیں اس بات کا علم نہیں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج اُتنا ڈر انسان کی آنکھ کا نہیں ہے جتنا کیمرے کی آنکھ سے انسان خوف کھاتا ہے۔
خالد بشیر چوں کہ خود درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔لہذا وہ استاد اور شاگرد کے رشتے کو زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔افسانچہ”پیپر“میں امتحان کے دوران استاد کی جانبداری کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہاں پر سب سے پہلے افسانچے کے عنوان کی مناسبت سے بات ہوگی تو بہتر ہوگا۔ افسانچے کا عنوان”پیپر“مناسب نہیں لگ رہا ہے کیوں کہ موضوع اور عنوان میں ایک معنوی رشتہ جو ہوتا ہے؛یہاں پر اُس کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس افسانچے کا عنوان”امتحان“،”جانبدار ی“،”ڈھیل“وغیرہ یا پھر اس مناسبت سے کوئی بھی عنوان ہو سکتا ہے جس کا موضوع کے ساتھ کوئی معنوی رشتہ بھی قائم ہوتا۔خیر امتحان کے دوران شازیہ اپنے استاد سے تھوڑی بہت نرمی یعنی Relaxation کے لیے پوچھتی ہے حب کہ اُسے اس کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے لیکن استاد سخت ہونے کی دھونس جماتے ہوئے انکار کر دیتے ہیں لیکن شازیہ جب اپنے اُستاد سے یہ پوچھتی ہے کہ اگر وہ سخت ہیں تو اُنھوں نے عابدہ کو پھر ڈھیل کیوں دے رکھی ہے تو اُستادخاموش ہوجاتے ہیں۔اقتباس ملاحظہ کریں:
”سر پلیز تھوڑی سی ڈھیل۔۔۔“
ہرگز نہیں، شاید آپ کو معلوم نہیں کہ میں اس معاملے میں کتنا سخت ہوں۔“
”سر اسی لیے تو پوچھا!“
”مطلب“
مطلب یہ ہے کہ سر عابدہ آپ کی کیا لگتی ہے جسے آپ نے ڈھیل دے رکھی ہے۔
افسانچہ نگار کا مقصد ایک اہم نکتے کی طرف ہماری توجہ مبذول کرانا ہے کہ معاشرے میں اُستاد کے پیشے کو نہایت عزت کی نگاہوں سے دیکھا اور قبولا جاتا ہے لیکن اب اس پیشے میں بھی ایسے ایسے مسائل جنم لینے لگے ہیں کہ سنتے ہی عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔افسانچہ نگار یہ بات باور کرانا چاہتے ہیں کہ اُستاد اور شاگرد کا رشتہ حد درجہ احترام کا متقاضی ہوتا ہے لیکن اب شاگردکی نگاہ میں اُستاد کے تئیں وہ عزت ہے نہ اُستاد کا اپنے شاگردوں کے تئیں رویہ اچھاہے۔ یہاں تک کہ یہ رشتہ اب زیادہ قابل اعتبار بھی نہیں رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بہ حیثیت مدرس اس طرح کے موضوع پر لکھنا بہت مشکل ہے۔ ایک افسانچے کی صورت میں اس طرح کی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے واقعی ہمت چاہیے جب تخلیق کار خود اسی پیشے سے منسلک ہولیکن خالد بشیر کی ہمت قابل ستائش ہے کہ اُنھوں نے اس موضوع کو افسانچے کی صورت میں پیش کرکے نڈر ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔
ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں اُس کی ساخت میں کچھ ایسے منفی عناصر بھی در آئے ہیں جو ایک ساتھ کئی برائیوں کو جنم دے رہے ہیں اور نتیجے کے طور پر پورے معاشرے کی ساخت اُن برائیوں کے اثر سے مسخ ہو تی جارہی ہے۔اُن منفی عناصر کے نتیجے میں ایک ایسے مسئلے نے سر اُٹھایا ہے جس نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے شکنجے میں لے لیا ہے۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ ایک لڑکا محض اپنی جھوٹی محبت اور فریب کے سہارے جب ایک لڑکی کے جسم کا استعمال کرکے اپنی خواہشات سے دست بردار ہوکر یہ جان لیتا ہے کہ اُس کی جھوٹی محبت کسی کی کوکھ میں سچا روپ دھارن کر رہی ہے تو اُس کا اسقاط کرکے وہ اُس سچائی کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیتا ہے۔ لیکن کسی کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے قبل ایسے لوگوں کو یہ بات ذہن میں نہیں رہتی ہے کہ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اُنھیں کسی ایسی مصیبت کا سامنا ہوسکتا ہے جس میں اُنھیں اپنی ہی کسی غلطی کی بازگشت سنائی دے گی۔خالد بشیر نے افسانچہ”گناہ کا کھیل“ کے ذریعے مکافات ِعمل کے موضوع پر بہترین افسانچہ تحریر کیا ہے جس میں اسلم نامی نوجوان ایک لڑکی کو اپنی جھوٹی محبت کا نشانہ بنا لیتا ہے اور پھر ایک کلینک سے اُس لڑکی کا اسقاط حمل کرواتاہے لیکن چند دنوں کے بعد ہی وہ اُسی کلینک پر دوبارہ چلا جاتا ہے اور ڈاکٹر سے دوبارہ اسقاط حمل کی دوائیاں دینے کے لیے کہتا ہے تو ڈاکٹر اُسے زیادہ دوائیاں دینے پر انتباہ کرتا ہے تو اسلم نہایت ہی شرمندگی کے ساتھ کہتا ہے کہ اس بار وہ دوائیاں کسی اور لڑکی کے لیے نہیں بلکہ اپنی بہن کے لیے لے جارہا ہے۔وہ ڈاکٹر کے پاس پہنچ کر کہتا ہے:
”سر پلیز پلیز! میری عزت نیلام ہونے سے بچایئے، مجھے وہی دوائیاں اور چاہیے۔“
”ارے! وہی دوا دوبارہ کھلانے سے وہ مر جائے گی!“
اسلم نظریں جھکاتے ہوئے بولا۔
”سر اس بار دوا میری کنواری بہن کے لیے چاہیے۔“
خیر مذکورہ افسانچے میں اس اعتبار سے بحث کی گنجائش موجود ہے کہ جھوٹی محبت کا سارا الزام یک طرفہ نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔افسانچہ نگارنے اسلم کی معشوقہ اور اُس کی بہن کا اسقاط حمل دکھاتے ہوئے یہ بات ذہن نشین کرائی ہے کہ دُنیا مکافات ِعمل ہے۔
افسانچہ”دیوار“ میں اسلام کے مختلف مکتبہ ہائے فکر کی آپسی رنجشوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ لوگوں کو مسلکی مسائل میں اس قدر اُلجھا دیا جاتاہے کہ اب اُن کو اسی بنیاد پر بانٹا بھی جارہا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ علمائے دین اسلام کو ایک عام انسان تک اُس نہج سے پہنچانے میں قاصر نظر آتے ہیں جس طریقے سے اُنھیں پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے۔ہاں البتہ دین کی استقامت اور اس کی طرف دعوت کے نام پر مختلف مکتبہ ہائے فکر کے علما مناظروں میں ایک دوسرے کی عزتیں اچھال لیتے ہیں، دوسرے علما کو جھوٹا ثابت کرنے میں جی جان لگا دیتے ہیں اور تو اور عوام کو بریلوی،اہل حدیث، جماعت اسلامی، دیوبند وغیرہ وغیرہ میں تقسیم کرکے انتباہ کرتے ہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلک کے عالم کی کہی ہوئی باتوں پر یقین نہ کریں۔ اب انتہا یہ ہے کہ ایک فرقے کا عالم دوسرے فرقے کے عالم کو ممبر شریف پر خارج اسلام ہونے کا اعلان بہ بانگ دہل کرتے ہیں۔ اب ایک عام فرد جو نہایت ہی عقیدت اور خلوص کے ساتھ اللہ تعالی سے اپنا تعلق جوڑنا چاہتاہے؛اُسے بھی ان جھگڑوں میں گھسیٹا جارہا ہے۔اسی مسئلے کو موضوع بناتے ہوئے افسانچہ نگار نے مذکورہ افسانچہ تحریر کیا ہے کہ اب ان جھگڑوں سے لوگ اس قدر تنگ آچکے ہیں کہ وہ ان جھگڑوں سے کوسوں دور بھاگ کراپنی عبادات اور اللہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق جوڑنے میں کسی بھی طرح کا کوئی خلل برداشت نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اکثر مناظروں کی صورت حال کچھ یوں ہوتی ہے جس سے مسائل حل ہونا تو دورکی بات ہے لیکن مسلمانوں کی چبھی ضرور مسخ ہوکررہ جاتی ہے۔اس افسانچے کا مقصد یہ بات باور کرانا ہے کہ ہمارااصل مقصد اللہ تعالی کی عبادت ہے جس میں کسی طرح کی کوئی مسلکی رکاوٹ نہ ہو۔
بہر کیف خالد بشیر کے افسانچوں کے موضوعاتی مطالعے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے اطراف و اکناف اور زندگی کے نشیب و فراز سے باخبر معلوم ہوتے ہیں کیوں کہ اُنھوں نے جن موضوعات کو ہاتھ لیا ہے اُس کے لیے ایک تخلیق کار کو اپنے معاشرے اور معاشرے میں ہورہی ہر تبدیلی سے باخبر ہونا شرط ِ اول ہے۔ اُنھوں نے اپنے افسانچوں میں وہ علامتی رنگ نہیں بھرا ہے کہ ایسا طلسم کدہ بن جائے جہاں سے معنی کا تفاعل مشکل ہوجائے۔اُن کا طرز نگارش اس قدر سادہ اور سلیس ہے کہ قاری کو شاید ہی کسی دقت کا سامنا ہو۔ اُنھوں نے کئی جگہوں پرایسے انگریزی الفاظ کا استعمال کیاہے جن کی جگہ اگر اردو الفاظ استعمال کیے جاتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔اسی طرح ایک جگہ”موبائل کال سروس“کی ترکیب استعمال کی گئی ہے جب کہ درست ترکیب ”موبائل فون سروس یا موبائل فون خدمات“ہے۔اسی طرح ایک جگہ لکھا گیا ہے کہ”اُس نے اپنی جیب سے موبائل نکالا“۔لفظ موبائل (Mobile)کے معنی آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے ہیں اور اس طرح ”موبائل فون“ (جسے اردو میں گشتی فون کہا جاتا ہے)کا مطلب وہ فون ہے جسے بڑی آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا ہے۔اس مناسبت سے ”اُس نے اپنی جیب سے موبائل فون نکالا“ درست ہے۔خیر خالد بشیر اپنی خلاقانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر فن افسانچہ نگاری میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔