رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ
گھر کے آنگن سے باہر اپنی گاڑی نکالتے وقت لیاقت اپنی ماں سے رخصت لے رہا ہے ۔ اسکا کا یہ روز کا معمول تھا کہ صبح گھر سے نکلتے وقت اپنی ماں کو آواز دیکر ہی گاڑی گیٹ کے باہر نکالتا تھا ۔۔۔۔۔
” جا اللہ کے حوالے ۔ گاڑی ہمیشہ آہستہ سے چلانا ۔ گاڑی چلاتے ہوئے دائیں بائیں بھی نظر دوڑانی چاہیے تاکہ حادثات کو ٹالا جا سکتا ہے ۔ گاڑی تیز چلانے سے ہمیشہ پرہیز کرنا ۔۔۔۔
لیاقت ۔۔۔۔ امی ! جو قسمت میں انسان کو ہوتا ہے وہ ہو ہی جاتا ہے۔ گاڑی تیز یا آہستہ چلانے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ قسمت میں جو انسان کو لکھا ہوتا ہے وہ ہوکر رہ جاتا ہے ۔ انسان خود کچھ بھی کرے لیکن جو تقدیر میں لکھا ہوگا وہی آگے حاصل ہوگا۔۔۔۔۔۔
ماں ۔۔۔۔ لیکن پھر بھی اللہ نے انسان کو دیکھنے کےلئے دو آنکھیں عطا کی ہیں ۔ سوچنے کے لئے دماغ اور عقل دی ہے ۔۔۔
اپنی ماں کے یہ الفاظ سنتے ہوئے لیاقت نے گاڑی نکالی ۔ ٹیکسی سٹینڈ میں دس سواریاں بھرنے کے بعد لیاقت نے گاڑی تیز رفتاری سے چلانا شروع کی ۔ اس روز قبل لیاقت کو زیادہ فائدہ دن میں نہیں ہوا تھا اسلئے وہ اگلے دن زیادہ کمائی کرنا چاہتا تھا ۔ گاڑی تیز رفتاری سے چلا کر ہی وہ زیادہ مرتبہ چکر لگا سکتا اور زیادہ کمائی کرسکتا تھا ۔ راستے میں سبھی سواریوں نے لیاقت کو گاڑی آہستہ سے چلانے کےلئے کہا لیکن وہ وہی الفاظ دہراتے ہوئے آگے نکلتا رہا جو اس نے ماں کو کہے تھے ۔۔۔۔
دس بیس کلومیٹر طے کرنے کے بعد لیاقت کی گاڑی اسکے قابو سے باہر نکلتی ہوئی ایک گہری کھائی میں جاگری ۔ لیاقت سمیت چار سواریوں کو شدید چوٹیں آئیں اور انکو نزدیکی ہسپتال میں داخل کرایا گیا ۔ ایک سواری کی موت ہسپتال پہنچاتے ہوئے واقع ہوئی بلکہ لیاقت اور دو اور سواریوں کو ایمرجنسی آپریشن کیا گیا ۔ لیاقت برابر پانچ گھنٹوں تک بے ہوش تھا ۔ آپریشن ہونے کے بعد لیاقت تھوڑا ہوش میں آیا اور اسکی زبان سے صرف یہ جملے نکلتے رہے ۔۔۔
” ماں سچ بول رہی تھی ۔ ماں سچ بول رہی تھی ۔۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔