عبدالقیوم تائب
سعودی عرب
مفسر قرآن مفتی فیض الوحید صاحب نوراللہ مرقدہ، دنیائے علم و ادب اور علمائے کشمیر کے سرخیل مرجع الخلائق منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زینت تھے۔
آپ کے سانحہ ارتحال سے کشمیر میں علمی فقدان کا احساس ہورہا ہے۔اس قحط الرجالی کے دور میں ایسی شخصیات کا چلے جانا قیامت صغریٰ سے کم نہیں اگر میں اقبال کی زبان میں کہوں تو بیجا نہ ہوگا۔
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہی کے جگر میں
کُشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں٫
وہ قطرہ نَیساں اپنے مستقر کو پہونچا ٫ موتی بنا اور پھر ایک عالم کو موتیوں کی مالا پہنا گیا
اگر زندگی خودی کو پروان نہ چڑھا سکے تو اس زندگی کا معنیٰ فضول ہے ٫ اگر انسان اپنے اندر چھپے جوہر ٫ محاسبہ کرنے والا ذہن ٫ اور اس کائنات کے اندر رہ کر شر اور خیر کو سمجھ کر چلنے والا ضمیر رکھتا ہو تو وہ مرتا نہیں زندہ رہتا ہے۔
ظاہری موت ضرور اپنے وقت پہ آن پڑتی ہے تاہم اسکے نظریات٫ اور اس کی فکر کبھی تعطل کا شکار نہیں ہوتی ٫ اسنے جن عمدہ اقدار و افکار سے ملت کے دلوں کو مہمیز لگائی ہوتی ہے وہ رہتی دنیا تک اپنا اثر باقی رکھتی ہے
وہ خود نگر ٫ خود گر ٫ اور خود گیر٫
قسم کی صفات سے متصف ہوتے ہیں وہ جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں اور چلنے کی مسدود راہوں کو ہموار کرنے کے گُر بتلاتے ہیں
وہ جیتے ہیں لیکن مخلوق خداوندی کی رہنمائی ٫ رہبری٫ اور خدمت گزاری کے لئے اس سب کے باجود زبان حال سے وہ کہہ رہے ہوتے ہیں لانريد منكم جزاء ولا شكورا ٫ ہم آپ سے کسی قسم کے بدلے کے متمنی نہیں ہیں ہمارا کام ہی راہ راست سے بچھڑی انسانیت کی راہنمائی ٫ اور نئ پود کی عمدہ اسلوب سے آبیاری ہے ٫
مفتی فیض الوحید صاحب نور اللہ مرقدہ اسمِ با مسمی تھے ٫ بلکہ فیضِ فرید تھے
بدل دے مقدر پلٹ دے زمانہ ٫ کے مصداق تھے ‘
مرحوم حالی نے آپ جیسی کوہ کَن شخصیات سے متعلق ہی کہا ہے !
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں ٫
آپ ہر میدان میں انفرادیت ٫ روشن دماغی ٫ عمدہ ظرفی٫ علمی وجاہت اور بڑے پر وقار قدو قامت کے مالک تھے
دنیائے علم میں آپ اپنی مثال آپ ہیں آپ نے ہر میدان میں اپنی عمدہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا
مینے اپنے ہوش و حواس میں سب سے پہلا بیان ضیاء العلوم کے تیس سالہ اجلاس میں ٢٠٠٥میں سنا تھا جس میں آپ نے پونچھ کے کوہساروں کو نغمہ توحید سناکر عہد الست کی یاد دلائی تھی مینے اس دن بڑے بڑے بتوں کو سرنگوں ہوتے دیکھا وہ جو ہر کس و ناکس سے ہونے کا یقین رکھتے تھے ان کے دل بھی نغمہ توحید سے منور ہوگئے ؛ گوکہ تعارف اس سے پہلے بھی تھا لیکن اس دن آپ کی تبحر علمی کا احساس ہوا اور ہر وقت دید کے لئے ترستا رہتا
وہ جب بولتے تھے لبوں سے موتیوں کی مالائیں جھڑتی تھیں جس سے سامعین خوب محظوظ ہوتے
بروقت اور بر محل قرآنی آیات کا استعمال آپ کے قرآن سے لگاؤ کا بین ثبوت ہے
میرا کسی اعتبار سے کبھی تعلق نہیں رہا جس کا مجھے کافی افسوس ہے
ایک مرتبہ پونچھ سے جموں کے لئے مولانا اقبال صاحب کی معیت میں عازم سفر تھا کہ راجوری میں مولانا عبد الرحیم خاکی صاحب حفظہ اللہ نے عشائیہ کا انتظام کر لیا ہمیں فراغت کے معاً بعد جموں نکلنا تھا خاکی صاحب نے بتایا مفتی صاحب کسی پروگرام میں آئے ہیں ان کو بھی واپس جموں جانا ہے اگر وہ بھی آپ کے ساتھ چلے جائیں تو کیسا رہیگا
ہمیں بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا بہر حال
مفتی صاحب بھی ہماری سواری میں جلوہ افروز ہوگئے کچھ دیر خاموشی کے بعد خود ہی سکوت توڑا اور پھر بولتے ہی چلے گئے کبھی فارسی اشعار تو کبھی عربی اشعار اور کبھی یاد خدا میں غوطہ زن ہوجاتے ٫
یکایک ہمیں متنبہ کیا کہ وہ مندر دیکھیں ٫ پھر کہنے لگے ایک مرتبہ بارش کے موسم میں یہاں سے گزر ہوا نماز کا وقت تھا مجھے نماز پڑھنی تھی مندر کے پاس نلکے میں پانی میسر تھا میں پریشان کہ جائے نماز بھی نہیں نماز کہاں اور کیسے ادا کی جائے اچانک
مندر سے دو بابے نمودار ہوئے کہنے لگے گرو آئیے آپ اندر آجائیں مینے کہا بس اسی صحن میں مجھے دو رکعت نماز ادا کرنی ہے
مفتی صاحب کا سنانے کا اپنا انداز ہی نرالا تھا
وہ پر لطف انداز میں اب کہاں سے لاؤں ‘اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لیکر
لیکن ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم٫
مفتی صاحب اپنی مختصر زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی بنا گئے اور رہتی دنیا کو کام کرنے کا ایک نہج دے گئے ہیں
کہ یہ بھی ایک انداز ہے دنیا میں کام کرنے کا
آپ نے اہل کشمیر کے نیم مردہ جسموں میں قرآنی روح پھونکی اور نوجوان طبقے کو رضائے خداوندی کے تحت زندگی گزارنے کا طریقِ کار دیا اور رجال کار کی ایک بہت بڑی جماعت چھوڑ گئے ٫
مرکز المعارف بٹھنڈی آپ کی بہترین صلاحیتوں اور عمدہ فکروں کا مظہر ہے ادارے کی ترقی کے ساتھ ساتھ طلبائے مرکزالمعارف کی علمی نشو و نما آپ کی اولین ترجیح تھی
ہشاش بشاش اور مسکراہٹیں بکھیرنے والا اپنے لبوں کے تسبم سے پتھروں کو بھی موہ لیتا تھا
یہی وجہ ہے کہ آپ کی موت پہ غیروں بھی نے غم و الم کا اظہار کیا
یہی وہ لوگ تھے جو امر ہوگئے
اور تاریخ کے اوراق میں سما گئے
جن کے ہاں ” بابر باعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست” کا فلسفہ کسی حیثیت کا مالک نہ تھا
انہونے عالم میں رہ مطمحِ نظر عاقبت کو رکھا
اپنے ساتھ عالمِ انسانیت کی زندگی اور عاقبت سنوارنے کی ٹھان لی اور وہ ۔۔۔۔۔۔وہ کر گزرے
آپ تنہا ایک انجمن تھے آپ سے لگاؤ میری ہی ذات کو نہ تھا بلکہ مینے شجرو حجر کو بلک بلک کر روتے اور تڑپتے دیکھا
طبیعت کی مستقل خرابی کے بعد ایک کھٹکا سا ہمیشہ لگا رہتا تھا اور استفسار کے باجود بہت کم حوصلہ افزا خبر ملتی
سوشل میڈیا پہ آتے ڈرتا تھا مبادا کہیں مجھے ایسی اندوہناک خبر سننے کو نہ مل جائے جو میرے لئے اعصاب شکن ہو
لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے
وہ کسی فرہاد سے نہیں ٹلتی
آخر میں میری ان لوگوں سے استدعاء ہے جو کسی بھی اعتبار سے آپ سے منسلک رہے یا محبین ہیں آپ سے عقیدت کا حق ہی یہ ہے کہ آنحضرت کا مشن خلوص سے آگے بڑھایا جائے آپ نے جو نہج دیا ہے اور جس پہ چل کر دکھایا ہے اسی راہ کا راہ رو ہوجا ٫ اور یہی انصاف ہے
آہ :
خواب لکّھوں یا کسی خواب کے ارماں لکھوں
داستاں تیری میں کیا دیدۂ حیراں لکھوں
سوزِ فرقت میں ترے ڈوبتے سورج دیکھوں
چاک پھر صحرا نَوردوں کے گریباں لکھوں
زرد موسم میں تجھے آس کا بادل سمجھوں
دشتِ ہجراں میں تجھے سبزۂ درماں لکھوں !
اب جب کہ قلم اٹھایا ہے لکھتے رہنے کو جی چاہتا ہے لیکن پڑھے گا کون ؟