شہاب حمزہ
رابطہ -8340349807
22 مارچ 2020 کو وزیراعظم کی اپیل پر ملک کی عوام نے جنتا کرفیو کے نام پر جب سبھی ضروریات ترک کرکے خود کو اپنے گھروں میں قید رکھا تھا تب کسی کو یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ آنے والے سال میں بھی مکانوں میں قید رہنا ہماری مقدر بن جائے گی ۔ وبا کے سائے میں ملک بندی کے نفاذ کے بعد ملک کے مزدورں کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا، انہیں جن حالات سے گزرنا پڑا ، بے بس انسانوں کے پیدل کارواں سے ہماری شاہراہیں جس طرح ہفتوں آباد رہیں اور انہوں نے جن مشکلات کا سامنا کیا یقینا اسے مستقبل کے لمحے کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے ۔
یہ ملک کا وہ حادثہ تھا جہاں مزدوروں کا ہر قدم کھوکھلی خوشحالی سے مفلسی کی طرف بڑھتا گیا ۔آج پورے ملک میں ایک بھی مزدور ایسا نہیں جو لاک ڈاؤن کے قبل کی پوزیشن پر لوٹ سکا ہو۔ واپس آنے والے برسر روزگار یہ تمام مزدور اپنے گاؤں میں آ کر پہلی صبح سے ہی خود کو بے روزگار پایا ۔ اتنا ہی نہیں مہاجر مزدوروں کے علاوہ گاؤں اور شہروں میں کام کرنے والے لاتعداد لوگ اچانک بے روزگار ہوگئے ۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف غریبی کی شرح میں اضافہ ہوا بلکہ بہت ساری خاندان میں فاقہ کشی کی نوبت بھی آئیں ۔ حالانکہ حکومت نے زندہ رہنے کے لیے فی کش پانچ کیلو اناج کا ناکافی تحفہ ضرور دیا ۔ ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگوں نے اسی سرکاری سوغات پر اپنی جان بچائی ورنہ وبا سے زیادہ بھوک سے مرنے والوں کی تعداد ہوتی ۔
پی آئی ڈبلیو ریسرچ سنٹر کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران وبا اور وبا کی احتیاطی تدابیر کے سبب ملک میں مفلسوں کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے ۔ یعنی 60 ملین غریبوں کی تعداد اب 134 ملین پر جا پہنچی ہے ۔ گویا ہندوستان 45 برسوں کے بعد اس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں اسے مفلسوں کا دیش قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ملک بندی میں سب سے زیادہ متاثر سماج کا متوسط طبقہ رہا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ان کی غیرت نے زمانے کے سامنے اپنے درد کو عیاں کرنے سے ضرور روکے رکھا لیکن ضروریاتِ زندگی نے انہیں زندہ رہنے ایسی بے رحم سزا دی جس سے اس طبقہ کو ابھرنے میں زمانے لگیں گے۔
ان کے پاس روزگار نہیں، آمدنی کا ذریعہ نہیں اور بنیادی ضرورتیں ہر لمحہ سوال کر رہا ہے ۔ ہمارے سماج کا یہ وہ طبقہ ہے جو اب زندگی کی امید کھو رہا ہے اور ان میں سے بے شمار خاندان غریبی کی دلدل میں جا دھنسے ہیں جہاں سے نکلنے کی جدوجہد لاکھوں خاندان کئی نسلوں سے کرتے آرہے ہیں ۔ وبا کی دوسری لہر میں ان کی امیدوں کے تمام چراغ بجھا دیے ہیں جو دل کی کسی گمنام گوشے اور تصور کے شاہراہوں میں نیم روشن حالت میں چراغِ سحر کے مانند جلنے کی سزا کاٹ رہے تھے ۔
اس وبا کے آغاز سے اب تک جہاں پوری دنیا کی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی بے شمار کارخانوں میں مستقل تالے لگ گئے ۔ ہر طرح کی تجارت اپنی وجود کے بدترین دور سے گزرتی رہی پھر بھی زیورات اور سونے کے بازار کی رونقیں کبھی دم توڑتی نظر نہیں آئی ۔ ہم نے اس کے وجوہات پر غور کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ دراصل لاک ڈاؤن میں اس کے خریدنے اور بیچنے والوں کی بڑی تعداد متحرک رہیں ۔ زیورات بیچنے والوں کی بھیڑ میں ہمارے معاشرے کا وہی متوسط طبقہ رہا جو ہزار بے بسی کے باوجود اپنی غیرت کا سودا نہ کر سکا ۔ تو خریداروں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے من مانی قیمتوں پر سماج کے مجبوریاں خریدی ہیں ۔
دوسری لہر کے دوران مکمل لاک ڈاؤن کا عام طور پر اکثر مقامات پر سختی سے نفاذ نہیں کیا گیا بلکہ جان ہے تو جہان ہے کہ فارمولے پر ضروری چیزوں کی خدمات متعینہ وقت کے لئے بحال رکھیں گئی ۔ ملک کے متعدد خطوں میں ٹرین ، سواری گاڑیاں ، گھریلو پروازیں یا پرائیویٹ گاڑیاں حسب ضرورت شرائط کے ساتھ چلتی رہیں۔ عام طور پر لوگوں کو حسب ضرورت باہر نکلنے کی اجازت بھی رہی۔ گویا اس بار حکومت نے وہ بیچ کا راستہ اختیار کیا جس سے نہ زندگی کی رفتار تھمی نہ ہی کی ضروری چیزوں کی کاروبار کا سلسلہ۔ یعنی لوگوں کے لیے روزگار کے سارے دروازے بند نہیں کئے گئے۔ یہی سبب ہے کہ اس بار مرنے والوں میں ان کی تعداد بھی کم نہیں جو اپنے خاندان میں کمانے والے تھے اور روزگار کی تلاش میں بھٹکنے والے تھے ۔ اس لہر میں بے شمار خاندانوں نے وہ ہاتھ کو دیا ہے جن سے اہل خانہ کے لیے نوالوں کی امیدیں وابستہ تھیں۔ بڑی تعداد میں ہمارے معاشرے کا وہ معصوم بچپن یتیم ہوا ہے جنہیں اب رب کے سوا کسی اور کا سہارا میسر نہیں ۔
وبا اور سماجی فاصلہ نے اپنے اور غیروں کی تمیز کا سلیقہ سکھا دیا ہے۔ حالات کی بے رحم سائے میں لوگوں کو بخوبی اپنوں کی شناخت ہو گئی ہے ۔ عزیزوں کے پہچان کی کہانی تو وہ لوگ بہتر بتائیں گے جن کے گھروں سے وبائی دور میں کسی کا جنازہ نکلا ہو۔ یقیناً یہ لوگ رشتوں کی حقیقت سے آشنا ہیں ۔
یقینی طور پر معاشرے کی روایت بدلی ہے۔ اس کے علاوہ سماج میں جو ایک عظیم تبدیلی آئی ہے وہ معاشی فاصلے کا ہے ۔ عظیم پریم جی یو نیورسٹی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک کی 230 ملین آبادی وبا کے باعث خطِ افلاس سے نیچے آ چکی ہیں ۔ جبکہ پی آئی ڈبلیو ریسرچ سینٹر کے مطابق ایک تہائی مڈل کلاس خاندان وبا کے دور میں غریبی کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں ۔ ان رپورٹ کے حوالے سے حالات کا اندازہ لگانا بہت مشکل کام نہیں ہے ۔ یقینی طور پر لوگوں کے حالات میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں۔ اب یہ لازم ہے کہ سرکاری سطح پر ان کے لئے مناسب منصوبے بنائے جائیں تاکہ جلد سے جلد انہیں ان حالات سے ابھارا جا سکے ۔ ساتھ ہی معاشرے کے ذمہ داروں کی بیداری بھی درکار ہے کہ کم ازکم مفلسوں کا حوصلہ بن سکیں ۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ سماج کا مضبوط طبقہ ضرورتمندوں کی مدد کے لیے آ گے آئے ۔ اج ہم سماجی فاصلوں پر الجھے ہوئے ہیں اور وبا نے بڑی خاموشی سے معاشی فاصلوں کی داستان تحریر کردی۔ وبا کی روشنائی سے لوگوں کی تقدیر پر لکھی گئی ان عبارتوں کو مٹانے میں اور سماج میں امیری اور غریبی کے بڑھتے فاصلوں کو کم کرنے کی جدوجہد میں زمانے لگے اور اگر وقت رہتے مناسب اقدامات نہیں کئے گئے تو ان فاصلوں کو کم کرتے ہوئے جدوجہد کی قربان گاہ پر کئی نسلیں قربان ہو جائیں گیں۔