جموں، 24 نومبر جموں و کشمیر حکومت نے ہائی کورٹ کی جانب سے ‘روشنی ایکٹ’ کو کالعدم قرار دیے جانے کے زائد از ایک ماہ بعد اس اسکیم کے تحت مستفید ہونے والوں کی پہلی فہرست اپنی ویب سائٹ پر شائع کر دی ہے۔
پہلے مرحلے کی فہرست میں 41 نام ظاہر کئے گئے ہیں جن میں 35 کا تعلق کشمیر سے جبکہ 6 کا تعلق جموں سے ہے۔
ظاہر شدہ ناموں میں چند ممتاز سیاسی لیڈروں، بیوروکریٹس اور تاجروں کے علاوہ ہوٹلوں، شاپنگ مالوں، کمرشل عمارتوں اور نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے ٹرسٹوں کے نام بھی شامل ہیں۔
فہرست میں فائدہ اٹھانے والے جن سیاسی لیڈروں کے نام شامل ہیں ان میں سابق وزیر خزانہ حسیب درابو اور ان کے اہلخانہ، نیشنل کانفرنس کے سجاد کچلو، ہارون چوہدری، اسلم گونی اور سعید آخون اور کانگریس کے عبدالمجید وانی شامل ہیں۔
فہرست میں سبکدوش آئی اے ایس افسر شفیع پنڈت کی اہلیہ نگہت پنڈت کا نام بھی موجود ہے۔
دریں اثنا جموں و کشمیر حکومت نے، بجز روشنی ایکٹ، ایک اور فہرست جاری کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور ان کے فرزند عمر عبداللہ نے جموں کے سنجواں نامی علاقے میں 7 کنال اور 7 مرحلہ سرکاری زمین اراضی پر ناجائز قبضہ کر لیا ہے۔ تاہم نیشنل کانفرنس نے اس سرکاری دعوے کو خارج کیا ہے۔
روشنی ایکٹ کی پہلی فہرست میں شاپنگ مالوں میں سٹی واک مال اور ہبسن بلڈنگ جبکہ ہوٹلوں میں سری نگر میں واقع ہوٹل براڈ وے، ہوٹل ریڈیسن، ہوٹل روبی اور ہوٹل ریزیڈنسی شامل ہیں۔
ان ہوٹلوں کے مالک جموں و کشمیر کے ممتاز تجار مشتاق احمد چایا اور کے کے آملا ہیں۔ آملا کانگریس پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ فہرست میں ان دونوں کو اپنے اہلخانہ کے ساتھ ظاہر کیا گیا ہے۔
فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں نیشنل کانفرنس کا نوائے صبح ٹرسٹ اور کانگریس کا خدمت ٹرسٹ بھی شامل ہے۔
فہرست کے مطابق ایکٹ کے تحت نوائے صبح ٹرسٹ کو 7 کنال 15 مرلے اور 84 مربع فٹ اراضی جبکہ خدمت ٹرسٹ کو 3 کنال اور 16 مرلہ اراضی دی گئی ہے۔
فہرست کی رو سے حسیب درابو سری نگر کے گوگجی باغ علاقے میں چار کنال اراضی جبکہ سابق بیوروکریٹ محمد شفیع پنڈت اور ان کی اہلیہ اسی علاقے میں دو کنال اراضی کے مالک ہیں۔
ایک اور سابق بیوروکریٹ تنویر جہاں کو سری نگر کے راج باغ علاقے میں اس ایکٹ کے تحت ایک کنال زمین دی گئی ہے۔
تاجر و کانگریس پارٹی کے سابق خزانچی کے کے آملا کو روشنی ایکٹ کے تحت مولانا آزاد روڈ پر 14 کنال اراضی دی گئی ہے جہاں انہوں نے ہوٹل بھی بنوایا ہے۔
ایک اور تاجر مشتاق احمد چایا، جن کے مختلف حکومتوں کے ساتھ قریبی مراسم رہے ہیں، گوگجی باغ علاقے میں 9 کنال اراضی کے مالک ہیں جس پر انہوں نے ایک ہوٹل تعمیر کیا ہے۔
شاہ داد فیملی، جن کا تعلق مبینہ طور پر عبداللہ خانوادے سے ہے، کو سری نگر کے زال ڈگر علاقے میں 18 کنال زمین دی گئی ہے۔
جموں کے ایک تاجر گگو رام کو باہو چاوادی علاقے میں اس ایکٹ کے تحت 38 کنال 5 مرلے اراضی کے مالک ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ روشنی ایکٹ کے تحت حکومت جموں و کشمیر کو 25 ہزار کروڑ روپے کی آمدنی ہونے والی تھی جس کو ہائیڈرو بجلی پیدا کرنے پر استعمال کیا جانا تھا اسی وجہ سے اس ایکٹ کا نام ‘روشنی ایکٹ’ رکھا گیا تھا۔
تاہم کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی سال 2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے اس خطیر رقم میں سے صرف 76 کروڑ 24 لاکھ روپے ہی جمع کئے تھے۔
اس دوران نیشنل کانفرنس نے اُن خبروں کو سراسر غلط اور بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی قرار دیا ہے جن میں نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیکر اس بات کا دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ روشنی ایکٹ کا فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔
پارٹی ترجمان عمران نبی ڈار نے کہا کہ ذرائع کا حوالہ دیکر پھیلائی جا رہی ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں اور یہ غلط اطلاعات بدنیتی پر مبنی ادارے سے پھیلائی جارہی ہیں۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے سری نگر یا جموں میں اپنی رہائش گاہوں کے لئے روشنی ایکٹ کا فائدہ نہیں اٹھایا ہے اور جو ایسا دعویٰ کر رہے ہیں وہ سرار جھوٹ بول رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ خبریں ذرائع کے حوالے سے شائع کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی کوئی بنیاد نہیں اوریہ سب کچھ بدنیتی کے ادارے سے کیا جا رہا ہے۔
یو این آئی