فہیم الاسلام
طالب علم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
میں اجڑے گلستان کے پرندوں کی آواز ہوں
میں خون میں لت پت مظلوموں کی داستان ہوں
جہاں کوچہ کوچہ تڑپ رہا ہے، جہاں ہر گلی سرخ پڑی ہے
ہر روز جہاں خون کے میلے ہے،ہر آن جہاں موت کا دہشت ہے
جہاں مایوسی ہر سو چھائی ہے،جہاں غم کے پہاڑ ٹوٹے ہے
جہاں چمن کے بلبل قفس میں ہیں، جہاں سڑکے اب ویران ہے
جہاں ماں کے لاڈلے جیلوں میں،اور بہنوں کے محافظ قبر میں ہے
جہاں باپ کا سہارا بچھڑ گیا،اور بیوی کا سر تاج اجڑ گیا ہے
جہاں معصوموں کو دہشت گرد کہے،اور روشن مستقبل تاریک میں ہے
جہاں بہنوں کی عصمت اور بھائیوں کی غیرت اغیار کے ہاتھوں لُٹتے ہے
جہاں ہر روز ہر سو خون کی ہولی ہے جہاں ہر شام شامِ ماتم ہے
جہاں بند قفس میں بیٹے ہیں اور باپ کا جنازہ اٹھتا ہے
جہاں خون کے پیاسے اقتدار پہ ہیں اور عزت کے لٹیرے منصف ہے
جہاں عزت بچانا جرم ہے اور آواز اٹھانا دہشت گردی ہے
جس ویران چمن کا میں نے ذکر کیا،جس اجڑے گلستاں کو میں نے تحریر کیا ہے
یہ کوئی اور نہیں میری اجھڑی ہوئی جنت میری وادی کشمیر ہے