قصورِ یار سے یاری نہیں جاتی
ہائے دل کی یہ بیماری نہیں جاتی
چھوڑ دیتے ہیں لب فریادِ وصل پر
آنکھوں کی آہ و زاری نہیں جاتی
خودی بھی دیتی طانائے کم عقلی
یوں محبت میں انتظاری نہیں جاتی
ہوتے ہیں جسم و روح خاک بھی
یہ اپنوں کی دل آزاری نہیں جاتی
نیند میں خواب پہ چلنا جانوں کہ
قدموں کی آہٹ ماری نہیں جاتی
ہونا یونہی ہوتا ہے فنا گرشم سے
شبنم کی وہ بے قراری نہیں جاتی
کہ مڑوں پیچھے اُن کے جانے پہ
ایسے ہمت تو ہاری نہیں جاتی
فاحد احمد انتہاؔ
واگہامہ بجبہارہ
M. No. 7006628064