ڈاکٹر عقیلہ
7006979242
اسسٹینٹ پروفیسر،
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، راجوری
یہ کہانی اس وقت کی ہے جب امریکہ اور ویتنام کے درمیان جنگ ہو رہی تھی۔ چاروں طرف بم گولے برس رہے تھے۔ گولیوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ آسمان سے فائٹر پلین گولے برسا رہے تھے۔ چاروں طرف آگ ہی آگ برس رہی تھی۔ دونوں ملکوں کے جوان مارے جارہے تھے اور جنگ تھی کہ تھمنے کانام نہیں لے رہی تھی۔ امریکی فوجیں مسلسل ویتنام کی سرحد کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ تبھی آسمان سے ایک فائٹر پلین ویتنام کی سرحد میں گھسنے کی کوشش کررہا تھا جسے ویتنامی ٹینک نے شوٹ کیا۔ اور پلین کے انجن میں آگ لگ گئی۔ جس کی وجہ سے پلین ڈسبیلنس ہوکرویتنام کے جنگلوں میں کہیں دور جاکر گر گیا۔ لیکن پائیلٹ کسی طرح زندہ بچ گیا۔ وہ کافی زخمی حالت میں تھا۔ اس کے جسم سے خون بہ رہا تھا۔
ادھر ویتنامی فوجیں پائیلٹ کو پاگل کتوں کی طرح جنگل میں تلاش کر رہی تھیں۔ انھیں پلین تو مل گیا لیکن پائیلٹ نہیں ملا۔ وہ کسی بھی صورت میں پائیلٹ کو تلاش کرلینا چاہتے تھے۔اس کے لئے پورے جنگل میں تلاش جاری تھی۔ پائیلٹ نے جب ویتنامی فوجیوں کی آہٹ سنی تو اس نے شدید زخمی ہونے کے باوجود اپنے جسم کو پوری طاقت سے کھینچا اور کسی بڑے پتھر کے نیچے خود کو چھپا لیا۔فوجی پائیلٹ کو ویتنامی تلاش کرنے میں ناکام ہوگئے تو وہ تھگ ہار کر واپس چلے گئے۔
پائلیٹ کو چھپے ہوئے کئی دن گذر چکے تھے ایک تو وہ بہت زخمی تھا اور بھوک سے بھی اس کا برا حال تھا۔ اس نے بہت کوشش کے بعد اپنے آپ کو پتھر سے باہر نکالا اور وہیں جنگل میں زمین پر پڑا رہا۔ اس کے جسم سے مسلسل خون جاری تھا۔ چیلوں اور گدوں کے حملے کے ڈر سے پائیلٹ نے خود کو زمین پر پڑے سوکھے پتوں سے اپنے جسم کو چھپا لیاتھا۔ لیکن وہ کب تک چھپتا؟ جب شام ہوئی اور اندھیرا بڑھنے لگا تو خون کی مہک سے جنگلی جانوروں کا ڈر بڑھنے لگا کہ اچانک پائیلٹ کے سامنے ایک بھیڑیا آگیا۔ بھیڑیا اپنی لال لال ڈراونی آنکھوں،خطرناک نوکیلے دانتوں اور خوفناک غرانے کی آوازکے ساتھ جیوں ہی پائلیٹ پر حملہ کرنے کے لئے ہوامیں اچھلا، اچانک ایک تیر نے بھیڑیے کو مار گرایا۔ پائیلٹ نے دیکھا دور ایک لڑکی کھڑی ہے اور اس کے ہاتھ میں کمان ہے۔ وہ تیزی سے پائلیٹ کے پاس آئی اور اپنی زبان میں اس سے کہا گھبراؤ نہیں سب ٹھیک ہے۔ پھر پائیلٹ کو دیکھا کہ وہ بہت زخمی ہے۔ لڑکی نے اسے پوری طاقت سے اٹھانا چاہا لیکن جب ناکام ہوگئی تو اس نے پائیلٹ کو زمین پر پڑے سوکھے پتوں سے ڈھک کر دوڑتی ہوئی پاس کے گاؤں سے اپنے باپ کوگاڑی میں ساتھ لے آئی۔ باپ اور بیٹی نے پائیلٹ کو گاڑی میں ڈالا اور اپنے گھر لے گئے۔
گھر پہنچ کر پائیلٹ کو بیڈ پر لٹا دیا۔ اور پھر لڑکی نے اس کے زخموں کوصاف کیا۔مرہم پٹی کے بعد اس کو کھانا کھلایا۔ رات اور دن اس کی خدمت میں لگی رہی۔ جڑی بوٹی جنگل سے لاتی اور اسکا کاڑھا بنا کر اس کو پلاتی۔ دھیرے دھیرے پائیلٹ ٹھیک ہونے لگا۔ اس کے جسم میں طاقت آنے لگی تھی۔
پائیلٹ نے لڑکی کو اپنا نام ’جو‘ بتایا اور جو کے پوچھنے پر لڑکی نے اپنا نام ’روز‘ بتایا۔ جو جتنا خوبصورت تھا روز بھی گلاب کی طرح بہت خوبصورت تھی۔ رنگ گورا،آنکھیں نیلی اور لمبے سنہرے بال والی حسین وجمیل لڑکی تھی وہ۔
دن بہ دن روز کی خدمت سے جو کی حالت میں سدھار آتا جارہا تھا تو دوسری طرف سے دونوں کی محبت جوان ہوتی جا رہی تھی۔ دونوں نے محبت کی زبان کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی زبان بھی سیکھ لی تھی۔
روز جو سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔ اور وہ جو کے لئے سب کچھ کرنا چاہتی۔ دل تو وہ پہلے ہی دے چکی تھی لیکن جسم سے بھی دور نہیں تھی۔ جو بھی روز سے زندگی بھر ساتھ نبھانے کا، ہر قدم پر ساتھ دینے کا وعدہ کرچکا تھااور پھر ایک دن جو نے ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لے کر گھٹنے کے بل بیٹھ کر روز سے کہا!
”ول یو میری می؟ پلیز“
یہ سن کر روز کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے اور وہ فورا جو کے سینے سے لگ گئی۔ اور پھر دونوں خوابوں خیالوں کی دنیا میں کھو گئے۔
ادھر امریکی فوجی ویتنام کے جنگلوں میں چپکے سے گھس آئے اور جو کو تلاش کرنے لگے۔ روز ہر شام کی طرح جنگل میں جو کے لئے جڑی بوٹی تلاش کر رہی تھی۔ جڑی بوٹی تلاش کرتے کرتے کب اندھیرا ہو گیا روز کو پتا نہیں چلا۔ تبھی اچانک مریکی فوجیوں کی نظر روز پر پڑی۔ وہ اسے گھورنے لگے۔ روز فوجیوں کو دیکھ کر گھبرا گئی۔ تبھی فوجیوں نے پاگل کتوں کی طرح روز پر جھپٹنا چاہا۔ روز خود کو بچا کر جنگل میں بھاگنے لگی۔اور سارے فوجی اس کا پیچھا کرنے لگے۔
ادھر جب اندھیرا زیادہ ہوگیااور روز گھر نہیں لوٹی تو جوکو روز کی فکر ہونے لگی۔وہ روز کوتلاش کرنے کے لئے جنگل کی طرف گیا۔ہر طرف روز کو تلاش کرنے لگاکہ اچانک روز اندھیرے میں بھاگتے بھاگتے جو سے ٹکرا گئی۔ جو نے دیکھا تو وہ روز تھی۔ و ہ بہت گھبرائی حالت میں روئے جا رہی تھی۔ جو نے بار بار پوچھا!
”روز، روز، کیا ہوا“؟
روز کچھ بول نہیں پا رہی تھی بس اس نے انگلی سے سامنے کی طرف اشارہ کیا تو جو نے دیکھا کہ کچھ امریکی فوجی بھاگتے ہوئے اس کی طرف آ رہے ہیں۔روز مارے ڈر کے جو کے پیچھے چھپ گئی۔ جو نے جب دیکھا کہ فوجی بھاگتے ہوئے اس کی طرف آ رہے ہیں، تو اس نے فوجیوں کو وہیں رک جانے کا اشارہ کرتے ہوئے گرجدار آواز میں کہا!
”اسٹاپ“!
آواز سن کر سارے فوجی جہاں تھے وہیں رک گئے۔ جو نے پھر دھیرے سے روز کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے پیچھے سے کھینچا اور پھر امریکی فوجیوں کی طرف دھکیل دیا۔روز کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ جو کیا کر رہا ہے وہ بس اسے پھٹی ہوئے نگاہوں سے جاتے ہوئے دیکھ رہی
تھی۔تبھی روز نے چیختے ہوئے کہا!
”جو! پلیز مجھے چھوڑ کر مت جاؤ، تم تو مجھ سے بے پناہ محبت کرتے تھے نا“!
”ہاں! روز، مجھے تم سے ابھی بھی بہت محبت ہے لیکن ملک کی محبت سے زیادہ نہیں۔ آخر تم دشمن ملک کی ہو، تو تم بھی دشمن ہی ہوئی۔ اور دشمن کو کبھی بھی معاف نہیں کیا جاتا، کہہ کر جو نے روز کو فلائنگ کس دی اور وہاں سے چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی امریکی فوجی روز پر ٹوٹ پڑے۔ روز چیختی چلاتی رہی،
”جو!جو! پلیز ہیلپ می“اور یہ کہتے ہوئے اس کی آواز جنگل میں گونجتی رہی۔اس کی آواز سننے کے لئے جووہاں نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔