فہیم الاسلام
طالب علم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم پاسبان ہیں اس کے ،وہ پاسبان ہمارا
اللہ تبارک و تعالی نے ایک انسان کو اس دنیا میں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا۔اور ایک خلیفہ کی ہمیشہ سے یہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ جو اس کا حاکم ، مالک اسے حکم دے اس پیغام کو وہ من و عن دنیا کے لوگوں تک پہنچائے۔اور یہ خلافت کا سلسلہ حضرت آدم سے لے کر شروع ہوا اور حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم تک چلا ،جہاں پر اللہ تعالی نے ہر کسی نبی کو اپنی قوم کی طرف اس لیے بھیجا کہ حجت قائم ہو جائے تاکہ ایک انسان کل خدا کے سامنے اس بات کا اظہار نہ کرے کہ میرے پاس تو کوئی دعوت نہیں آئی ہے، اور جب بھی کسی قوم میں فحاشی، بد اخلاقی اور لادینیت اپنے پیر جماتی تھی تب اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے انبیاء کے ذریعے اس قوم کو ان برائیوں سے دور رہنے کی تلقین کی جاتی تھی۔
اور یہی سلسلہ حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم تک جاری رہا ۔حضرت آدم سے لیکر حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم تک نبوت کا سلسلہ رہا اور ہم سب اسلام کے تاریخ سے واقف ہے کہ کن مصائب و آلام سے ان قوموں کو گزرنا پڑا اور کن مشکلات سے سے انبیاء علیہ الصلاۃ والسلام کو ان تمام تر اللہ تعالی کی احکامات کو اپنی قوم تک پہنچانے میں دشواریاں جھیلنی پڑی،لیکن پھر بھی اس نبوت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا اور اللہ تعالی کا دین دن بدن اپنے عروج کی اور بڑھتا رہا۔ہمیشہ سے ایک نبی کی یہی ایک پکار تھی کہ میری قوم اللہ تعالی پر ایمان لاؤ اس کے علاوہ سب ادیان باطل غلط ہے ان کو چھوڑو اور تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے اللہ تعالی کی ہدایت سے اسلام قبول کیا اور اس دنیا میں بھی کامیاب ہوئے اور آخرت میں کامیاب ہوے،اور جنہوں نے اپنی ہٹ دھرمیی ،اقتدار اور حکومت کی وجہ سے اس دین کو ٹھکرا دیا وہ اس دنیا میں بھی ناکام ہوئے اور آخرت میں بھی ناکام ہوئے ۔ہمارے سامنے کتنی ایسی مثالیں ہے کہ جو لوگ بہت ہی زیادہ مالدار تھے، حکومت والے تھے لیکن جب انہوں نے اسلام کو ٹھکرا دیا تو اللہ تبارک و تعالی نے ان کو اس دنیا میں بھی ناکام کیا اور آخرت میں بھی ناکامی کا اعلان کردیا۔
اب جب نبوت کا سلسلہ حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا تو جو ذمہ داریاں ایک نبی کی شخصی زندگی میں تھی وہ ساری ذمہ داریاں امت مسلمہ کے ہر فرد پر آگئی۔ اگر ہم اس عیسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرف نظر دوڑائے وہ اس بات پر ایمان لاتے تھے کہ اللہ تعالی ہمارا معبود ہے ، وہ مانتے تھے کہ آپ ان کے نبی ہیں لیکن جو بات ایک مسلمان کو اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے بڑی ذمہ داری ہے وہ ہے "تبلیغ” اس دین کو دوسروں تک پہنچانا وہ اس میں بہت ہی زیادہ لا پرواہ اور کاہل نظر آئے اور انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالی نے ان پر اپنا عذاب نازل فرمایا کیونکہ جو ذمہ داری ان پر عائد ہوئ تھی اس ذمہ داری کو انہوں نے ٹھکرا دیا۔اب بات امت مسلمہ کے ہر فرد کی ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے سورۃ آل عمران میں کہا گیا ہے "آپ وہ بہترین گروہ ہو جس کو لوگوں کے لیے چنا گیا آپ لوگوں کو اچھائی کا حکم دے، بدی سے روکے ،اور اللہ تعالی پر ایمان لائے” یہ اس امت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو وہی نبھا سکتا ہے جس کے دل میں خدا کا خوف اور ایمان کی پختگی باقی رہ چکی ہو۔اللہ تعالی کے نزدیک زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ اسلام ہے اور حجۃ الوداع کے موقع پر بھی اللہ تعالی نے یہی ارشاد فرمایا کہ آج میں نے آپ کا دین مکمل کیا اور میں خوش ہوں کہ آپ کے لئے دین اسلام رہے گا اور قرآن واحد نجات کا ذریعہ۔
اب امت مسلمہ کے ہر فرد کو یہ بات یاد رکھنی ہے کہ اس پاک اور منظم تحریک کو دوسرے لوگوں تک اور ادیان باطل تک پہنچانے میں بہت سی دشواریاں سامنے آ جائیں گے کبھی کبھار وقت کے بادشاہ فرعون کی شکل اختیار کر چکے ہونگے اور کبھی عبداللہ بن ابی جیسے منافقین ہماری صفوں میں شامل ہوں گے لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی ہے کہ جب مکہ معظمہ میں درندگی نے حد پار کی تھی، جب معصوم لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا، جب عزت و ناموس کی کوئی بات تھی ھی نہیں، جب ہر کوئی درندگی کا شکار ہو چکا تھا تب بھی ان صحابہ نے اسلام کی پرچار کی خاطر اپنی زندگیاں قربان کی تھیں اور وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوئے اور آخرت میں کامیاب ہوگئے لیکن بات قابل غور ہے کہ یہ راستہ پھولوں کی سیج نہیں یہ کانٹوں بھرا راستہ، لیکن وہ انسان کامیاب ہوجائے گا جو ان دشواریوں پہ اللہ تعالی کو یاد رکھے گا، اللہ تعالی سے مدد مانگے گا، اور اللہ تعالی کے اس دین کے پرچم کو بلند کرنے کی کوشش کرے گا۔کبھی وقت کے بادشاہ فرعون کی شکل میں آ کر آپ سے خدا ہونے کا دعوی کریں گے لیکن اس وقت موسی علیہ السلام کی حکمت عملی اپنا طریقہ کار بنانا ہے،اور جب مکہ معظمہ کے ابتدائی مراحل کے واقعات دوبارہ ہمارے سماج میں آ جائے گی تو کس طریقے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جان نثارصحابہ کی زندگی مبارک کو اپنا نمونے عمل بنانا ہے۔
اس دعوت کو دوسروں تک پہنچانے میں کبھی کبھار اپنے رشتہ دار بھی ہم سے خفا ہوں گے لیکن حضرت ابراہیم کی زندگی کو طریقہ عمل بنانا ہے کہ ہم دنیا میں خدا کی عبادت کرنے کے لئے آئے ہیں اور اسی کی بندگی کرتے کرتے اس دنیا سے دم توڑ لیں گے۔ اور کبھی شعیب ابی طالب کی گھاٹی میں بند کر دیا جاے گا لیکن ہم وہ بھی ناموس صحابہ اور رسالت کی خاطر برداشت کریں گے یہ ہمارا مشن ہونا چاہیے۔ اب چاہے بہار ہو کہ خزاں ہو ہمیشہ سے اس دین کا پرچار کرنا ہمارا فرض ہے اور ہماری ذمہ داری ہے۔آج موجودہ سماج میں مختلف نظریات نے جنم لیا ہے چاہے ہم انفرادی زندگی پر نظر دوڑائیے یا اجتماعی زندگی کی طرف۔ ہماری زندگی مختلف باطل نظریات سے بھری ہوئی ہے ،چاہے ہم اپنے گھروں،اسکولوں اور دیگر شعبہ جات کو دیکھیں کہ کس طرح ہم نے جان بوجھ کر یا ان جانے میں ان نظریات کو اپنے دلوں میں اور زندگیوں میں قبول کیا ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جس دین کو اللہ نے ہمارے لیے پسند فرمایا ہے اس کو کس طرح اپنی زندگیوں میں لائیں اور جس تعلیم کے نور سے ہم دن بدن فیضیاب ہوتے ہیں اس تعلیم کے نور کو کس طریقے سے ان نظریات کے خلاف استعمال کریں۔ ہمیں اپنی زندگیوں کو نمونہ عمل بنانا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو دنیا تک پہنچانا ہے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے چاہے دشمنان اسلام کتنے ہی طاقت ور اور سامان سے لیس ہوں جب ہمارے دل کے اندر ان 313 صحابہ کا خدا خوف اور اسلام کے غلبے کی محبت ہو تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اپنی منزل پانے سے نہیں روک سکتی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب اپنی زندگیوں کو اسلام کے دائرے میں لے کر آئیں اور اپنے مقصد وجود کو سمجھنے کی کوشش کریں۔تب ہی جاکر ہم دنیا میں بھی کامیاب ہوسکتے ہیں اور آخرت میں بھی اللہ تعالی ہم سے سے راضی ہوگا ۔