سلمہ بنت رسول
طالبہ ، IEC batamaloo
بڈگام کشمیر
الله کی بے شمار نعمتوں سے ایک بڑی نعمت اولاد ہے۔سننے میں یہ معمولی سا لفظ لگتا ہے مگر اس لفظ اور نعمت کی قدر ان سے معلوم کریں جو اس نعمت سے محروم ہے۔جس طرح باقی نعمتوں کے متعلق آخرت کے دن الله تعالی سوال کرے گا،اسی طرح اولاد کے متعلق بھی الله تعالی پوچھے گا۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ ، وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ ، وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ ، أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ .
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”آگاہ ہو جاؤ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس امام ( امیرالمؤمنین ) لوگوں پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہو گا اور کسی شخص کا غلام اپنے سردار کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پرسش ہو گی۔“ــــ [ بخاری: 7138 ]
اگر اولاد کو والدین ایسی تربیت سے نوازے جو اسے نیک،صالح اور فرمانبردار بنادے تو یہی اولاد زندگی کے ہر موڑ پہ اپنے والدین کے آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گی۔والدین اگر اولاد کی تربیت میں آزادی چھوڑ یں ، اسے صحیح اور غلط، ادب اور بے ادبی،جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنا نہیں سکھائے گے تو ایسی اولاد والدین کےلئے عذاب کا باعث بن سکتی ہیں۔ایسی اولاد سے بڑھاپے میں کوئی توقع نہیں رکھ سکتے۔ایسی اولاد والدین کےلئے الله بچائے جہنم کی وجہ بن سکتی ہے۔والدین کا حق ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت کریں۔وہ انکو رسول الله ﷺ کے کردار سے باخبر کریں۔وہ انکو اس دورِ فتن میں اپنے ایمان کی حفاظت کرنا سکھائے۔ہمارے معاشرہ کا تہزیب بدل رہا ہے۔ آج چھوٹے چھوٹے بچے ے دل و دماغ فحشیات سے بھرے ہوئے ہیں ۔ اب اس کا ذمہ دار کون ہے۔۔؟
پہلے ذمہ دار والدین ہیں۔والدین آج کل اپنے کاموں میں مصروف ہوکر اپنے بچوں کے متعلق بے خبر ہیں۔اس کے متعلق ایک کشمیری شاعر کا کہنا ہے:
ماجن تہ فِکر بدلی،
مالیْن تہ فکر بدلی،
ہچھناوِ کُس شُرین ون،
لسنک مقام ہائے ہائے۔
سانن گھرن اندر روو
دینس مقام ہائے ہائے
آج صرف والدین اپنی اولاد کو بولتے ہیں،آپکو پڑھنا ہے،ڈاکٹر،انجینئر،پروفیسر وغیرہ بننا ہے۔کیا آج کے دور میں کوئی ایسا ماں باپ ہیں جو بچے کو بولے،نہیں،ہمارے بچے،آپ کو ڈاکٹر،انجینئر کے ساتھ ساتھ ایک با اخلاق،دین دار،سچ بولنے والا بھی بننا ہے۔آپ کو اس دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی ہمارا ساتھ نبھانا ہے۔آپ کو یہاں کے امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آخرت میں کامیاب ہونا ہے۔جو سخت امتحان ہوگا۔بہت ہی کم والدین ایسے ہیں۔ جو اس طرح کا خیال رکھتے ہیں مگر اکثریت ایسے والدین حضرات کی ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کا کردار،مستقبل خود تباہ کیا۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب والدین کیسے اپنے بچوں کو اس دور میں انکا کردار اور مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ بچے کو اگر بچپن ہی میں ایسی تعلیم و تربیت سے نوازا جائے جو اسے ایک صالح اولاد بنادے تو یہ سب سے زیادہ بہتر ہے۔اسکی مثال ایک عمارت جیسی ہے۔اگر عمارت کی بنیاد کمزور ہو پھر اس پہ ہم کتنی ہی مضبوط،خوبصورت عمارت کھڑا کرے وہ ایک دن گرے گی۔اسی طرح اگر والدین اپنی اولاد کی بنیاد میں کمی چھوڑیں پھر اس کی تعلیم پہ لاکھوں پیسے خرچ کرے۔لیکن کمی رہنے کے سبب اس بچے پہ کوئی اثر نہیں ہوگا۔جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو الله تعالی نے اسکا رزق اسکی ماں کا دودھ رکھا ہے۔مگر آج ہماری تہذیب نے ایک ماں کو بھی بدل دیا۔وہ بچے کو اپنے دودھ کے بجائے پاؤڈر والا دودھ اسلئے پلا دیتی ہے کہ کئی اسکی خوبصورتی میں کمی نہ ہوجائے۔الله تعالی ارشاد فرماتا ہے:
وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ ــــ [ البقرة: 233]
اور مائیں اپنی اولاد کو دودھ پلائیں۔
ماں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی اولاد کو دودھ پلاؤ۔
کاش آج کی ماں کا ذہن ان ماؤں جیسا ہوتا جنہوں نے اپنے بچوں کو محدث،اسکالر بنا دیا۔علامہ اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ماں کے بارے کسی نے سنا ہوگا۔ان کا شوہر سود کا کاروبار کرتا تھا۔اس کام سے وہ اپنے شوہر سے ناخوش تھیں۔ جب علامہ اقبال پیدا ہوئے تو انھوں نے اسے اپنا دودھ نہیں پلایا اور وجہ یہ تھی وہ نہیں چاہتی تھیں کہ انکا بچہ ایک بھی دانہ حرام کا کھائے،انھوں نے اپنے زیورات بیچ کر ایک بکری خرید لی اور اس کا دودھ اپنے بچے کو پلایا کرتی تھیں۔ایسی ماں جن کی خواہش تھی کہ میرا بچہ علماء کی صحبت میں رہے۔امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی والدہ۔جن کا شوہر انتقال کر گیا تھا۔انھوں نے اپنی اولاد کی صحیح تربیت کےلیے جدوجہد کی۔ان کی پرورش کی اور ان کو مکہ بھیجا تاکہ وہ علماء کے درمیاں اپنا بچپن گزارے۔یہ ہیں مثالی مائیں۔اس زمانے کی ماں کو بھی اپنے بچے کی تربیت ایسے ہی کرنی ہے کیونکہ آج کی تہزیب نے ہمارے معاشرے کو بگاڑ کے رکھا ہے۔ہم اپنے بچوں کو اچھے اچھے اسکولوں میں درج تو کرتے ہیں مگر انکی تربیت خود نہیں کرتے ہیں۔المیہ ہے آج بچہ دو سال کا ہوجاتا اسکو ایسے اسکولوں میں درج کرتے ہیں جہاں اس کی ذمہ داری کسی اور کو سونپتے ہیں۔جو ذمہ داریاں ایک ماں کو انجام دینی ہوتی ہیں وہ دوسری عورتیں انجام دیتی ہیں۔کیا یہ بچہ بڑا ہوکر اپنے والدین کا وفادار بن سکتا ہے۔کیا اس کے دل میں والدین کےلیے محبت ہوگی۔ ماں کا چہرہ اپنے بچے کی کتاب کا پہلا سبق ہوتا ہے۔وہ بچہ تعلیم یافتہ ضرور بنے گا مگر تربیت یافتہ نہیں۔
رہی تعلیم مشرق میں،نہ مغرب میں رہی غیرت،
یہ جتنے پڑھے جاتے ہیں،جہالت بڑھتی جاتی ہےـــ( علامہ اقبال)
الله تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَاَهۡلِيۡكُمۡ نَارًا وَّقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ عَلَيۡهَا مَلٰٓئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعۡصُوۡنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمۡ وَيَفۡعَلُوۡنَ مَا يُؤۡمَرُوۡنَ ـــ[ التحریم:6]
اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں ـــ
اس آیت میں الله تعالی ہمیں اپنی ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ان کی اصلاح کرو اور انکی اسلامی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرو۔ اپنے بچوں کو نماز،روزہ،تلاوت القرآن کی طرف متوجہ کرو۔انکو اچھائی کا حکم دوں۔انکو برائی سے روکنے کےلیے کہو تاکہ انکو بھی جہنم کی آگ سے نجات ملے۔
لیکن آج اگر ہم دیکھیں،اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو بولتا ہے کہ اپنے اہل و عیال کی اصلاح کروں۔وہ جواب میں دو باتیں بولے گا۔وہ بولتا ہے،آپ نے کتنی تربیت دی ہے اپنے بچوں کو یا بولے گا۔مجھے کیا اپنے بچوں کی قبر میں اترنا ہے،مجھے اپنا حساب دینا ہے مگر اس کو نہیں پتاہ اگر وہ کتنا بھی نیک ہو لیکن جب اسکی اولاد کو حساب ہوگی۔وہاں اسکے باپ کو بھی جواب دینا ہے۔وہ خود نماز پڑھتا تھا مگر اولاد کونہیں بولتا تھا نماز قائم کرو۔اسکی یہ نافرمان اولاد جس کے بارے میں اس نے دنیا میں بولا تھا کہ مجھے کیا اسکی قبر میں اترنا ہے یا مجھے کیا اس کے بدلے حساب دینا ہے، یہی اولاد اس باپ کےلیے عذاب کی وجہ بنے گی۔
أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 ، قَالَ : يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا ، اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ، وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ، وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ـــ [ رواہ بخاری: 2753 ]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جب ( سورۃ الشعراء کی ) یہ آیت اللہ تعالیٰ نے اتاری «وأنذر عشيرتك الأقربين» اور اپنے نزدیک ناطے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریش کے لوگو! یا ایسا ہی کوئی اور کلمہ تم لوگ اپنی اپنی جانوں کو ( نیک اعمال کے بدل ) مول لے لو ( بچا لو ) میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا ( یعنی اس کی مرضی کے خلاف میں کچھ نہیں کر سکوں گا ) عبد مناف کے بیٹو! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ عباس عبدالمطلب کے بیٹے! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ صفیہ میری پھوپھی! اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ فاطمہ! بیٹی تو چاہے میرا مال مانگ لے لیکن اللہ کے سامنے تیرے کچھ کام نہیں آؤں گا۔
وہ الله کے رسول تھے پھر بھی انہوں نے اپنی اولاد کو آگ سے بچنے کی تلقین کی۔ایک والدین اپنے اولاد کی تربیت میں بہترین کردار نبھاسکتے ہیں۔رسول الله ﷺ نے فرمایا:ہر بچہ فطرت اسلامیہ پر پیدا ہوتا ہے،پھر اسکے والدین اسے یہودی،عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں ـــ [ بخاری ]
ایک بچہ قوم کا مستقبل ہے۔اگر یہ بگڑ گیا تو کل اس قوم کا مستقبل بھی بگڑ سکتا ہے۔اپنے اولاد کی حفاظت کریں۔اس کو دنیاوی فتنوں اور آخرت میں جہنم کی آگ سے بچائے۔خود کو مثالی والدین بنائے۔اگر ہمارا بچہ دن بدن نماز چھوڑتا ہے،ہم کہتے ہیں کہ ابھی بچہ ہے سیکھے گا خود ہی۔لیکن جب ہمارا بچہ کبھی کسی امتحان میں اچھے نمبرات سے کامیاب نہیں ہوتا۔ہم اس وقت کہتے ہیں کہ کتنا بڑا ہوگیا ہے پھر بھی سب کے پیچھے رہ گیا۔جب یہ بچہ نماز چھوڑنے وقت چھوٹا تھا اب کم نمبرات لانے سے کیسے بڑا ہوا۔بہت سارے والدین اپنے بچوں کےلیے فکر مند رہتے ہیں۔انکے ذہنوں میں یہی پریشانی ہر وقت گھومتی ہے کہ کئی ہمارا بچہ کوئی غلط کام نہ کر بیٹھے۔اگر آپ چاہتے ہو کہ آپ سکون کی زندگی بسر کرے تو اپنے اولاد کی صحیح تربیت کریں۔والدین الله سے دعا گو رہیں کہ الله تعالی انہیں نیک و صالح اولاد سے نوازے۔ان کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئے۔اپنے اولاد کو اخلاقی تربیت سے نوازے۔اپنے اولاد کو ایسی تعلیم دے جس کی وجہ سے وہ شرک سے نفرت،الله پر توکل کرنا سیکھے۔اسے نماز کی تربیت دیں۔اسے کتاب و سنت کی طرف متوجہ کریں۔اسے دوست دشمن میں شناخت کرنا سکھائے۔اپنی بچیوں کو پردہ و حجاب کی طرف مائل کریں۔اس مسئلے میں دیوسی سے کام نہ لے۔دیوس ہے وہ باپ جو اپنی اہل و عیال میں غلط، فحاشی و بدکاری دیکھے مگر پھر بھی خاموش رہے اور اپنی آنکھیں بند کرے۔آپکی بچیاں جب کالج یا اسکول جائیں،انکو ایک بار اچھے سے دیکھیں کہ کئی انھوں نے ایسے کپڑے نہ پہنے جن کی وجہ سے ان کی عزت محفوظ نہ ہو۔آج ماحول خراب ہے۔رونا آتا ہے آج کے معاشرے پر۔ایک لڑکی گھر سے سج سنور کے نکلتی ہے۔اسے خوشی ہوتی ہے کہ اسکی طرف کوئی غیر مائل ہوجائے۔جب ہمارے معاشرے کے جانور اسکی عزت تار تار کرتے ہیں،وہ بے بس ہوجاتی ہے۔آجکل اکثر بچیاں بولتی ہے۔دل صاف ہونا چاہئے،پردہ کرنے سے کیا ہوگا۔کیا ہماری ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کا دل صاف نہیں تھا۔کیا سیدہ فاطمہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کاچدل پاک نہیں تھا۔یہ بات صحیح ہے دل بھی پاک ہونا چاہئے مگر اسکےساتھ ساتھ اپنی بچیوں کو دینی تعلیم و تربیت سے نوازے۔انکو بچپن سے ہی پردہ کرنے کی تلقین کرے۔انکو تنگ،باریک لباس نہ پہنائے جو فحاشی کا ذریعہ ہیں۔انکو مردوں کے ساتھ مشابہت کرنے سے روکے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ان مردوں پر لعنت کی جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں اور ان عورتوں پر لعنت کی جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں ـــ [ بخاری ]۔
اپنے بچوں کو اچھی عادات و آداب سے نوازے اور یہ سب تب ہی ممکن ہو جب والدین اپنی ساری مصروفیات چھوڑ کر صرف چھے یا چار گھنٹے اپنی اولاد کے ساتھ رہیں۔جب والدین دین دار پہلے خود بنے پھر اپنے بچوں کو بنائے۔زندگی خوبصورت ہے اور اسکا ایک خوبصورت حصہ ہمارے بچے ہیں۔یہ بچہ ایک پھول کی مانند ہے۔ اگر ہم پھول کو ہر روز پانی ڈالیں تو یہ دن بدن نکھرے گا اور اگر ہم اسے پانی نہ ڈالیں تو یہ بکھرے گا۔اسی طرح آپکی اولاد بھی ہے۔اگر آپ اسے بکھرنا نہیں بلکہ نکھرنا دیکھنا چاہتے ہے تو اسکی بہترین تربیت کریں۔
خالص ہوتا ہے وہ پیار جو والدین کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے۔
الله تعالی ہمیں نیک و صالح والدین بنائے،اور ہمیں صالح اولاد سے نوازے۔اور ہم سب کو بچوں کی بہترین تربیت کرنے کی توفیق عطا کرے۔۔۔