ڈاکٹر سیفی سرونجی
مدیر سہ ماہی ’انتساب عالمی‘
Mob:9425641777
یہ بات طے شدہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی شاعر، ادیب،نقاد رسائل کی اہمیت اور اُن کی خدمات سے انکار نہیں کر سکتا، کہ ہر شاعر،ادیب بڑا انھیں رسائل سے بنتا ہے اس لئے کہ ان ہی رسائل میں چھپنے سے وہ اُس مقام تک پہنچتے ہیں،یوں تو اردو رسائل کی ایک لمبی فہرست ہے جن پر بہت کچھ لکھا جانا چاہئے، مثلاٌ نگار،فنون، شاہراہ،اوراق، شب خون، ذہنِ جدید، نیا ورق، شمع وغیرہ۔لیکن اُن رسائل میں ایک رسالہ ایسا ہے جس کا پورا خاندان اُس رسالہ کو زندہ رکھنے کے لئے اتنی قربانیاں دے چکا ہے کہ جس کی تفصیل کے لئے ایک دفتر درکار ہوگا، وہ خاندان ہے سیماب اکبرآبادی کا اور وہ رسالہ ہے ’شاعر‘ جو کہ اشاعت کے ۰۹ برس مکمل کر چکا ہے، اُن ۰۹ برسوں میں خاندانِ سیماب اکبرآبادی نے ’شاعر‘ کے لئے کیا کچھ نہیں کیا، ۰۳۹۱ ء میں آگرہ سے سیماب اکبرآبادی نے اُسے جاری کیا، اور پھر ممبئی سے ایک چھوٹا فلیٹ جس میں ان کی رہائش بھی تھی، اور اس فلیٹ میں ’شاعر‘ کا آفس بھی۔
۰۳۹۱ ء سے لے کر آج تک سیکڑوں اتار چڑھاؤ آئے،لیکن ’شاعر‘ کو خاندان سیماب نے بند نہیں ہونے دیا، یہی نہیں اِن ۰۹ برسوں سے’شاعر‘ نے ایسے ایسے ضخیم نمبر شائع کیے ہیں کہ وہ ادبی دنیا میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک ایک ہزار صفحات پر مشتمل یہ خصوصی شمارے شائع کر ’شاعر‘ نے ایک رِوایت قائم کی ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ کرشن چندر نمبر، اقبال نمبر، افسانہ نمبر، غالب نمبر اور درجن بھر ضخیم نمبروں کے علاوہ اردو رسائل کی دنیا میں ایک ایسا رکارڈ قائم کیا ہے کہ ادب کا ایک نایاب ذخیرہ جمع ہو گیا ہے.
جب تک اردو زبان زندہ رہے گی لوگ اِس نایاب ذخیرے سے فیض یاب ہوتے رہیں گے،جہاں ایک طرف ’شاعر‘ کے بانی علامہ سیماب اکبرآبادی نے رسالے کو زندہ رکھنے کے لئے اپنا خون جگر ص رف کیا وہیں دوسری طرف اُن کے انتقال کے بعد اعجاز صدیقی نے اپنے والد کی اُ س روایت کو قائم رکھنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا، اُن کا ہر سفر ’شاعر‘ کے لئے ہوتا تھا، شاعر کے لئے جیتے تھے اور شاعر کے لئے سوچتے تھے، اُسے زندہ رکھنے کے لئے ایسے ایسے لوگوں سے تعلقات بنائے رکھے تھے،جن سے ’شاعر‘ کو زندہ رکھنے میں مدد ملتی تھی۔ اردو رسائل کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کسی نے اپنی شہرت کے لئے رسالہ نکالا،کسی نے کوئی سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لئے، تو کسی نے اپنے نظریات تھوپنے کے لئے اور کسی نے ترقی پسند تحریک کے لئے،لیکن ’شاعر‘ کی مثال کوئی پیش نہیں کر سکتا کہ اُس رسالہ نے کبھی کوئی ذاتی مفاد نہیں رکھا اور نہ ہی ’شاعر‘ کسی گروپ کا رسالہ رہا۔ جہاں ایک طرف رسالے نے درجنوں ترقی پسندوں کو چھاپا،انھیں روشناس کرایا وہیں دوسری طرف جدید شاعروں،ادیبوں کو بھی چھایا اور مابعد جدیدیت والے بھی اِس رسالے میں چھپتے رہے ہیں،ہر سیاسی گروپ بندی سے بے نیاز، ہر چھوٹے بڑے ادیب ’شاعر‘ کے قدر کو نہیں،بلکہ اچھے تخلیق کاروں کو اپنے پرچے میں جگہ دی۔ سیماب اکبرآبادی سے لے کر افتخار امام صدیقی اور ناظر نعمان صدیقی اب تک اِس روایت پر قائم رہے،آج جبکہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا جھگڑا عروج پر ہے،ایسے ماحول میں بھی ’شاعر‘ نے کسی تحریک،رجحان کو بڑھاوا دینے یا ایک طرف جھکنا گوارا نہیں کیا، ورنہ بڑے بڑے مدیرانِ
رسائل اپنا قبلہ بدل چکے ہیں،یہ صرف’شاعر‘ کا ہی کمال ہے کہ ادب میں کئی رجحانات آئے،لیکن ’شاعر‘ نے اپنا رویہ نہیں بدلا،نہ کسی بڑی شخصیت سے مرعوب ہوا نہ کوئی سیاسی فائدہ اٹھایا یہی نہیں،’شاعر‘ کا سب سے بڑا کمال یہ بھی ہے کہ دنیا کے تمام اردو پڑھنے والوں کو کھوجنے کے بعد اردو کی نئی بستیوں میں جہاں بھی ’شاعر‘ کو ایک اردو پڑھا لکھا آدمی نظر آیا وہاں وہاں ’شاعر‘نے رابطہ قائم کیا اور دبئی، مسقط،،ابو ظہبی، لندن، جرمی، چین، ہالینڈ، پولینڈ وغیرہ جیسے ملکوں میں کوئی بھی اردو کا قاری،شاعر،ادیب ہوا ہے ’شاعر‘ نے اُسے کھوج نکالا ہے۔
آج اردو کی نئی بستیوں میں جو چہل پہل اردو رسالوں کی نظر آ رہی ہے اُس میں سب سے بڑا رول’شاعر‘ کا ہی ہے۔’شاعر‘ سے پہلے لوگ وہاں کے شاعروں،ادیبوں کے نام سے بھی واقف نہ تھے، نہ وہاں کوئی ادبی رسالہ پہنچتا تھا اور نہ ہی اردو کی نئی بستیوں والے ہندوستان کے رسائل سے واقف تھے، ایک تنہا ’شاعر‘ نے اردو کے فروغ کے لئے، اردو رسائل کی اہمیت کے لئے رسالے کے ذریعے ساری دنیا میں اردو دنیا کے کونے کونے سے لکھنے والوں کو نہ صرف کھوج نکالا ہے، بلکہ’شاعر‘ کے کئی شماروں میں مسلسل اداریے لکھے، اپنی ذاتی کوششوں سے ذاتی خرچ پر ’شاعر‘ کو بھیجا، ان کی تخلیقات کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا اور سارے لکھنے والوں کو ایک دوسرے سے آشنا کیا،ادب سے آشنا کیا۔ ’شاعر‘ سے منسلک خاندان سیماب کے ایک فرد نے ’شاعر‘ کے لئے اپنا وقت، اپنا پیسہ اور ساری مصروفیات وقف کرنے کے بعد سارے ادبی پسِ منظر کو عوام کے سامنے کر دیا، حد تو یہ ہے کہ افتخار امام کے بھائی احتشام صدیقی اپنے بیوی بچوں سے دور، اپنی ساری خواہشات کو بالائے طاق رکھ کر سعودی عرب گئے اور ’شاعر‘ کے لئے قربان ہو گئے۔ دنیا کی تاریخ میں اپنے بزرگوں کی روایت کو قائم رکھنے کے لئے اتنی بڑی قربانی کسی نے نہ دی ہوگی، یہی سب کچھ آج افتخار امام، ناظر نعمان،اور حامد اقبال کر رہے تھے۔
’شاعر‘ نے کئی ترقی پسندوں،کئی جدیدیوں کو ادبی دنیا میں نہ صرف روشناس کرایا ہے،بلکہ کئی
شاعر ادیب جو دنیا ئے ادب میں جگمگا رہے ہیں وہ ’شاعر‘ کی ہی دریافت ہے، نام یہاں اس لئے پیش نہیں کر رہا ہوں کہ اُس کی فہرست طویل ہے۔ ’شاعر‘ کی انھیں قربانیوں کو دیکھتے ہوئے کئی یونیورسٹیز میں الگ الگ موضوعات پر ’شاعر‘ کی خدمات پر تحقیقی مقالے لکھے جا رہے ہیں اور لکھے جانے چاہئے کہ ’شاعر‘ نے نہ صرف ادیب،بلکہ ادب پیدا کیا ہے،شاعر نے کئی بدلتے دھاروں کو موڑا ہے، یہ ’شاعر‘ ہی کی آواز تھی جو آج اردو چینل کا آغاز ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے شاعر نے یہ تجویز رکھی اور جب ’شاعر‘ کی آواز حکومت کے ایوانوں تک پہنچی تو ساری دنیا کے اردو کو چاہنے والوں کی آواز بن گئی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ’شاعر‘ کے ۰۹ برس پورے ہونے پر تمام اردو قارئین یہ تحریک چلائیں کہ ہر اردو ادیب کے پاس ’شاعر‘ آئے ایسا کوئی اسکول کوئی کالج یا یونیورسٹی نہ ہو جہاں ’شاعر‘ نظر نہ آئے۔
رسائل میں ’شاعر‘ کے ۰۹ برس مکمل ہونے پر ’شاعر‘ کو گھر گھر پہنچانے کی ایک تحریک چلائی جائے جہ ’شاعر‘ زندہ ہے تو ادب زندہ ہے،کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت کے تھپیڑے کھاتے کھاتے ’شاعر
‘ آواز دیتا رہ جائے اور ہم علوم و فنون کی اِس عظیم وراثت سے محروم ہو جائیں،اس لئے کہ ارود ادب کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال دیکھنے میں نہیں آئی کہ جس نے اپنے بزرگوں کی ادبی وراثت قائم رکھنے کے لئے پیڑھی در پیڑھی اتنی قربانیاں دی ہوں۔ افسوس! کہ ۰۹ برس تک ’شاعر‘ کو افتخار امام نے اپنی آخری سانسوں تک زندہ رکھا۔ اللہ کرے افتخار امام کے انتقال کے بعد اُن کے خاندان کے وارثین رسالے کو زندہ رکھ سکیں۔