رئیس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ
ریاض احمد کو ہر دن اپنی اہلیہ سے بقول اسکے کنجوسی کرنے پر تو تو میں میں ہو جاتا تھا ۔ ایک اچھے اور بڑے عہدے پر فائض ہونے کے باوجود بھی اس نے اپنے لئے ذاتی گاڑی نہیں رکھی تھی ۔ ہر روز جب ریاض احمد کو اپنے دفتر سے گھر آنے میں دیر ہوتی تھی تو بیوی بچے اسکو گاڑی خریدنے پر زور دیتے تھے ۔ ریاض احمد نے باقی تمام ضروریات زندگی گھر میں اپنے بال بچوں کے لئے میسر تو رکھی تھیں لیکن گاڑی خریدنے سے وہ کاسر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریاض احمد کو ایک دن ٹریفک جام کی وجہ سے گھر آنے میں بہت دیر لگ گئی ۔ اپنے دونوں ہاتھوں میں گھریلو اشیاء سے بھرے پانچ چھہ بیگ پکڑے ہوئے وہ رات کے نو بجے اپنے گھر پہنچتا ہے ۔ جب اس نے باورچی خانے کا دروازہ کھٹکھٹایا ، تو بیوی بچے سب اس پر برس پڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنی کنجوسی کرنے میں تمہیں کیا فائدہ ہے ۔ جو لوگ معمولی سی کاروبار یا ملازمت کرتے ہیں وہ سب اپنے گاڑیوں میں گھر وقت پہ پہنچ کر اپنے اہل و عیال میں مزے سے جی لیتے ہیں ۔ پتہ نہیں آخر کیا وجہ ہے کہ تم گاڑی نہیں خریدتے ہو۔۔۔۔
ریاض احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو دو وقت کی روزی بڑی مشکل سے ہی ملتی ہے ۔گاؤں سے بہت لوگ دن میں بازاروں کا رخ صرف اس غرض سے کرتے ہیں تاکہ معمولی چیزیں بھیج کر وہ بھی اپنے بیوی بچوں کے لئے کچھ کمائیں ۔ ان معمولی چیزوں کی طرف شاید ہی کسی فرد بشر کی نگاہ پڑ جاتی ہے اور وہ دن میں کچھ خاص خریداری بھی نہیں کرتے ہیں ۔۔۔۔۔
مجھے بہت ہمدردی ان غریب اور کمزور طبقے کے لوگوں سے ہیں ۔ ہر دن میں ان سے کچھ نہ کچھ خریداری ضرور اس غرض سے کرتا ہوں تاکہ انکے گھر کے چولہے بھی جلتے رہیں اور انکے بیوی بچے ان سے کبھی نا خوش نہ ہوں ۔ اسی لئے میں بازار میں پیدل چل کر ان کی تلاش میں رہتا ہوں اور ان سے یہ چیزیں خرید کر آپ کےلئے لاتا ہوں ۔ گاڑی میں سفر کرتے ہوئے مجھ سے یہ ہمدردانہ کام نہیں ہوسکتا ہے ۔ اسی لئے میں گاڑی خریدنے کے بجائے پیدل چلنا ہی پسند کرتا ہوں ۔۔۔۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے .