تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس: سلفیہ مسلم انسٹیچوٹ پرے پورہ
رابطہ نمبر:6005465614
لباس ہے پھٹا ہوا، غبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں چِھدا ہوا، کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزار قافلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حسین ہے، نبی کا نورِ عین ہے
ماہ محرم ھجری کلینڈر کے اعتبار سے سال کا ابتدائی مہینہ ہے۔ماہ محرم اپنے ساتھ کئی فلسفے، کئی کہانیاں، کئی حقائق لاتا ہے جن کا ادراک کرنا اصحاب عقل و دانش پر لازمی ہے۔ سال کے بارہ مہینوں میں سے فقط اس ایک مہینے کو رسول کریمﷺ نے اپنی مبارک زبان سے "شھری اللہ” یعنی اللہ کا مہینہ قرار دیا ہے۔ جس سے اس کی عظمت اور فضیلت واضح ہوجاتی ہے۔ اہل علم کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ ماہ رمضان کے بعد ماہ محرم اور ماہ شعبان وہ مہینہ ہیں جن میں روزہ رکھنا نہایت ہی اجر والا کام ہے۔ماہ محرم کے روزے اللہ عزوجل کے ہاں رمضان کریم کے بعد سب سے زیادہ افضل قرار پاچکے ہیں۔ ماہ محرم حرمت والے چار مہینوں میں ترتیب نبوی ﷺ کے اعتبار سے تیسرا مہینہ ہے۔ فرمان باری تعالٰی ہے کہ، "اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) میں مہینوں کی گنتی بارہ ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے۔ ان میں سے چار مہینے ادب و احترام کے لائق ہیں، یہی درست دین ہے لہٰذا ان مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو”.(سورہ توبہ) ان مہینوں میں نہ صرف انسانی حقوق کی حفاظت کرنی ہے بلکہ دیگر مخلوقات کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنی کی ترغیب دی گئی ہے۔ بعثت نبوی ﷺ سے قبل بھی اہل عرب ان چار مہینوں کی تعظیم کیا کرتے تھے۔ ماہ ذوالحجہ میں خطبہ حجتہ الوداع کے عظیم موقع پر تاجدار ختم نبوت نے ان مہینوں کے بارے میں تاکیدی وصیت امت کو فرمائی تھی جسے امت نے چند سال گزرجانے کے بعد ہی پامال کردیا۔ یوم عاشورہ یعنی دس محرم کے متعلق صحیح صریح نصوص سے یہ بات ثابت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "مجھے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ یوم عاشورا کا روزہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔”(صحیح مسلم)
چمکا ہے یوں کربلا میں زہرا کا ماہتاب
تاریخ ڈھونڈ پائی نا اس کا کوئی جواب
شبیر اپنے خون سے جو تحریر کرگئے
دیکھی گئی جہاں میں نا ایسی کوئی کتاب
عموماً ملت اسلامیہ ان مہینوں میں فقط فقہی اختلافات میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں حالانکہ ان بابرکت شہور میں روحانی تربیت کی طرف دھیان دینا حقیقی معاملہ ہے۔ ایام محرم کے متعلق ام المومنین سیدہ صدیقہ کائنات رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ، "قریش کے لوگ دورِ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو تب بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا آپ نے حکم دے رکھا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ختم ہوگئی۔ لہٰذا اب جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے”.(بخاری و مسلم) فرضیت صیام رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ ملت اسلامیہ پر فرض تھا، پھر ہجرت کے بعد اس کی فرضیت ساقط ہوگئی۔ قریش کا دس محرم کو روزہ رکھنا اس وجہ سے تھا کہ اس دن کعبہ کو غلاف پہنایا جاتا تھا۔ (واللہ اعلم) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتح الباری میں صراحت کی ہے کہ، "دورِ جاہلیت میں قریش نے ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کیا جو ان پر بڑا گراں گزرا تو ان سے کہا گیا کہ تم لوگ عاشورا ءکا روزہ رکھو یہ تمہارے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ پھر اس وقت سے قریش عاشوراء کا روزہ رکھنے لگے”.(جلد 4 عربی)
یہ مبارک مہینہ "حق کے غلبہ اور باطل کی شکست” کا انوکھا منظر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ، "جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھا (افضل) دن ہے اور یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات بخشی (اور فرعون کو اس کے لشکر سمیت بحیرئہ قلزم میں غرقاب کیا) تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے (بطورِ شکرانہ) اس دن روزہ رکھا (اور ہم بھی روزہ رکھتے ہیں) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے (شریک ِمسرت ہونے میں) تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا”.(بخاری و مسلم ) سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ، "عاشورا کے روز یہودی عید مناتے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ تم اس دن روزہ رکھا کرو”.(متفق علیہ) حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنا اور باطل کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کرنا محرم کے بنیادی تقاضوں میں شامل ہے۔ عدل و انصاف کی کسوٹی پر اپنے آپ کو پرکھنا، مکر و فریب، جھوٹ، دھوکہ، ظلم و زیادتی جیسی مزموم اوصاف سے خود کو آزاد کرنا ہی محرم کے پیغام سے وفاداری ہے۔ فرعونی صفات کو زائل کرنا اور موسوی کردار کا احیاء کرنا ہی اس مشن سے پاسداری کی اصل راہ ہے۔
مدت سے ان آنکھوں میں جلن دیکھ رہا ہوں
ہر شخص کے دل میں ہے گھٹن دیکھ رہا ہوں
کیوں چاند کے چہرے پہ گہن دیکھ رہا ہوں
میں وقت کے ماتھے پہ شکن دیکھ رہا ہوں
ماہ محرم کے ساتھ کچھ اور عظیم واقعات جڑے ہوئے ہیں.عرب میں ایک رسم تھی کی حبشی افراد آتے اور دس محرم کو جنگی آلات کے ساتھ کھیل کود کرتے اور اپنے دشمن کو للکارتے اور اپنی طاقت کا احساس دلاتے۔ گویا یہ مہینہ اگرچہ حرمت والا ہے لیکن اسلام کی سربلندی کے لئے دشمن کے مکر و فریب سے عامتہ المسلمین کو آگاہ کرنا لازمی امر ہے۔ اسی طرح بعض اسرائیلی روایات میں آدم علیہ السلام کا توبہ، سیدنا ایوب علیہ السلام کی دعا، سیدنا ابراھیم علیہ السلام کا آگ میں اترنا بھی اسی دن واقع ہوا۔ اسی طرح نبوی ﷺ رحلت کے بعد کچھ دلخراش سانحات اس مہینہ میں پیش آۓ۔ جس میں شھادت سیدنا حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہے۔ اہل بیت پر مظالم کا پہاڑ توڑا گیا۔نبوی ﷺ وصیت کے مطابق امت کو اہل بیت کے حقوق کے متعلق پہلے ہی امت کو ڈرایا گیا تھا۔ لیکن اس وصیت کو حرفاً حرفاً کربلا کے میدان میں ملعون زندیقوں نے پامال کردیا۔ سلف تا خلف، متقدمین سے لیکر کے متاخرین تک علماء امت کا اجماع اس بات پر ہے کہ اہل بیت اطھار پر ظلم و بربریت کی داستان رقم کرنے والے افراد زندیق و ملعون ہیں۔ لیکن یہاں بھی ہمیں شریعت کے اصولوں کی پاسداری کرنی ہوگی۔ سینے میں دل رکھنے والا ہر کوئی شخص شھادت صحابہ و اہلبیت پر غمزدہ ہے لیکن یہ غم کا اظھار ان کی عملی اطاعت، ان کے اقوال و افعال کی پیروی کرنے کے ہونا چاہیے۔اسلام کے احکامات و نواھی کو اپنے اوپر لازم کرکے ان بزرگ ہستیوں سے محبت کا اظہار کیا جائے۔ غیر شرعی طریقوں کو چھوڑ کر دشمنان اسلام کے خلاف سیسا پلائی دیوار کی طرح جسم واحد بن کر مقابلہ کرنا ہے۔ اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جس طرح حسنین کریمین کے فضائل و مناکب بیان کئے جائیں بلکل اسی طرح صحابہ بالخصوص سیدنا عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی عظمت پر بھی روشنی ڈالی جائے کیونکہ ان دو بزرگ خلفاء کی شھادت بھی اسی مہینہ کے آس پاس ہوئی ہے۔ سیدنا عثمان غنی کی ماہ ذوالحجہ میں اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شھادت یکم محرم الحرام یا پھر چھبیس یا اٹھائیس ذو الحجہ۔۔ مؤرخین جن میں ابوبکر خطیب بغدادی اور امام ابن عساکر نے دیگر مؤرخین سے اختلاف کیا ہے۔
Great achievement is usually born of great sacrifice, and is never the result of selfishness.
اللہ عزوجل سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے دلوں کو صحابہ و اہل بیت کی محبت سے بھردے۔ اللہ ان کی شان بلند کرے۔ ہمارے نفوس قربان ہو ان جنتی شخصیات پر۔