رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر
اسکی ڈیوٹی شہر میں تھی اور ہفتہ بعد وہ واپس گھر لوٹتا تھا ۔ ایک دن جب وہ واپس گھر پہنچا تو چاے سے فارغ ہوتے ہی بیوی نے اپنی بیماری کا ذکر کچھ اسطرح سے کیا ۔۔۔
میں کل رات سے بہت بیمار ہوں ۔ سر میں اتنا درد ہے کہ میں اب مرنا ہی چاہتی ہوں ۔ کمر میں بھی درد اور معدے کی تیزابیت نے مجھے بہت پریشان کیا ہے۔ اب میں کروں تو کیا کروں ۔۔۔
تم کبھی بھی ٹھیک نہیں رہتی ہو ۔ جب بھی میں ہفتے کے بعد واپس گھر آجاتا ہوں مجھے بس یہی سننا پڑتا ہے کہ اس میں درد، اس میں درد ۔ جب سے تم یہاں آئی ہے تب سے تم صرف بیمار ہی بیمار ہوتی ہو ۔ تم کبھی بھی نہیں کہتی ہو کہ میں آج ٹھیک ہوں ۔۔۔
شام کا کھانا کھانے کے بعد جب وہ سو گئے تو اچانک میاں کی طبیعت بگھڑنے لگی ۔ مسلسل بارشوں اور شدید سردی کے بیچ گھر پہنچتے پہنچتے وہ نزلہ ، زکام اور بخار کا شکار ہوا تھا ۔ رات بھر وہ درد جھیلتا رہا اور قے ، الٹی وغیرہ برداشت کرتا رہا ۔ اسکی بیوی میاں کا پرواہ کئے بغیر آرام کے ساتھ رات بھر سوتی رہی ۔ جب میاں نے اپنی شکایت صبح سویرے گھر کے باقی افراد کے سامنے بیان کی تو بیوی واپس بولی ۔۔۔
تم نے مجھے الزام لگایا کہ میں صرف بیماری کی شکایت روز کرتی رہتی ہوں اور کبھی ٹھیک نہیں ہوتی ہوں۔ لہذا میں نے مناسب سمجھا کہ تمہارا پرواہ نہ کرتے ہوئے تم خود ہی بیماری کی قدر جان سکو گے ۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورنمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔