تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس سلفیہ مسلم ہائرسکیندڑی پرے پورہ
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا اس جہان میں کیا
زندگی اللہ عزوجل کی نعمت عظمیٰ ہے۔ دنیاوی زندگی آخرت کی کھیت ہے، جس حسن و جمال سے اسے مزین کروگے اور وقت وقت پر سیراب کروگے، اتنے ہی عمدہ ثمرات آخرت میں پاؤ گے۔ زندگی ہر پل مشکلات سے لڑنے کا نام ہے۔ ہر کوئی یہاں کسی نے کسی آزمائش میں مبتلا ہے۔ کوئی دولت کا پیاسا تو کوئی سکون کا متلاشی۔ کوئی غربت کا مارا تو کوئی آرام سے عاری۔ خوشی اور غم، مسرت و حزن کا سلسلہ ہرآن چلتا رہتا ہے۔ دوسروں کے آلام و مصائب دیکھ کر انسان اپنے دکھ درد بھول جاتا ہے۔ کوئی دو وقت کی روٹی کا محتاج تو کوئی رات کی گزر کے لئے چھت کا خواہاں۔ کوئی کاروباری نقصان سے ٹوٹا ہوا تو کوئی غم روزگار کی تلاش میں دربدر۔ کوئی بیماریوں سے تنگ تو کوئی روحانی امراض کی لپیٹ میں۔ کہیں جدائی کی درد کو کہیں کھوۓ ہوۓ اپنوں کی تلاش۔ کہیں اولاد یتیمی کے شکار تو کہیں والدین بے سہارا۔ جس طرف بھی دیکھو، ھموم و غموم کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جہاں زمینی فضا پررونق وہاں سیاسی فسادات، جہاں سیاسی فضا پرجوش وہاں آسمانی قہر کی بھرمار۔ نہ زمین ہمارے ساتھ نہ آسمان ہمارے موافق۔ نہ بہتا ہوا پانی ہمارا ہمدرد، نہ چلتی ہوئی ٹھنڈی ہوائیں ہمارے ہمسر۔سیاسی، اقتصادی، معاشی، فضائی، طبی بحران نے انسان کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ بنی آدم پریشان، ہر کوئی در در کے ٹھوکر کھا رہے ہیں۔ ہر کوئی سکون کی تلاش میں مختلف راہوں پر چل پڑا ہے۔ انہیں راہوں میں ایک راہ ایسی ہے جس پر چل کر نوجوان ملت سکون حاصل کرنے کی غرض سے چل پڑتے ہیں لیکن عجلت پسندی اور تلبیسات کی جھال میں پھنس کر عبدی خسارے اور دائمی عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔اور یہ راہ ہے قتل نفس یعنی خودکشی۔
مقصد حیات
بحیثیت ایک مسلمان ہمارا یہ عقیدہ اور منھج ہے کہ ہماری تخلیق کے پیچھے ایک مقصد پوشیدہ ہے اور وہ ہے رب تعالیٰ کی بندگی۔ ہمیں خالق کائنات نے بے لگام نہیں چھوڑا بلکہ وقت وقت پر آسمانی صحیفے اور انبیاء کرام کو مبعوث فرما کر ہمیں اپنی منزل سے روشناس کرایا گیا۔زندگی اللہ کی ایک امانت ہے جس پر ہمارا کوئی حق نہیں۔ ہمیں اپنی حیات آسمانی نصاب کے مطابق گزارنی ہے تبھی ہم فوز الکبیر حاصل کر سکتے ہیں۔ عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات، سیاست، معشیت، قانون غرض ہماری زندگی کا ہر لمحہ شریعت کا پابند ہے۔ فرمان ربانی ہے کہ، "اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے”.(الملک) نیز فرمایا، "ہم نے انسان و جنات کو نہیں پیدا کیا مگر اپنی عبادت (بندگی) کے لیے”.(القرآن)
بزدلی کا انجام ابدی خسارہ
جیسا کہ ہم نے جان لیا کہ ہم شرعی احکامات کے مکلف ہیں تو یہ بات واضح ہوگئی کہ خودکشی ناجائز حرام ہے۔ خود كشى كبيرہ گناہ ميں شمار ہوتى ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ خود كشى كرنے والے شخص كو اسى طرح كى سزا دى جائےگى جس طرح اس نے اپنے آپ كو قتل كيا ہو گا.فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پي كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پيتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا”(صحیح بخاری) فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "تم سے پہلے لوگوں ميں ايك شخص زخمى تھا جس اور وہ اسے برداشت نہ كر سكا تو اس نے چھرى ليكر اپنا ہاتھ كاٹ ليا اور خون بہنے كى وجہ سے مر گيا، تو اللہ تعالى نے فرمايا: ميرے بندے نے اپنى جان كے ساتھ جلدى كى ہے، ميں نے اس پر جنت حرام كر دى”.(صحیح مسلم) ہماری زندگی اتنی سستی نہیں کہ آزمائش کا مقابلہ نہ کرسکے۔ زندگی کی پریشانیوں سے تنگ آکر خود کو اجل کے حوالے کرنے والا شخص کیا جہنم میں ایک گھڑی رہنا برداشت کرے گا جس جہنم کا ایندھن پتھر اور انس ہونگے۔ کیا خود کو جہلم کے حوالے کرنے والا شخص برزخی عذاب برداشت کر سکتا ہے! ہرگز نہیں.
اللہ کے وعدے برحق ہوتے ہیں
یہ حقیقت ہے کہ بشر کمزور ہے۔ ہم صبر کا دامن مضبوطی سے تھام نہیں پاتے۔ ہم مختلف شبہات میں آکر غلط فیصلے لے لیتے ہیں لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات مبارکہ ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتی، بس وہ ہمیں آزمانا چاہتا ہے کہ ہمارا ایمان کس قدر مضبوط ہے۔ اللہ کی طرف سے آزمائش، رب تعالیٰ کے بندے سے محبت کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ تو کافروں کو اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے وہ کیسے اہل ایمان کو نظر انداز کرے۔بس ہمیں صبر اور شکر کو اپنے اوپر لازم کرنا ہے۔ صبر اور شکر ایسی صفات ہیں جو انسان کو تقوی کے معیار تک لے جاتی ہیں اور پھر اللہ کا فضل بندے کے اوپر نازل ہوجاتا ہے۔ اہل قلم لکھتے ہیں کہ، "ہماری یہ دنیاوی زندگی مختلف قسم کے حادثات اور سانحات کی زندگی ہے۔ زندگی کیا ہے، حادثات اور سانحات کا ایک طوفان ہے۔ ہر وقت کسی نہ کسی حادثہ اور سانحہ کا اندیشہ درپیش رہتا ہے۔ زندگی کے معاملات میں نقصانات کے خدشے لگے رہتے ہیں، انسان مستقبل کی غیر یقینی کیفیات سے دو چار رہتا ہے اور ان اندیشوں اور خدشوں سے بچنا چاہتا ہے۔ انسان کمزور اور ضعیف البنیان ہے، وہ ان حادثات، سانحات، خدشات اور اندیشوں سے بچنے کے لئے پناہ گاہیں ڈھونڈتا رہتا ہے، لیکن اس عالم کون و مکاں میں اللہ تعالی کی پناہ گاہ سے زیادہ مضبوط اور طاقتور پناہ گاہ اسے کوئی اور نظر نہیں آتی۔ اس پناہ گاہ کی تلاش اس کی فطرت میں شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی اچانک حادثہ یا خطرہ کے وقت اس کی زبان سے بے اختیارانہ ’’اللہ‘ نکلتا ہے۔ ایسے وقت اس کو ہر سہارا تار عنکبوت محسوس ہوتا ہے، مضبوط اور قوی سہارا بس اللہ تعالی ہی کا ہوتا ہے۔”(siasat.com کی ویب سائٹ سے کچھ سطور رقم کی گئی ہیں)
بزدلوں کی ہم نشینی تمہیں برباد نہ کردے
منفی سوچ ایک ناسور ہے اور منفی سوچ رکھنے والے افراد سماج کے لئے زہر آلود خنجر کی مانند ہیں۔ ایسے افراد سے دور ہی رہیں۔ گھریلو تناؤ سے تنگ آکر، امتحان میں ناکامی ملنے پر نوجوان ملت منشیات کے دلدل میں ڈوب جاتے ہیں۔گلیوں اور سڑکوں پر اس قوم کا مستقبل ناشائستہ حالت میں پڑے ہوتے ہیں۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے؟ جو دوست آپکو منشیات لینے پر ابھارتے ہیں وہ آپکے حقیقی دشمن ہوتے ہیں۔ زندگی بہت بڑی ہے دوست۔ اپنی نظر وسیع کریں۔ اگر ایک دروازہ بند ہو جائے تو ہزار دروازے آپکے لئے مفتوح ہوتے ہیں۔ بس انہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک آپکی زندگی میں اللہ تعالیٰ کا ساتھ ہے، آپ اس دنیا کے سب سے امیر انسان ہیں اور جس دن آپ نے رب کے دربار سے کنارہ کشی اختیار کی تو سمجھ لینا نہ آپ کے بھرے دن شروع ہوگئے۔ منشیات کا بڑھتا رجحان نہ صرف ایک مذہبی معاملہ ہے بلکہ ایک اخلاقی اور سماجی مسئلہ بھی۔ مختلف drugs لینے سے آپ کے حسن و جمال پر بھی منفی اثر پڑتا ہے، تاریکیاں آپ کے چہرے سے نمایاں ہوتی ہیں، جسمانی قوت جواب دے جاتی ہے، عزم و ولولہ پھیکا پڑ جاتا ہے۔ یہ خودکشی کی وہ راہ ہے جس پر ہمارے اکثر نوجوان چل پڑے ہیں۔
ناجائز تعلقات میں دھوکا
شریعت اسلامیہ نے خواہشات کی تکمیل کے لئے نکاح کا عظیم راستہ میسر رکھا تھا لیکن ہماری society نے نکاح کو مہنگا بنادیا۔ مختلف شرائط وجود میں آچکے ہیں۔ دولت، شہرت، bank balance، بنگلہ، گاڑیاں، ذات پات جیسے شروط نکاح کرنے کے لئے نافذ کئے گئے ہیں جن کی اسلام میں کوئی حیثیت نہیں۔ اس کا منفی اثر یہ پڑا کہ ہوس کی تکمیل کے لئے محبت کے نام پر رشتے قائم کئے گئے جو بلکہ باطل اور حرام ہیں۔ یہ بدکاری کی واضح راہ ہے۔ ان حرام رشتوں میں پڑ کر پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ حلال رشتوں کی قدر نہیں رہتی۔ ثانیاً انسان کی جوانی، انسان کا مستقبل، انسان کا وقت، انسان کی شرافت اور انسان کی عزت داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اور دنیا شاہد ہے کہ ایسے ناجائز تعلقات کی ابتداء بھی رسوائی ہوتی ہے اور انجام بھی رسوا کن۔ جدید فتنوں کی وجہ سے دین دار طبقہ بھی اس نجاست میں مبتلا ہو رہا ہے، کبھی داڑھی سے انسان کو دھوکہ لگ جاتا ہے تو کبھی کسی کے پردے سے، داڑھی اور پردے کی کوئی خطا نہیں، یہ تو شعار اسلام ہیں لیکن غیر تربیت یافتہ جب اسلام کا لباس پہنتے ہیں تو بعض دیندار بھی تباہ ہوجاتے ہیں۔ خاص کر social media کے غلط استعمال سے اب دین کے نام پر حرام اور ناجائز رشتے قائم کئے جاتے ہیں۔ اولاً لڑکا لڑکی اپنے خاندان کی عزت کو نیلام کردیتے ہیں، ثانیاً ایسے رشتے زیادہ دیر ٹک نہیں پاتے بلکہ "دھوکے” کی اصطلاح جب ان پر صادق آجاتی ہے تو انجام خودکشی ہی ہوتا ہے۔ ملت کے جوانوں کو چاہیے کہ اپنے حدود میں رہیں۔ اپنے دل میں غیراللہ کی محبت نہ بسائے۔ آج ہی ایسے حرام رشتوں سے باز آجائیے اور رب کے دربار میں توبہ کیجئے۔
اللہ کی یاد دلوں کی حیات ہے
دلوں کا سکون آپکو نہ ہی منشیات میں ملے گا اور نہ ہی چین و قرار آپکو تنہائی کے غلط استعمال سے حاصل ہوگا۔ ذہنی تناؤ سے نکلنے کے لئے فقط ایک سہارا اور ایک ہی نسخہ کیمیا ہے اور وہ ہے قرآن کی تلاوت۔ ایک بار قرآن کی طرف رجوع کرکے تو دیکھ لیں، ایک بار مسنون اذکار کا ورد کرکے تو دیکھ لیں۔ ایک بار نمازوں پر پابندی کر کے دیکھ لیں۔ ایک بار رات کے اندھیرے میں تڑپ تڑپ کر اللہ کے در پر اپنا دامن بچھا کر تو دیکھ لیں۔ ہماری سوچ محدود ہے لیکن اللہ عزوجل کے خزانے نہایت ہی وسیع ہیں۔ حدیث قدسی ہے کہ، "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے یعنی میں ظلم سے پاک ہوں اور چونکہ ظلم میرے حق میں بھی ایسا ہے جیسے کہ تمہارے حق میں اس لئے میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے پس تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو علاوہ اس شخص کے جس کو میں ہدایت بخشوں پس تم مجھ سے ہدایت چاہو، میں تمہیں ہدایت دوں گا، اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو (یعنی کھانے کے محتاج ) علاوہ اس شخص کے جس کو میں کھلا دوں اور اسے رزق کی وسعت و فراخی بخشوں اور مستغنی بناؤں پس تم سب مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا اے میرے بندو! تم سب ننگے (یعنی ستر پوش کے لئے کپڑے کے محتاج ہو) علاوہ اس شخص کے جس کو میں نے پہننے کے لئے دیا پس تم سب مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم اکثر دن رات خطائیں کرتے ہو اور میں تمہاری خطائیں بخشتا ہوں پس تم سب مجھ سے بخشش مانگو میں تمہیں بخشوں گا۔ اے میرے بندو! تم ہرگز میرے ضرر کو نہیں پہنچ سکو گے تاکہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور ہرگز میرے نفع کو نہیں پہنچ سکو گے تاکہ مجھے فائدہ پہنچا سکو (یعنی گناہ کرنے سے بار گاہ صمدیت میں کوئی نقصان نہیں اور اطاعت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ دونوں کا نقصان و فائدہ صرف تمہیں ہی پہنچتا ہے چنانچہ آگے اس کی تفصیل فرمائی کہ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور تمہارے پچھلے انسان اور جنات (غرض کہ سب کے سب مل کر بھی تم میں سے کسی ایک نہایت پرہیزگار دل کی مانند ہو جائیں تو اس سے میری مملکت میں کوئی زیادتی نہیں ہو گی (یعنی اگر تم سب کے سب اتنے ہی پرہیز گار اور اتنے ہی نیک بن جاؤ جتنا کہ کوئی شخص پرہیزگار بن سکتا ہے مثلاً تم سب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی طرح پرہیزگار بن جاؤ کہ روئے زمین پر کوئی بھی ایسا شخص باقی نہ رہے جس کی زندگی پر فسق و فجور اور گناہ معصیت کا ہلکا سا اثر بھی ہو تو اس سے میری سلطنت و میری ادنیٰ سی بھی زیادتی نہیں ہو گی ) اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے، تمہارے پچھلے انسان اور جنات (غرضیکہ سب کے سب ) مل کر تم میں سے کسی ایک نہایت بدکار دل کی مانند ہو جائیں (یعنی تم سب ملک کر شیطان کی مانند ہو جاؤ) تو اس سے میری مملکت کی کسی ادنیٰ سی چیز کو بھی نہیں نقصان پہنچے گا، اے میرے بندو! اگر تمہارے پچھلے انسان اور جنات (غرض کہ سب کے سب مل کر تم میں سے نہایت بدکار دل کی مانند ہو جائیں یعنی تم سب ملک کر شیطان کی مانند ہو جاؤ تو اس سے مملکت کی کسی ادنیٰ سی چیز کو بھی نہیں نقصان پہنچے گا، اے میرے بندو! اگر تمہارے پچھلے انسان اور جنات (غرض کہ سب کے سب مل کر کسی جگہ کھڑے ہوں اور مجھ سے پھر مانگیں اور میں ہر ایک کو اس کے مانگنے کے مطابق (ایک ہی وقت میں اور ایک ہی جگہ ) دوں تو میرا یہ دینا اس چیز سے جو میرے پاس ہے اتنا ہی کم کرتی ہے جتنا کہ ایک سوئی سمندر میں گر کر (اس کے پانی کو کم کرتی ہے) اے میرے بندو! جان لو میں تمہارے اعمال یاد رکھتا ہوں اور انہیں تمہارے لئے لکھتا ہوں، میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا، پس جو شخص بھلائی پائے (یعنی اسے اللہ تعالیٰ کی نیک توفیق حاصل ہو اور عمل خیر کرے ) تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے اور جو شخص بھلائی کے علاوہ پائے یعنی اسے اللہ تعالیٰ کی نیک توفیق حاصل ہو اور عمل خیر کرے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے اور جو شخص بھلائی کے علاوہ پائے یعنی اس سے کوئی گناہ سرزد ہو تو وہ اپنے نفس کو ملامت کرے کیونکہ اس سے گناہ کا سرزد ہونا نفس ہی کے تقاضہ سے ہوا۔ (مسلم)
غم جدائی بڑا درد دیتا ہے
یہ غلط قدم اٹھانے سے پہلے ایک بار تمہیں اس ماں کا خیال نہیں آتا جس نے اپنی بصارت تمہاری پرورش میں گنوائی۔ کیا تمہیں اس فرشتے صفت باپ کا خیال نہیں آتا جس نے اپنی پوری قوت تمہارے مستقبل کو بنانے میں قربان کردی۔ ایک بار تمہیں اپنی بیٹی کا خیال نہیں آتا جس نے تمہارے سہارے خوابوں کی عمارت تعمیر کی ہے۔ کیا تمہیں اپنی بہن کا خیال نہیں آتا جس نے اپنے ہاتھوں میں تمہارے بھروسے مہندی سجا رکھی ہے۔ تمہاری ضرورت ہے دنیا کو۔۔۔۔۔ ذرا ہوش میں آؤ۔
افسوس سے پہلے قدر کرنا سیکھیں
خودکشی کی بڑھتی شرح کے پیچھے ان لوگوں کا بھی ہاتھ ہے جو اس ٹوٹے ہوئے شخص کو اپنی زہریلی باتوں سے مزید بکھر کے رکھ دیتے ہیں۔ جب بندہ قبر میں چلا جاتا ہے تب جاکر اسکی قدر آتی ہے لیکن وہ قدر فقط افسوس ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کا سہارا بننے کی کوشش کریں۔ ایک دوسرے کا دکھ درد دور کرنے والا بنیں۔ انسانیت تو نام ہی اسی جذبے کا ہے۔ کبھی آپکی کی بات کسی کی دنیا اجاڑ سکتی ہے۔لوگوں کو قبروں میں آباد نہ کریں بلکہ اپنے دلوں میں انہیں جگہ دیں۔
آخرت کو ترجیح دیں
اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں۔ مسلمان سست اور کاہل نہیں ہوسکتا۔محنت کرنا لازمی ہے لیکن نتیجہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ آخرت کو دنیا پر ترجیح دیں، زندگی آسان ہو جائے گی۔ فرمان ربانی ہے کہ، "جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا او ر جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔“(القرآن)
نبوی ﷺ وصیت یاد رکھیں
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ارشاد فرمایا، "کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ”.یعنی ‘دنیا میں ایک اجنبی یا ایک مسافر کی طرح رہو۔’
اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے”إِذَا أَمْسَیْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الْمَسَائَ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِکَ لِمَرَضِکَ ، وَمِنْ حَیَاتِکَ لِمَوْتِکَ”.
’’ جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار مت کرو اورجب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار مت کرو۔ اور تندرستی کی حالت میں اتنا عمل کر لو کہ جو بیماری کی حالت میں بھی کافی ہو جائے۔اور اپنی زندگی میں اس قدر نیکیاں کما لوکہ جو موت کے بعد بھی تمھارے لئے نفع بخش ہوں۔‘‘(صحیح بخاری)
“People commit suicide because they think they have lost their prestige, their status. Who has time to think about your prestige? Everybody is entangled with their own problems, with their own mind. They can’t step out of their own mind, where do they have the time to think about you? These types of tendencies come because you think others are going to disrespect you. It is worthless to worry about what society thinks of you.”
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری دنیا اور عقبیٰ آباد کرے۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔
مصنف سے[email protected] یا 6005465614 پے رابطہ کیا جاسکتا ہے.