رئیس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ
ارے میاں خالد کی شادی کے بارے میں آپ بالکل بھی فکر مند نہیں ہے ۔ دن بہ دن اسکی عمر بھی بڑھتی جارہی ہے۔ محلے اور گاؤں میں اسکے ہم عمروں کی شادی کب کی ہوئی ہے۔آخر کار ہمیں بھی ایک ہی چشم وچراغ ہے۔ہمیں بھی یہ دلی تمنا ہے کہ ہمارے گھر بھی کب ہمارا اکلوتا بیٹا خالد اپنی شریک حیات کو یہاں بٹھائے ۔
فیاض ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں مجھے پتہ ہے کہ خالد کی شادی کرنی ہےاور یہ بھی معلوم ہے کہ جو لڑکے لڑکیاں خالد کے ساتھ اسکول یا کالج میں پڑھتے لکھتے تھے ان سب کی شادیاں ہوئی ہے اور آج انکے بچے بھی گھومتے اور کھیلتے نظر آرہےہیں ۔
لیکن ایک بات ہے جو میں ہر وقت سوچتا رہتا ہوں ۔خالد کو ہم نے بہت پیار و محبت اور اپنی آنکھوں کی روشنی جان کر یہاں تک پہنچایا ہے۔ اسکی تعلیم اور پرورش میں ہم نے کوئی بھی کسر باقی نہیں رکھی۔ تب ہی وہ آج ایک با عزت زندگی گزار رہا ہے۔
مریم ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر روز آپ پرانی باتیں دہراتے ہو۔اب خالد کی شادی کا وقت موزوں ہے۔ جلدی سے کسی شریف لڑکی اور گھر تلاش کرو تاکہ ہم بھی اپنے نورچشم کے ہاتھوں میں مہندی لگاکر اپنا تمنا پورا کریں گے ۔
فیاض ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے بہت سے گھروں کو تباہ و برباد ہو جاتے ہوئے دیکھا ۔ جونہی گھر میں بہو پہنچی ، گھر کا سارا نظام درہم برہم ہوا۔ کبھی بہو سسرالوالوں کے ساتھ ایڈجیسٹ نہیں ہوتی ہے تو کبھی سسرال والے ہی بہو کو اپنے گھر کا فرد تصور نہیں کرتے ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گھر کے گھر برباد ہو رہے ہیں ۔ اسی لئے میں خالد کے بارے میں فکر مند ہوں ۔
مریم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا فکر مند ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ بس تم ایک اچھی لڑکی تلاش کرو اور خالد کی شادی میں اب دیر مت کرو۔
فیاض ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو آج میں اپنے دوست رشید کو ساتھ لیتا ہوں تاکہ تمہاری دلی خواہش بھی پورا ہو جائے گی۔
فیاض اور رشید نزدیکی گاؤں کے ایک متوسط طبقے کے خاندان کی ایک شریف لڑکی تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ لڑکی کے ماں باپ کے ساتھ طویل گفتگو کے بعد رشتہ طے کیا گیا۔ رشید اور فیاض شام دیر گئے گھر واپس پہنچتے ہیں ۔ انکے استقبال کے لئے مریم دروازے پر ہی انکا بے صبری سے انتظار کر رہی ہے ۔
مریم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے میاں! کیا کیا۔ ہوا آج کچھ یا پھر بھی دوبارہ پرانی کہانیاں مجھے سنانے کو ملیں گے۔
فیاض ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں آج ہم دونوں نے خالد کے لئے ایک اچھی، پڑی لکھی اور شریف لڑکی تلاش کرکے رشتہ طے کیا ۔۔۔۔۔۔
اگلے مہینے کی پندرہ تاریخ کو شادی مقرر ہوتی ہے۔ بڑی دھوم دھام سے شادی کی تقریب منعقد ہوئی ۔
چند دن بعد خالد اور اسکی شریک حیات تسلیمہ کچھ چیزیں لانے کے لئے بازار گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔
مریم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شام کا وقت بھی ہوا لیکن وہ ابھی تک واپس نہیں آئے ہیں ۔
فیاض ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصبے بھر کا سیر کیا ہو گا انہوں نے اور ٹریفک جام کی وجہ سے بھی دیر ہوجاتا ہے۔
میاں بیوی آپس میں گفتگو ہی کرتے ہیں تو خالد اور تسلیمہ نے باہر کا گیٹ کھولا ۔
مریم ۔۔۔۔۔۔۔۔ خالد ! اتنی دیر کیوں ہوئی؟
خالد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امی ! آج ہم نے پورے بازار کا چکر لگایا۔ تسلیمہ کو میں نے باغ اور دوسری تفریح گاہوں کا سیر کرایا ۔
مریم ۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اب آپ اسی میں مست رہو گے۔ آخر اپنے ماں باپ کا بھی خیال رکھا کرو جنہوں نے اپنی نیندیں حرام کی ہیں اور تم کو پالا پوسا ہے۔
خالد ۔۔۔۔۔۔۔۔ امی ! آپ دونوں بے فکر رہیں مجھے سب کچھ یاد ہے کہ کسطرح آپ دونوں نے میری پرورش کی ہے۔ میں ضرور آپکے توقعات پر پورا اتروں گا۔۔۔
خالد اپنے کمرے میں موبائل فون پہ کچھ دلچسپ ویڈیوز دیکھ رہا ہے۔ تسلیمہ نے باورچی خانے میں اپنا کام مکمل کیا ہے اور وہ بھی خالد کے کمرے میں گھس گئی ۔ خالد تسلیمہ کو یہ کہانی سناتا ہے اور دونوں پاس پاس موبائل فون پہ ویڈیو دیکھ رہیں ہیں ۔
کچھ وقت کے بعد ہی مریم نے دروازہ کھولا اور غصے سے بولنے لگی۔۔۔۔۔۔
کیا آپ دونوں کو شرم نہیں آتی ۔ اتنے وقت سے آپ کمرے میں صرف موبائل فون دیکھ رہے ہیں ۔گھر کا کوئی کام کرنے کو اب تمہیں جی نہیں لگتا ہے۔ کام کرنے کے بجائے آپ یا تو آپس میں باتیں کرتے رہتے ہو یا صرف موبائل فون دیکھتے رہتے ہو ۔ کل بھی فیاض نے آپکو سبزی کے باغیچے میں نظر مارنے کے لئے بھیجا تو وہاں بھی آپ صرف گپ شپ میں لگے تھے۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد مسجد کا امام صاحب خالد سے ملنے آیا ۔ خالد کا وہ قریبی دوست ہے۔ امام صاحب نے مریم کی ساری باتیں بغور سنی۔ امام صاحب کو خالد کی ماں کا رویہ بالکل بھی پسند نہیں آیا اور وہ خالد اور تسلیمہ کی نرم مزاجی سے بہت متاثر ہوا۔ خالد کے ساتھ گفتگو کرنے کے بعد وہ سیدھے مریم کے پاس گیا اور کہنے لگا۔۔۔
امام صاحب ۔۔۔۔۔۔۔ امی ! جیسی آپ خالد کی ماں ہے ایسی ہی آپ میری بھی ماں ہے لیکن مجھے بالکل بھی تمہارا رویہ پسند نہیں ہے۔ تمہارے اس جیسے سلوک سے خالد اور تسلیمہ کی زندگی برباد ہو جائے گی۔آپ کا پورا گھر تباہ ہو سکتا ہے ۔اگر آپ واقعی گھر میں خوشگوار ماحول بنانا چاہتی ہے اور گھر بگھاڑنے کے بجائے گھر کی ترقی چاہتی ہے تو تجھے اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا ۔ اگر خالد اور تسلیم پیار و محبت سے زندگی گزار رہیں ہیں تو تجھے اس میں خوشی محسوس کرنی چاہیے نہ کہ حسد ۔ وہ دن بھی یاد کرو جب آپ خالد کے والد کو ہر روز خالد کی شادی کرنے پر زور دیتی تھی ۔
راقم ایک کالم نگار ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے۔