تحریر: گلشن رشید لون
ریسرچ اسکالر، شعبہ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی
راجوری جموں و کشمیر
اگر تم شمس کی طرح چمکنا چاہتے ہو
تو پہلے شمس کی طرح تپنا سیکھو
ہر انسان کی کامیابی کے پیچھے کسی نہ کسی شخصیت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ جس کی دی ہوئی تربیت صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے انسان ترقی کی منازل طے کرتا ہوا منزل مقصود تک پہنچتا ہے۔ در اصل وہ شخصیت استاد ہوتا ہے۔ انسان اپنی ماں کی گود سے لے کر قبر تک مسلسل علم حاصل کرتا رہتا ہے۔ مادر علمی سے لے کر اسکول اور پھر فن تربیت حاصل کرنے کے بعد حصول روزگار میں بھی استاد کی دی ہوئی تربیت کا انسان کی کامیابی میں اصل کردار ہوتا ہے۔
دراصل استاد کسی بھی قوم یا معاشرے کا محسن اورمعمار ہوتا ہے اور استاد ہی وہ عظیم ہستی ہے جو وطن کی تعلیم کا فریضہ انجام دیتا ہے اور اس کی ہی وجہ سے ایک باشعور اور تعلیم یافتہ معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ اس لئے کہ وہ ہی قوم کو تہذیب وتمدن، اخلاقیات اور معاشرتی اتار چڑھاؤ سے واقف کرواتا ہے۔ اگر ہم ایسا کہیں کہ استاد کا مقام کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ کسی بھی قوم کا مستقبل اس قوم کے استاد کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ استاد ہی قوم کی تربیت کرتااور وہی اس کو بناتا اور سنوارتا ہے۔
انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کی پہلی استاد اس کی ماں ہوتی ہے۔ اور پھر جب کچھ بڑا ہوتا ہے تو اسے مدرسے یا اسکول میں داخل کرا دیا جاتا ہے اس وقت وہ بچہ ایک معمولی پتھر کی طرح ہوتا ہے جسے استاد تراش تراش کر ہیرا بنا دیتا ہے۔اسے دنیا میں آگے بڑھنے کا اور دنیا میں ترقی حاصل کرنے کا سہی راستہ دکھاتا ہے اور سہی معنوں میں انسان کو انسان بناتا ہے اچھے اور برے کی، سہی اور غلط کی پہچان کرواتا ہے۔ او را ستاد ہی مینار نور ہے جو اندھیرے میں راہ دکھاتا ہے اور بچوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کے نور سے روشن کراتا ہے وہ ایک سیڑھی کی طرح انسان کو بلندی پر پہنچاتا ہے۔ استاد ایک بیش قیمتی اور انمول تحفہ ہے کیونکہ انسان کی روحانی تربیت استاد کے ذریعہ ہی ہوتی ہے جس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔
استاد ہی وہ شخصیت ہے جو تعلیم وتربیت کا محور ہے ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں ”استاد حقیقت میں قوم کے محافظ ہیں کیونکہ استاد ہی قوم اور نسلوں کو سنوارتے ہیں اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بناتے ہیں۔
استاد کا فرض سب فرائض سے زیادہ اہم اور مشکل ہے۔ کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کا ذمہ اس کے سر ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت پر منحصر ہے۔ استاد فروغ علم کا ذریعہ ہے اور علم کی راہ پر منزلوں کا حصول استاد کے بغیر ممکن ہی نہیں۔اسی لئے حضرت علی نے فرمایا”جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا وہ میرے استاد کا درجہ رکھتا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ استاد بادشاہ تو نہیں ہے لیکن وہ بادشاہ بناتا ہے۔
میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالی نے مجھے ایک ایسے استاد محترم سے ملوایا جو بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں۔ وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ ایسے شخص ہیں جنہوں نے مدینہ منورہ جیسی پاک زمین میں بہت سال گزارے انہو ں دوحہ قطر میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ اور وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ ”ڈاکٹر شمس کما ل انجم“ہیں، جی ہاں! وہی ڈاکٹر شمس کمال انجم جن کا کلام آپ لوگ اکثرکسی نہ کسی میگزین یا کسی نہ کسی اخبار میں ضرور پڑھتے ہیں، او رکبھی کبھی ان کے فیس بک وال سے تو کھبی واٹس ایپ کی دنیا سے۔
وہ ہیرو سے بھی کم نہیں ہیں۔ لمبے لمبے پیشانی پر گھماؤ داء بال،گیہواں رنگ اور چہرے پر گھنی داڑھی، اور ڈرسنگ اسٹائل بہت ہی کمال اور خوبصورت، جو ان کی شخصیت میں چار چاند لگاتے ہیں اور جب وہ چلتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتاہے جسے خود سورج زمین پر اتر کر دنیا کی سیر کر رہا ہو۔ ان کے قدموں کی آہٹ سن کر ڈیپارٹمنٹ میں بھاگم بھاگ مچ جاتی ہے اور مارے ڈر کے سارے بچے ادھر ادھر چھپنے کے لئے بھاگ جاتے ہیں۔ لیکن باوجود ڈر کے بچے ان سے بے پناہ محبت اور عزت کرتے ہیں۔ویسے تو وہ بہت کم ہنستے ہے مگر جب ہنستے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جسیے شبنم کے قطرے کس گلاب پر چمک رہے ہوں اور جب بولتے ہیں تو ان کے باتو ں سے پھول جڑتے ہیں، ان کے لہجے میں کبھی کبھی سختی تو کبھی کبھی نرمی چھلکتی ہے۔ لیکن وہ بے وجہ سختی نہیں کرتے۔ جہاں سختی کی ضرورت ہوتی ہے وہاں سختی سے کام لیتے ہیں۔ وہ اپنی باتوں سے بچوں کو اچھی باتیں سمجھانے کے لئے اپنی زندگی کے اہم تجربات ان کے سامنے بیان کرتے ہیں تو وہ باتیں سیدھے دل کی تاروں کو چھیڑتی ہیں کیونکہ ان کی باتیں حکمت سے بھری ہوتی ہیں۔ وہ ہر بات میں کما ل کے ساتھ ساتھ جمال بھی رکھتے ہیں۔اور جب میری پہلی بار ان سے ملاقات ہوئی تو اس وقت مجھے پتا چلا کہ استاد ایسے بھی ہوتے ہیں جو پہلی ملاقات میں دل جیت لیتے ہیں۔ اور میں اسی وقت سے ان سے متاثر ہوا اور میرے دل میں ان کے لئے عزت وعظمت اسقدر بڑھ گئی کہ آج تک ان کے سامنے نظریں اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
ان کی جوشیلی تقریریں بند ذہنوں کو کھول دیتی ہیں، آنکھوں سے پردے ہٹا دیتی ہیں اور دل کے دروازے کشادہ کرتی ہیں۔ اور وہ ہر کام پورے لگن،ایمانداری،امانت داری اور ذمہ داری کے ساتھ کرتے ہیں اور ہمشیہ punctual رہتے ہیں،جب سے میں نے اس یونیورسٹی میں قدم رکھا ہے تب سے لے کر آج تک میں نے ان کو ایک دن بھی غیر حاضر نہیں پایا۔ اپنے شعبہ کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کی بہبودی کے لئے ہمشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ اور بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے ان کو دعا بھی دیتے ہیں اور ان سے محنت کرواتے ہیں تاکہ وہ اس قابل بن جائیں تاکہ وہ آنے والے کل میں دنیا سے مقابلہ کر سکیں۔ ہر فیلڈ میں ایسی پختگی سے کام انجام دیتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے ہر کام میں ماسٹرس کیا ہو یا ہر کام کے ماہر ہوں۔ اور ان کے اچھے اخلاق اور کردار بے ساختہ ان کی باتوں ان کے رہن سہن ان کے کام اور ان کے ہر عمل سے جھلکتے ہیں۔ میرا خیال ہے اگر ہر ایک استاد ڈاکٹر شمس کمال انجم جیسا ہو تو دنیا کہاں سے کہاں پہنچ جائے۔ میں اللہ تعالی کا ہر پل شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی نے اتنی بڑی دنیا میں، اتنے سارے لوگوں کے بیچ، میرے لئے ڈاکٹر شمس کمال انجم جسیے استاد کو چنا، اور مجھے ان کی صحبت میں رہنے اور ان سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع ملا۔ الحمد للہ۔
ڈاکٹر شمس کمال انجم سر تقریبا ۵۱ برس سے بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں ایک استاد کی حثییت سے اپنا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ استاد مقرر ہونے کے ایک سال بعد ہی ان کو اس عربی شعبہ کاصد ر مقرر کیا گیا جسے وہ ابھی تک پوری ذمہ داری سے نبھا رہے ہیں۔اور جب بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو او راسلامک اسٹڈیز کا قیام عمل میں لایا گیا تو ان کو ان دو نئے شعبوں کابھی صدر بنایا گیا۔ اور ان کی سرپرستی میں ان دو نئے شعبوں نے بھی بہت ترقی کی۔ اس سب کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر شمس کما ل انجم Provost بھی بنایا گیا۔
ڈاکٹر شمس کما ل انجم کے قلم سے ابھی تک تقریبا ۰۳ سے زائد کتابیں نکل چکی ہیں، ان کتابوں کی اہمیت نے ادب کی دنیا میں ہندوستان میں تہلکا مچا دیا ہے۔ ان کی مشہور اور مقبول کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
۱:- غبار حیات
۲:- مقالات حماد انجم
۳:- کلیات انجم
۴:-عربی نثر کا فنی ارتقاء
۵:-بلاغت قرآن کریم
۶:- تاریخ ادب عربی
۷:- جدید عربی ادب
۸:- عربی تنقید کا سفر
۹:-بلغ العلی بکمالہ
۰۱:-جدید عربی شاعری
۱۱:- حدیث عرب وعجم
۲۱:-منظر و پس منظر
۳۱:-تاریخ مدینہ منورہ
۴۱-فضائل اعمال بخاری و مسلم کی حدیث کی روشنی میں
اور ان کے علاوہ بہت سی اہم کتابیں اور بھی ہیں مگر طوالت کی وجہ سے ان کا ذکر کرنا مناسب نہیں۔
سینکڑوں کی تعداد میں انہوں نے مختلف موضوعات پر ریسرچ پیپر اور مقالے لکھیں ہیں جو عالمی اور قومی میگزینوں میں شائع ہو چکے ہیں۔انہوں نے نیشنل اور انٹرنیشنل سیمنار اور کانفرنسوں میں بھی شرکت کی۔ اور ان کی سرپرستی میں عربی شعبہ میں نیشنل اور انٹرنیشنل سیمنار اور کانفرنس منعقد ہوئیں۔تو شعبہ اردو اور اسلامک اسٹڈیز میں بھی سیمینار منعقد کروائے۔
ڈاکٹر شمس کمال انجم ہندوستان کے مشہور و معروف شاعر بھی ہیں، اور انہوں عالمی،قومی اور ریاستی مشاعروں میں اپنے کلام سے سامعین کو متأثر کیا۔اور جس بھی مشاعرے میں جاتے ہیں اس مشاعرہ کو لوٹ ہی لیتے۔انہو ں نے اپنی سرپرستی میں کامیاب مشاعرے کرائے۔جن مشاعروں نے بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی میں ایک تاریخ رقم کردی۔
ڈاکٹر شمس کما ل انجم سر کو ان گنت اعزازات سے نوازا گیا ہیں،وہ اپنے آپ میں ہی ایک اعزاز ہیں، مجھے سمجھ نہیں آتا ہے کہ میں ان کے کس کس پہلو پر بات کروں؟وہ اتنی ساری خوبیوں کے مالک ہیں کہ اس چھوٹے سے مضمون میں ان کی خوبیوں کو بیان کرنا ناممکن ہیں، یہ ایسا ہی ہے کہ جسیے سمندر کو کوذے میں بند کرنا ہے۔ اگر میں ان کی شخصیت کے بارے میں لکھنے کی کوشش کروں تو برسوں لگ جائیں اور اس کے بعد بھی اس بات کا خدشہ رہے گا کہ میں نے پورا لکھابھی ہیں یا نہیں۔ اور ان شاء اللہ آگے چل کر میں کوشش کروں گا کہ ان کے بارے میں کتاب کی شکل میں کچھ لکھوں تاکہ آپ سب بھی ایسی شخصیت سے استفادہ کر سکیں۔
ڈاکٹر شمس کمال انجم صاحب کے ساتھ مجھے کئی بار سفر کرنے کا موقع ملا اور ان کے ساتھ سفر کرنے میں مجھے جو مزہ آتا ہے وہ کسی کے ساتھ نہیں آتا،ان کا ہر سفر ادبی سفر ہوتا ہیں، ہمیشہ اچھے اچھے چیزوں کی نصحیتں کرتے ہیں ہر وقت دین کی باتیں، ادب کی باتیں کرتے ہیں، اور کبھی کبھی اپنی زندگی کے خوبصورب واقعات بیان کرتے ہیں۔
انہوں کے کبھی بھی مجھے شاگرد کی طرح ٹریٹ نہیں کیا بلکہ مجھے اپنے چھوٹے بھائی کی طرح ہمشہ ٹریٹ کرتے ہیں، کبھی ڈانٹ کر توکبھی پیار سے سمجھا تے ہیں اب بھلا ایسی شخصیت سے کوئی متأثر کیسے نہ ہو؟ کیوں کہ وہ دل جیتنے کا ہنر اچھے سے جانتے ہیں۔یہ ہیں میرے استاد محترم!شمس بھی ہیں کمال بھی ہیں اور انجم بھی، اب جس شخص کے نام میں ہی اتنا سب کچھ ہو تو سوچیں ان کی زندگی کیا ہوگی سبحان اللہ۔
میں جب بھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہوں تو بے ساختہ میرے دل سے ان کے لئے دعائیں نکلتی ہیں کہ اللہ تعالی میرے استاد محترم کو عمر داز عطا کرے علم میں برکت عطا کرے اور مجھ جیسی ناچیز کو ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ثم آمین)۔
9596434034 ([email protected])