تحریر: تہمینہ بشیر
خاک سے پیدا ہونے سے خا ک میں مل جانے تک زندگی میں کئی مقام آتے ہیں اور اس سفر کے دوران انسان کی راہ میں کئی اُلجھنیں اور دشواریاں درپیش آجاتے ہیں ۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ انسان کا نظریہ بھی بدل جاتا ہے۔ دراصل یہ زندگی کے وہ پل ہوتے جو انسان کو صبر کا امتحان لے کر اسے زندگی میں مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھنے کا درس دیتی ہے ۔ کامیابی اور بلندی کے لیے لازمی ہیں کہ انسان کا حوصلہ بلندہو، اس کی سوچ اور ارادے پُختہ ہو۔
زندگی مختصر ہے، اور اس مختصر سی زندگی کوبہتر انداز میں گزارنا ایک ہنرہے۔اکثرانسان اپنے مستقبل کو سنوارنے اور بہتر بنانے کے لیےاپنےحال کی زندگی کو پُر سکون کے ساتھ جینا بھول جاتےہیں۔ زندگی میں کئ مقامات آتے ہیں اورہر ایک مقام پر انسان کچھ مختلف تجربہ حاصل کر کے آگے بڑھ جاتا ہے۔ ان مقامات کے دوران کئی لوگوں سے ملاقات اورگفتگو ہوتی ہے ۔ بعض اوقات ان میں سے کچھ اشخاص ایسے ہوتے ہیں جن کے خیالات اور رہنمائی سے ہماری زندگی کافی حد تک متاثرہوتی ہیں اور یقینًا جس کا اثر ہماری زندگی میں کچھ حد تک نمایا ہوتا ہے ۔ دوران صفر ہمیں کافی مشکلوں کا سامنا بھی کرنا پڑھتا ہے ۔ لیکن جب خود پر اعتماد اور حوصلہ بلند ہو کوئی مشکل نظر نہیں آتی "راہ اُلجھن ” راہ گُلشن بن جاتی ہے ۔
ہر ایک انسان کو زندگی میں اپنا فلسفہ ہوتا ہے۔ اسی فلسفے کی بنا پر وہ زندگی کو گزارتا ہے اور اپنی مخصوص منزل کو چُن لیتا ہے۔ انسان اپنی عمر سے زیادہ زندگی میں حاصل کئے ہوئے تجربوں سے پختہ سیرت بن جاتا ہے ۔
اپنی منزل تک پہنچتے پہنچتے انسان جن راستوں سے گزرتا ہے وہ کافی یادگار اور سبق آموز ہوتے ہیں چونکہ یہ وہ سفرہوتا ہے جب انسان زندگی کی باریکیوں سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اندر چُھپی ہوئی صلاحیتوں اور صبر کو آزماتا ہیں ۔ اپنے محبوب کی طرف سے پیش آمد آزمائشوں کا وقت ہوتا ہے ۔ اور بیشک جب اُمید اللہ سےجُڑی ہو اور حوصلہ مزبوط ہوکامیابی منزل بن جاتی ہے ۔
جب انسان کے اندر اپنی پہچان حاصل کرنے کا جنون سوار ہو تو راہ میں کوئی بھی رُکاوت اس کے قدم نہیں روکتی بلکہ منزل کے تیئن مُسلسل اپنی خوج جاری رہتی ہے۔ دراصل انسان کو پہلے خود کے اندر چُھپی ہوئی صلاحیتوں کو جانچنا لازمی ہے۔ اور ان صلاحیتوں کو صحیح انداز میں تکمیل تک پہنچانے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کے لیے اُسے محنت کے ساتھ ساتھ ایمانداری ، ہنرمندی ، خوش مزاجی ،صبراور اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے۔
زندگی کا اصلی مزہ تب اُتنا نہیں آتا ہے جب انسان اپنی کوشش اور جدوجہد سے کامیابی کی طرف اپنا رُخ کرتا ہے اور خود کو منزل کے قریب پاتا ہے ۔بلکہ تب آتا ہے جب وہ اپنے مقام تک پہنچنے پہنچنے سفر طے کرتا ہے ۔ یہ وہ سفر ہوتا ہے جو اسے اپنے آپ سے روبرو کراتا ہے ، اور جب منزل مل جاتی ہے تو دنیا سے ہم روبرو ہوجاتے ہے۔
اپنی زندگی میں حاصل کیے ہوے ان تجربوں سے انسان کے اندر شعور اور ندامت جیسے صفات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اور جب انسان زندگی کا ہر ایک دن آخری اور غنیمت سمجھ کر گزارے ، وقت کی قدر کرنا سیکھیں اور ہمیشہ زندگی میں دوسروں کی ہمدردی ،دلجوئی ،خدمت گزاری کا جذبہ دل میں رکھیں تو اس سے بڑی حکمت عملی کچھ نہیں۔