فکریات: الطاف جمیل ندوی
حیاء و اخلاقیات کو طلاق دے کر پروگرام کرنا مغرب کی سڑک پر جانے کو ترستے دلوں کی آخری امید ہوتی ہے جس کے سہارے وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ہم کو کہیں کہ تہذیب جدید کے یہ داعی ہیں اور تہذیب جدید کے دلدادہ و پرستار ان کے ہاں انسانوں کے درمیان کسی تمیز کی کوئی گنجائش نہیں ہے یہاں عورت کو مرد کے برابر حقوق کا حق میسر ہے .
یہ تو الگ بات ہے کہ ہم ملاؤں نے اس فرسودہ سوچ کو سرے سے نکارا ہے ہم جانتے ہیں مغرب کی دو شیزہ جس کرب سے گزر رہی ہے وہ وہی جانتی ہے اسی لئے تو مغرب زدہ یا مغرب کی ہواؤں سے آلودہ دماغ لئے ہمارے مشرقی کلچر میں ان کے مغربی کلچر پر اکثر تھو تھو ہی کی جاتی ہے .
ان کی اولین ترجیحات یہی ہوتی ہیں کہ عورت ماں بہن بیوی بیٹی کے دھارے سے نکل کر اک تماشہ بن کر رہ جائے اس عورت مطلب صنف نازک کو یہ سوچنے کی فرصت تک میسر نہیں کہ جس مرد سے وہ آزادی کی طلب گار ہے جس آزادی کی وہ دھائی دے رہی ہے اصل میں اس آزادی کے پلو کے پیچھے سب ہی کردار ان غلیظ دماغ مردوں کے ہی ہیں جو اپنی تسکین جگر کے لئے صنف نازک کا بخوبی استعمال کر رہے ہیں. اور یہ صنف نازک کی کم عقلی کا شاخسانہ ہے کہ وہ بخوشی اس دلدل میں کود رہی ہے اور اسے احساس تک نہیں پر جوں ہی وہ سمجھ پاتی ہے یقین کریں تب تک بہت دیر ہوگی ہوتی ہے یہ تمہید ہے اب اصل مدعے کی بات کرتے ہیں.
مغرب نماز پڑھ کر دیکھا کہ کچھ بیٹیاں سڑک کے کنارے پر چل رہی ہیں ان کے ہاتھوں میں کچھ پلے کارڈز بھی ہیں. پر دن بھر سفر کے بعد واپسی پر زیادہ توجہ نہیں دے سکا پر یہ تصویریں بار بار موبائل سکرین پر گشت کر رہی تھیں اس لئے دیکھ کر جاننے کی کوشش کی تو یہ جان کر آپ یقین کریں خوشی و مسرت کے جذبات آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگیں کہ یہ وہ شہزادیاں ہیں جنہوں نے حیاء کی چادر کی افادیت کے لئے حیاء مارچ کیا ہے. ایک شہزادی کہہ رہی تھی کہ یہ اللہ کا حکم ہے کہ عورت باحیاء ہو اس کی نظر جھکی ہوئی ہو حق یہ کہ میں خوشی سے پھولے نہیں سمایا کہ اب تلک غیرت بنت حوا زندہ و تابندہ ہے بیٹیاں اب بھی چادر حیاء کو اوڑھ کر امی عائشہ فاطمہ زہرا کی بیٹیاں ہونے کو ترجیح دے رہی. ہیں بجائے اس کے کہ وہ ابلیس اعظم کی بیٹیاں کہلائیں یہ وہی بیٹیاں ہیں جو کسی باپ کی عزت کسی بھائی کا غرور تو کسی شوہر کی غیرت و حمیت کے سایہ میں جینے کو ترجیح دے کر اپنی دنیا کو پرسکون بنا دیتی ہیں اور باپ بھائی شوہر کے سر کو جھکنے نہیں دیتی .
یہ جانتی ہیں کہ ان کی عزت و ناموس کا تحفظ ہی ان کی بقاء و عزت و وقار کا ضامن ہے ان کی باحیاء و پاکیزہ زندگی ہی ان کی دنیا کے لئے پیغام محبت پیغام رفعت ہے. یہ بیٹیاں وللہ قوم ملت کا فخر و غرور ہوتی ہیں جو طلاطم خیز موجوں کا رخ موڈ دینے کا حوصلہ رکھتی ہیں واقعی ان کی جرآت و حمیت ہماری غیرت ایمانی کے لئے اک پروانہ حق و صداقت ہے.
آئے بیٹیو ہم تم پر نازاں ہیں
ہم تم پر فخر کرتے ہیں
او بیٹیوں یہ تمہارا خاموشی سے
حیاء کا پیغام سنانا قابل احترام طریقہ ہے
او بیٹیوں واقعی تم اسلام کی شہزادیاں ہو اسلام کو تم جیسی بیٹیاں ہی مطلوب ہیں
او بیٹیو تم تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی مستحق ہو
او بیٹیو تم نے حیاء کی بات کی ہے تو یقینآ تم سایہ ربی میں ہو
کاش آئے کاش وہ بیٹیاں جان جاتی جو ٹھرک پن فحاشی و عریانیت والی تہذیب جدید کی خوگر و متوالی و شوقین ہیں جو اپنے جسم کی نمائش کو ہی آزادی تہذیب و تمدن سمجھتی ہیں اور دن بدن اسی میں ڈوبتی جارہی ہیں واللہ تم نہیں جانتی کہ والد کے سایہ میں رہ کر تمہاری عظمت تمہاری وقعت کس قدر بلند ہوتی ہے. جب تم بھائی کے سامنے رہتی جب تم حیاء کی چادر اوڑھ لیتی ہو تب تمہاری بلندیوں کا شمار نہیں ہوتا. آئے پیاری بیٹیو پر جوں ہی تم اپنی اوقات اپنی عزت داؤ پر لگا کر رونق محفل تسکین ابلیس بننے کو مچلتی ہو رب کبریاء کی قسم تمہاری اوقات دو کوڑی کی نہیں رہتی مطلب تم عرش سے گر کر فرش راہ بن کر مسلی اور روندھ دی جاتی ہو.
میری بہنو تم سمجھو
پیاری بیٹیو واللہ تمہاری
عزت و وقار کا ضامن سوائے
اسلام کے کوئی اور ہے ہی نہیں
چلتے چلتے
ہم اپنی ان بہنوں کے دل سے شکر گزار ہیں جو بہنیں ان اندھیروں میں بھی پاکیزگی اور اور باحیاء معاشرے کی تشکیل کے لئے معاون بنی رہتی ہیں.
یاد رکھنا تم ہماری عظمت و رفعت کی وہ داستان ہو کہ جسے تاریخ اسلامی سے کبھی الگ کیا نہیں جاسکتا ہمیں یقین ہے کہ ہمارے علماء محدثین مفسرین عظیم اسلامی دانشور انہیں ماؤں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں جن کی نگاہیں پاکیزہ ہوں جو اپنی عفت و عظمت کی محافظ ہوتی ہیں انہیں کے ہاں پاکیزہ کردار کے وہ بیٹے ہوتے ہیں جو اپنی شان اپنی بلند نگاہی کے لئے تاریخ کے اوراق میں انمٹ نقوش ثبت کر دیتے ہیں.
حق یہ ہے کہ میں ان اسلام کی شہزادیوں سے واقف بھی نہیں نہیں جانتا کہ کون ہیں یہ پر میرے لئے قابل فخر ہیں صرف اس لئے کہ یہ اسلام کی شہزادیاں ہیں. یہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی عظیم بیٹیاں ہیں بہنیں ہیں پوری ملت اسلامیہ کے خیر خواہوں کو ان جیسی بیٹیوں پر ناز ہے جو اس ظلمت شب کے تاریک اور خوفناک اندھیرے میں شمع روشن کرنے کو نکل کر اپنے ہونے کا احساس دلانے میں کامیاب ہوگی ہیں. حق یہ کہ میری پوری علمی کاوشوں اور میری پوری زندگی کی نیکیوں پر ان کا یہ ایک لمحہ باری ہوگیا جس کا الفاظ میں لکھنا یا پرونا ممکن نہیں.
سلام ہو تم پر اسلام کی شہزادیو
تم ہی ہمارے لئے امید سحر کا آخری دیا ہو تم روشن سے روشن رہو اللہ کرے ۔