رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر
شوہر کی وفات کے بعد نازنین نے ایک بہادر مرد کی طرح اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت انجام دی ۔ انکی کفالت کرنے میں بھی نازنین کو بےشمار تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ۔ اسکے بچے اچھی تعلیم و تربیت پاکر سماج کے اچھے شہری بننے میں کامیاب ہوئے ۔۔۔
نازنین کا بڑا بیٹا شاکر پڑھنے لکھنے میں زیادہ ہی تیز تھا ۔ سول سروس امتحان کےلئے بھی وہ پانچ سال تک مسلسل کوشش کرتا رہا اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد ایک اعلی آفیسر بن گیا ۔ شہر میں کئی سالوں تک اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے شادی بھی شہر میں ہی ایک امیر باپ کی بیٹی سے رچائی ۔ بیوی کے کہنے پر عمل کرتے ہوئے شاکر نے شہر میں ہی مستقل سکونت اختیار کی ۔ اب وہ کبھی کبھار ہی اپنے آبائی گاؤں میں بیوہ ماں اور باقی بہن بھائیوں کی خبر پرسی کےلئے آتا تھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شاکر نے پوری طرح ماں اور بہن بھائیوں کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑا ۔ ایک اعلی آفیسر بننے اور شادی رچانے کے بعد شاکر کو نہ بیوہ ماں کی مصیبتیں یاد رہی نہ ہی اپنے بھائیوں اور ایک بہن کی کفالت اور تعلیم و تربیت میں اس نے کسی قسم کا مثبت رول ادا کیا ۔ بیوہ ماں کا اکلوتا سرکاری آفیسر ہونے کے ناتے شاکر پر یہ فرض تھا کہ وہ ماں اور اپنے بہن بھائیوں کی ہر ممکن مدد کرے مگر شاکر نے ان سب کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔۔۔
نازنین نے خود ہی اپنے باقی بیٹوں اور ایک بیٹی کی کفالت اور تعلیم و تربیت انجام دی ۔ اسکے بعد انکی شادی کا بھوج بھی اپنے ہی کندھوں پر اٹھایا ۔
وراثت کی تقسیم کےلئے نازنین نے محلے کے اوقاف کمیٹی کو مطلع کیا تاکہ وراثت اچھی طرح بچوں میں تقسیم کی جا سکے ۔ اوقاف کمیٹی کے تمام ممبروں نے شاکر کو وراثت میں حصہ نہ دینے کی رائے ظاہر کی ہے کیونکہ انکو معلوم ہے کہ شاکر نے نوکری اور شادی کے بعد بیوہ ماں اور بہن بھائیوں کو پوری طرح بھول دیا ۔۔۔۔۔۔
جب اوقات کمیٹی کے ممبروں نے اپنا فیصلہ سنایا تو نازنین کہنے لگی ۔۔۔
"” نہیں نہیں ۔۔۔ مجھے یہ فیصلہ بالکل بھی منظور نہیں ہے ۔ میں اپنے بڑے بیٹے شاکر کو کس طرح اپنی وراثت سے بے دخل کر سکتی ہوں ۔ شادی کے بعد میری گود برابر چھ سال تک خالی رہی اور ڑاکٹروں حکیموں کے چکر لگاکر بھی کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ پیروں فقیروں اور زیارتوں پر منتیں مانگ کر ہی مجھے اللہ نے شاکر کی صورت میں پہلی اولاد عطا کی ۔ آج اسی شاکر کو میں کیسے وراثت سے محروم کروں ؟ ۔۔۔
تمام اوقاف کمیٹی کے ممبر نازنین کی باتیں سن کر ہکا بکا رہ گئے ۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے.