تحریر: حافظ میر ابراھیم سلفی
بارہمولہ کشمیر
ہم سمندر کی طرح ظرف وسیع رکھتے ہیں
دل میں طوفاں چہرے پر تسکیں رکھتے ہیں
چہرے سجے سجے ہیں تو دل ہیں بجھے بجھے
ہر شخص میں تضاد ہے دن رات کی طرح
نفاق ایسے طرز عمل کو کہتے ہیں جو قول و فعل کے تضاد سے عبارت ہو۔جس میں انسان کا ظاہر باطن سے مختلف بلکہ برعکس ہو۔ اللہ رب العزت نے نفاق کو دو بنیادی اقسام میں تقسیم کردیا۔ اعتقادی نفاق اور عملی نفاق۔ اعتقادی نفاق ہی نفاق اکبر ہے جس میں مبتلا فرد اسلام کی عمارت سے خارج ہوتا ہے۔ لیکن اس نفاق کا تعلق خاص عہد نبویﷺ سے تھا کیونکہ نزول وحی کا سلسلہ جاری تھا۔اب فقط ظاہر پر ہی حکم لگادیا جائے گا۔ اعمال و افعال دیکھ کر ہی کسی خاص فرد پر حکم صادر کیا جائے گا۔ اہل مدینہ کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھنے والے ایک شخص سے جس کا نام عبداللہ بن ابی تھا، نفاق کی سنگ بنیاد پڑی۔اگرچہ نفاق کا روگ اس سے قبل بھی موجود تھا لیکن اس شخص نے اسے ایک نمایاں روپ دے کر ایک خاص جماعت کو وجود میں لایا۔نفاق کے مرض میں مبتلا افراد ایمان کا دعویٰ فقط اپنی زبانوں سے کرتے ہیں جبکہ ان کے قلوب اسکی تصدیق سے خالی ہوتے ہیں۔ بعض افراد ایسے بھی ہیں جو الوہیت و رسالت پر ایمان رکھتے ہیں لیکن آخرت پر ان کا ایمان مثل کچا مکان ہوتا ہے جسے تیز آندھی جس طرف چاہے اس طرف بکھیر دے۔نفاق کو دل کی بیماری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔منافق کی ہر ادا، ہر عمل جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔وہ کہتا کچھ اور کرتا کچھ اور ہے۔ یہ ایسا روگ ہے کہ اگر اس کا علاج وقت رہتے نہ کیا گیا، اس میں زیادتی واقع ہوتی رہتی ہے۔ جسے قرآن مقدس نے "في قلوبهم مرض، فزادهم الله مرضا” کہہ کر پکارا۔منافق کے جھوٹ کے سامنے آپ کا سچ بھی کمزور محسوس ہوتا ہے کیونکہ اس نے ایک فن اختیار کیا ہوا ہوتا ہے، جھوٹ کو مزین کرکے پیش کرنے کا فن جس کے ظہور سے آپ کا سچ بھی لاجواب ہوکر رہ جاتا ہے۔
عملی نفاق یعنی نفاق اصغر کی بات کی جائے تو عصر حاضر میں اس سے متاثرین کی تعداد حد تجاوز کرچکی ہے۔اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لئے ایسے مریض کوئی بھی حد پار کر سکتے ہیں۔اپنی خواہشات کی تکمیل اور آلام و مصائب سے تحذیر کی خاطر لوگ اس مرض کے شکار ہوتے ہیں۔دین الہی جان، مال اور وقت کی قربانی طلب کرتا ہے لیکن مفاد پرست حضرات دین کو تو ترک کرسکتے ہیں مگر دنیاوی لذات سے محروم نہیں رہ سکتے۔اقتدار کی ہوس، طلب مال کی ہوس انسان کے ایمان کو متزلزل کردیتی ہے۔
بعض منافقین ایسے بھی ہوتے ہیں جو اسلام اور کفر کے درمیان متردد ہوتے ہیں، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں اسلام کی حقانیت پر یقین کامل نہیں ہوتا۔ بعض اشخاص ایسے بھی ہیں جو قول صادق و تصدیق صادق کے باوجود رسم و رواج، آباءواجداد کے مقلد ہوتے ہیں۔ان صفات کے حاملین نفاق کے مرض میں درجہ بہ درجہ داخل ہوتے ہیں اور اصغر کو پار کرکے نفاق اکبر تک پہنچ کر اپنے ایمان کو ضائع کردیتے ہیں۔ منافقین کے بارے میں شریعت اسلامیہ نے لفظ ” السفھاء” بھی استعمال کیا ہے یعنی "خود کو اہل عقل و دانش سمجھنے اور دوسروں کو بے وقوف سمجھنے والے”۔ یہ لوگ اس قدر حیات فانی میں منہمک ہوئے ہوتے ہیں کہ دینار و درھم ہی ان کا الہہ بن گیا ہوتا ہے۔
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
شرعی قاعدہ ہے کہ "للأكثر حكم الكل” اکثر کے لئے کل ہی کا حکم ہوتا ہے۔ اس قاعدے کی روشنی میں بھی شرعی نصوص اس بات کو واضح کر رہے ہیں کہ منافقین اجماع امت اور شعائر اسلام کا برملا مذاق اڑاتے ہیں۔ نماز، روزہ، زکات، حج، صدق، ایفائے عہد، امر بالمعروف و نہی عن المنکر وغیرہ امور کو محض افسانہ سمجھ کر ٹھکراتے ہیں۔عصر حاضر میں یہ امر بالکل واضح ہے کہ لوگ اسواق کی تعمیر اور مساجد کی ویرانی کے لئے کوشاں ہیں۔کردار کا دوغلاپن اور ظاہر و باطن کا تضاد اپنے عروج پر ہے۔ منافقین کے پاس دو زبانیں ہوتی ہیں ایک سے وہ قول ایمان ادا کرتے ہیں اور دوسری سے وہ قول کفر انجام دیتے ہیں۔ اہل ایمان سے فرقت جبکہ اہل کفر سے قربت۔ معروف و منکر کے فرق سے ان کے قلوب ضعف ایمان کی وجہ سے مردہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ منافقین سازشی منصوبہ بندی اور مخفی منصوبہ بندی کے علمبردار ہوتے ہیں۔ ایام حاضر میں علماء، فقہاء، امراء کے بارے میں دین سے غافل طبقہ یہی کچھ انجام دے رہا ہوتا ہے۔اسی لئے سلف و صالحین نے اپنی تالیفات میں مخفی دینی دروس کو بھی کراہت سے تعبیر کیا ہے۔بعض نوجوان بالخصوص طلباء اس عظیم فتنے میں مبتلا ہوکر اپنی دنیا و عقبی برباد کرنے کے در پہ ہیں۔سازشی سرغنے درحقیقت شیاطین الانس ہوتے ہیں۔
محدثین کرام نے اپنی کتب احادیث میں نفاق کے متعلق ابواب قائم کئے ہیں۔علامت نفاق میں "کذب بیانی”، "دھوکہ دہیدہی” اور خیانت کو صف اول میں رکھا گیا۔ دیگر روایات میں بدزبانی کو بھی اسی فہرست میں کھڑا کردیا گیا۔موجودہ معاشرے میں یہ مہلک گناہ عادات کی شکل اختیار کرچکے ہیں جس سے ہماری دینی و اخلاق گراوٹ کا چہرہ بے نقاب ہوتا ہے۔نبویﷺ تعلیمات نے شرعی احکام، اوامر و نواھی کو بہت آسان کردیا ہے لیکن منافقین اس کے باوجود فرائض کی ادائیگی اور محرمات کے اجتناب میں سستی کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض صحیح روایات میں امت کے قراء کو بھی منافق کہا گیا ہے جو کتاب کا علم ہونے کے باوجود عملی زندگی میں فسق و فجور کے مرتکب ہیں۔روح مریض ہو تو جسم کی قوت، چہرے کی چمک بھی جاتی رہتی ہے۔نفاق کا مرض تفقہ فی الدین کی نعمت سے انسان کو محروم کردیتا ہے۔جس عظیم کتاب کا بوجھ پہاڑ بھی نہ اٹھا سکے، اسی کتاب کی آیات مبارکہ انسانی دلوں پر بے اثر ثابت ہورہی ہیں، جس سے لازم آتا ہے کہ ہمارے قلوب گناہوں کی زنجیروں کے لپیٹ میں آچکے ہیں۔
مفسرین کرام کا بیان ہے کہ نفاق اور اس سے ملتے جلتے الفاظ قرآن مقدس میں 37 بار آچکے ہیں۔ اور جگہ جگہ پر خالق کائنات نے نفاق کی مذمت کی اور منافقین کو عذاب کی وعید سنائی بلکہ یہاں تک فرمایا گیا کہ "إن المنفقين في الدرك الأسفل من النار، ولن تجد لهم نصيرا”.(سورة النساء) بعض اوقات منافقین کا شر کفار کے شر سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ کفار کا معاملہ تو اہل اسلام پر ظاہر ہے لیکن منافقین کا شر اہل ایمان پر مخفی ہے۔عبادات انجام دیتے وقت ریاکاری میں مبتلا ہونا بھی اسی مرض کی نشانی ہے۔ علماء نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ نماز میں اپنے لباس و اپنی داڑھی وغیرہ کے ساتھ کھیلنے والے بھی نفاق کے روگ میں جل چکے ہوتے ہیں۔ باتوں باتوں پر قسم و حلف اٹھانے والے، صدقہ کرتے وقت بخیلی سے کام لینے والے بھی اسی صف میں کھڑے ہیں۔ گہرائی کے ساتھ قرآن و سنت کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ افواہ بازی کا ماحول گرم کرنے میں انہی شرپسند عناصروں کا نمایاں ہاتھ ہوتا ہے۔امام شعبی رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ "اللہ کی قسم! افوا ساز لوگ دلوں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں”.نماز باجماعت سے پیچھے رہنا، اصلاح کا دعویٰ کرکے فساد فی الارض انجام دینا ان کی صفات عظمیٰ میں سے ہیں۔ان کی ترجیحات میں سے یہ بھی ہے کہ ظاہر کو مزین کیا جائے لیکن باطن و روح گناہوں کی زنگ سے آلودہ ہوچکا ہوتا ہے۔ باکلف فصاحت، چرب زبانی اور متکبرانہ گفتگو ان کی چال ہوتی ہے۔ بزرگ فرماتے تھے کہ "شہرت شیرنی کا دودھ ہے اسے وہی بچا سکتا ہے جو شیر کا بچہ ہو”
ایمان کا امتحان خلوت میں ہوتا ہے۔ اور اس مرض میں ملوث افراد اس امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں یہ خود کو متقی و پرہیز گار باور کراتے پھرتے ہیں جبکہ خلوت میں یہ ایسے قبیح اور شرمناک گناہوں کے دلدل میں گر جاتے ہیں جن کے نام سے بھی انسانی فطرت شرمسار ہوجاتی ہے۔آج کے اس پرفتن اور پر آشوب دور میں یہ خطرہ اپنی انتہا پر کھڑا ہے کیونکہ آج ہمارے ہاتھوں میں mobile phone کی شکل میں دوزخ کا سامان بھی ہے اور جنت کی کنجی بھی۔بہت خوش قسمت ہیں وہ سیدھے سادھے اور پختہ ایمان والے لوگ جو اپنے علم پر یقین کے ساتھ عمل کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ جاننے کی حرص میں شک کا شکار نہیں ہوتے۔تاریخ کے کچھ سیاہ اوراق اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ منافقین نے وقت وقت پر اسلام کی عمارت کو گرانے کی کوشش کی۔ شہادت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ، شہادت سیدنا علی رضی الله عنہ، واقعہ افک، احد کا معرکہ اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
سلف و صالحین کے فرامین پڑھ کر راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ نفاق کے روگ سے بچنے کے لئے سب سے عظیم دوا ‘علماء، صلحاء اور بزرگوں’ کی محفلیں ہیں۔کیونکہ صالحین کی صحبت سے مردہ دل حیات حاصل کرتے ہیں۔اسکے ساتھ ساتھ دعا، فرائض و نوافل کی ادائیگی، قرآن و مسنون اذکار پر پابندی انسان کو فائدہ دے سکتے ہیں۔ دوسری جانب محرمات و منکرات سے تحذیر لازمی ہے۔سلف کی کتب خصوصاً علامہ ابن قیم رحمہ اللہ، حافظ ابن رجب رحمہ اللہ پڑھنا اپنا معمول بنائیں۔ الفوائد، الداء والدواء، لطائف المعارف، جامع العلوم والحکم کا مذاکرہ کرتے رہیں۔سیدنا معاویہ بن قرہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ "مجھے دنیا و مافیہا سے محبوب ہے کہ میں نفاق سے بچ جاؤں۔ فرامین نبوی ﷺ میں اور قرآنی آیات میں نفاق کی تفصیلات بیان ہوچکی ہیں۔ طالب کو انکی طرف رجوع کرنا لازمی ہے۔
اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں نفاق کے مرض میں مبتلا ہونے سے محفوظ رکھے اور ہمارے قلوب کو دین پر ثابت قدم رکھے۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔
مصنف اسلامک اسٹڈیز کے طالبِ علم ہے اور اُن سے [email protected] یا 6005465614 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔