شہاب حمزہ
رابطہ – 8340349807
ماحولیات کے تعلق سے اپنی بیش قیمتی خدمات انجام دینے والے نوبل انعام یافتہ کینیا کے بنگاری متھائی نے ایک موقع پر کہا تھا کہ انسان اسی وقت مہذب ہو سکتا ہے جب اس کی گہری دوستی جنگلوں سے ہو ۔ جب تک انسانوں کو قدرت سے محبت نہ ہو انسان ہر گز مہذب نہیں ہو سکتا ۔ بنگاری متھائی کی یہ بات بھلے ہی لوگوں کی تہذیب یافتہ ہونے کا پیمانہ نہ ہو لیکن انسانوں کی بقا کے لیے انسانیت کا تقاضا ضرور ہے ۔
آج کے موجودہ ماحول میں ان کی اس بات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ عام طور پر لوگوں کو دنیا کے حالات کی کوئی فکر نہیں ۔ اپنی آرام و آسائش اور ضروریات کی تکمیل کے لیے جنگل کے جنگل صاف کر دیے جا رہے ہیں ۔ آج انسان اگر کسی چیز کا سب سے بڑا دشمن ہے یقیناً درختوں اور پیڑوں کا ہے ۔ کبھی ترقی کے نام پر تو کبھی نئی بستیاں بسانے کی غرض سے درختوں کی شہادت پیش کی جارہی ہے ۔ دہی علاقوں میں کاشت کاری کے لئے جنگل کے حصوں کو صاف کر دیا جانا عام بات ہے ۔ زراعت یقینا ضروری ہے لیکن اس کے لیے پیڑوں اور جنگلوں کو کاٹنا کتنا مناسب ہے یہ غور کرنے کا مقام ہے ۔ انسان اپنی جہالت کی آگ پیڑوں کو کاٹ کر بجھا رہا ہے ۔ دنیا کی بڑھتی ہوئی اوسط درجہ حرارت کے سبب آئے دن دنیا بھر کے کئی جنگلوں میں آگ لگ جانا ایک عام بات بن کر رہ گئی ہے ۔ جو یقینا مستقبل کے لیے خطرے کی علامت ہے ۔
ایک حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق محض ہر دو سکنڈ میں ایک فٹ بال گراؤنڈ کے برابر جنگل کاٹ دیا جاتا ہے۔ غور کریں کہ کس رفتار سے ہماری دنیا پیڑ پودوں سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ جنگلات اس دنیا میں ہماری زندگی کی ضمانت ہے ۔ ان کی حفاظت نہ ہونے کے سبب آج ہم بے موسم کی برسات دیکھ دہیں ہیں ۔ آئے دن طوفانوں کا آنا یقینا ہماری بے توجہی کی علامت بھی ہے۔ شدت کی گرمی آج پوری دنیا کی مقدر بنی ہوئی ہے ۔ کئی جگہوں پر لوگوں کا جینا محال ہو رہا ہے ۔ پانی کی کمی دنیا کے ہر خطے میں دیکھی جا رہی ہیں ۔ اکثر ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ تیسری جنگ عظیم کا سبب پانی ہی بنے گا ۔
لیکن یہ حیرانی کی بات ہے کہ انسان اس کے لئے خود کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا ہے۔ جس طرح انڈر گراؤنڈ واٹر کا بیجا استعمال کیا جا رہا ہے یہ مستقبل قریب میں ہمارے لیے عظیم خسارہ کا سبب ہوگا ۔ ندیوں کی آلودگی کو انسان اپنی شان سمجھ رہا ہے ۔ کارخانوں کے کوڑے ندی میں ڈالے جا رہے ہیں آخر اس کا اثر کیا ہوگا کبھی ہم نے نہیں سمجھا اور سوچا ہے ۔ جس ملک میں بے شمار لاشیں ندیوں میں بہتیں ہوں وہاں پانی کی آلودگی کے بات بھی بے معنی معلوم پڑتی ہے ۔ کل کارخانے اور موٹر گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں ہماری ہواوں کو اس قدر زہر آلود کر دے رہی ہیں کیا آنے والے وقت میں سانس بھی محال ہو جائیں گی۔ پوری دنیا اپنے سانسوں کو فلٹر کر رہی ہے ۔ احتیاط کے نام پر ہی سہی لوگوں نے اپنا چہرہ ڈھک لیا ہے ۔ کیا پتا عالمی وبا موجودہ کرونا وائرس ہمارے ذریعے کئے گئے آلودگی کا ہی نتیجہ ہو ۔ ضروری ہے کہ ہر انسان اپنی ذمہ داری سمجھیں ۔ تبھی حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔
امریکا، چین اور برطانیہ سمیت دنیا کے دس ملکوں کے ماہرین ماحولیات نے مشترکہ بیان جاری کر بدترین خدشات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آنے والے چار برسوں میں یعنی 2025 تک اوسط درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری تک اضافہ ہونا ممکن ہے۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ماحولیات کے ماہر لین حرمینشن کے مطابق 1850 سے 1900 کے درمیان جو دنیا کی اوسط درجہ حرارت تھی اس کے مقابلے موجودہ وقت میں 1.5 ڈگری ٹمپریچر میں اضافہ ہوا ہے ۔ یعنی تقریبا 120 برسوں میں یہ اضافہ درج کیا گیا ہے ۔ جبکہ دس ممالک کے ماہرین کی تازہ رپورٹ کے مطابق محض پانچ سالوں میں 1.5 ڈگری اوسط درجہ حرارت میں اضافے کے امکانات ہیں ۔
عبرت کا مقام ہے کہ موجودہ لوگ اپنی دنیا کو کس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ ہم اپنی آشائش اور خواہشات کی تکمیل میں کس قدر اندھے ہو چکے ہیں ۔ نہ تو ہمیں اپنی فکر ہے اور نہ ہی مستقبل کی۔ ذرا غور کریں ہم آنے والی نسلوں کیلئے کیا چھوڑ رہے ہیں ۔ آج ماحولیات کی تیئں جو کچھ بھی اس دنیا میں ہو رہا ہے یقینا اس کے لئے انسان ہی ذمہ دار ہیں ۔ ہماری نادانی اور عدم بیداری وقت سے پہلے دنیا کو تباہ کرنے پر آمادہ ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی سطح پر ایک منظم طریقے سے ہے پوری دنیا میں بیک وقت بیداری مہم چلائی جائے ۔ اور جو دو روز نہیں بلکہ کم از کم ایک برس کی ہو ۔ شہروں سے کہیں زیادہ اس مہم کی ضرورت دہی علاقوں میں ہے ۔ دور دراز کے گاؤں میں ہے۔ جنگلوں اور ندیوں جیسے قدرتی خزانوں کے قریب بسنے والے لوگوں کے درمیان اس بیداری کی زیادہ ضرورت ہے ۔ آج عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر شجر کاری اور ماحولیات کے تحفظ کا عظیم عزم ہونا چاہیے کہ آج ہم ماحولیات کی حفاظت کچھ اس طرح کریں کہ والی نسلوں کو کم سے کم زندگی کی سوغات دے سکیں ۔