میر نیار عظم
رتنی پورہ
ہر آدمی کا اپنا اپنا ایک مخصوص لکھنے کا طریقہ ہوتا ہے ، کوئی عام الفاظ استعمال کر کے اپنی بات بالکل سلیس انداز میں سمجھا نے کی کوشش کرتا ہے ، اور دوسرا مقابلتاً مشکل الفاظ کو استعمال کر کے اپنی بات کو ذرا دھندلا بناتا ہے۔ کوئی انگریزی میں لکھنا پسند کرتا تو کوئی اردو میں ، یا ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کی ایک آدمی کی بیک وقت دونوں یا دو سے زائد زبانوں پر اچھی دسترس نصیب ہوتی ہے۔
پچھلے کئی سالوں سے میرے پڑھنے اور لکھنے کی طرف رحجان بڑھ گیا ، خاص کر کہ پڑھنے کی طرف تو اولاً میرا میلان زیادہ بڑ گیا اور پھر آہستہ آہستہ لکھنے کی اور ،اور میں نے انگریزی میں مضامین لکھنے شروع کردیئے ، اردو میں میں نے کبھی لکھنے کی کوشش نہیں کی یا پھر آج تک لکھنا نہیں چاہا مگر پڑھنا مجھے زیادہ پسند اردو ہی رہا ہے حانلا نکہ انگریزی پڑھنے یا لکھنے میں بھی مجھے لطف اتا رہا ۔
اردو زبان کے ساتھ یہ خاص قسم کا لگاؤ اصل میں تب سے شروع ہوا جب میں نے دسویں جماعت میں اپنے اسکول کے پرنسپل کے نام ایک معافی نامہ لکھا تھا جو میں نے اپنی پوری کلاس کے نمائدے کے طور پر لکھی تھی ۔ معافی ملنے کے بعد پرنسل صاحبہ نے مجھے بلا کر معافی نامے کی بےحد تعریف کی تھی اور خاص کر کہ یہ الفاظ اُن کے میں آج تک بھولا نہیں ” تم نے تو مختصر سے مگر جامع الفاظ میں سب کچھ کہہ دیا اور مجھے یقین نہیں آرہا کی یہ آپ کی لکھی ہوئی ہے ” ۔
میں نے اگر چی اردو سبجیکٹ کو اپنے مستقبل کے لئے نہیں چنا مگر میں نے اردو پڑھنا نہیں چھوڑا حانلا نکہ اردو کتابوں کا مطالعہ کرنے میں مجھے اپنے گھر والو ں کی طرف سے شدید ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا کیو کہ ایک سائنس کے طالبِ علم کا ا اس طرح کے شوق رکھنے کو وہ آوارہ گردی سے تعبیر کرتے رھے ۔ اس کے باوجود مجھے اردو زبان سے دلچسپی میں کسی طرح کی کمی نہ آئی اور دن بہ دن مجھے اردو زبان سے لگاؤ میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔
میں نے دونوں انگریزی اور اردو ناولز پڑھنے میں خاصا دلچسپی دکھائی ، یہ نہیں کی بس ناولز بلکہ دین کے متعلق ، دنیا اور دنیا میں ہورہی تغیرات ، معیشت ، سیاست وغیرہ جیسے موضوعات بھی زیرِ نظر رہیں۔ جہاں تک ناولز پڑھنے کا تعلق ہے تو یہ ہے کہ میرے لئے ناول پڑھنا ایک معمول بن چکا ۔
حال ہی میں میں نے ایک اردو کی ناول خرید لی ، چونکہ اس کو پڑھنے کے لئے میں بے حد بے تاب تھا اور بہت دوستوں سے اس کتاب کے بارے میں سنا تھا
۔” پیرِ کامل “ ، جی ہاں ” پیرِ کامل “ ۔ اس کا تذکرہ میں نے بہت بار سنا تھا اور اکثر و بیشتر نے اس ناول کو ” عمیرہ احمد ” کا شاہکار جانا ہے۔
۵۲۰ صفات پر مشتمل یہ ناول ،۲۰۰۴ میں پہلی بار اردو میں شائع ہوئی، بعد میں ۲۰۱۱ میں انگریزی میں ، ا سے عوام کی طرف سے خاصی مقبولیت حاصل ہوی۔ عمیرہ احمد پاکستان کی رہنے والی ؛ اُن کا نام دورِ حاضر کے مقبول اُدرو ناول نگاروں اور ڈراما نویسوں میں شمار ہوتا ہے۔ تقیباً 16 کتابوں کی مصنفہ ہیں ،جن میں اکثر بیشتر ناول مقبولِ عام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پیرِ کامل ناول پڑھنے سے پہلے عمیرہ احمد کی کوئی بھی تحریر کردہ ناول يا ڈراما میری نظر سے نہیں گزرا تھا اور اب پیرِ کامل کے پڑھنے کے بعد ایک بات تو طے ہوگئی کی عمیرہ احمد اور اُن کی تصانیف کے لئے میرے دل میں ایک الگ ہی مقام بنا اور میں ان کی باقی ناولز اور تصانیف کو پڑھنے کے لئے بے تاب ہوں۔
نہایت سلیس انداز میں لکھی گئی یہ ناول قارئین کو متاثر کر کے ہی چھوڑتی ہے ۔
ناول کے کھولنے پر قارئین کی نظر ان اشعار پر جا پڑتی ہے
” میرے ہاتھوں اور میرے ہونٹوں سے خوشبو جاتی نہیں
کہ میں نہ اسمِ محمد ﷺ کو لکھا بہت اور
چوما بہت “
ناول پڑھتے کسی صفحے پر میری نظر کے سامنے سے یہ جملہ گزرا کہ ” آنکھیں روح کی کھڑکی ہوتی ہیں “ ، انسان کی آنکھوں سے اس کے اندرون کا پتہ چل جاتا ہے ، ٹھیک ویسے ہی یہ اشعار پہلے صفحے پر دیکھ کر کتاب کے اندرونی مواد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر دلچسپ اور عشقِ رسول ﷺ سے بھری پڑی ہوگی۔ میرے لئے تو خیر ” پیرِ کامل “ نام ہی اس کتاب کی طرف مائل کرنے کے لئے کافی تھا۔
سالار ،۱۵۰ +ا ی کیو رکھنے والا لڑکا اور ایک لڑکی امامہ ہاشم اس ناول کے مرکزی کردار ہیں۔ امامہ ہاشم کے رول نے ، خاص کر ، ناول کو ایک الگ ہی قسم کی خوبصورتی عطا کی ہے ۔امامہ ہاشم کا تعلق قادیانی مذہب سے ہوتا ہے اور بعد میں وہ کچھ دیر علمی تحیق کر کے اصل حقیقت سے روشناس ہوتی ہے اور اپنا مذہب تبدیل کر کے مسلمان بن جاتی ہے ، وہاں سے سالار بے حد ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ اکثر بیشتر ایسی حرکتیں کر ڈالتا کہ اس کے والدین کو ذلت اور شرمند گی سے دوچار ہونا پڑتا ، ایسی ہی ایک بیہودہ حرکت ، بقُول اس کی ایڈونچر ، میں اس کی عمامہ ہاشم کے ساتھ حادثاتی طور پر ملاقات ہوئی اور یہ کہنا بلکل مناسب ہوگا کہ یہ قسمت کی ستم ظریفی تھی کی وہ دونوں کسطرح سے قریب آ تے ہیں ورنہ بظاھر ان کی زندگیاں ایک دوسرے کے بلکل متضاد ہیں۔ دونوں کا تعلق امیر کبیر گرانوں سے ہوتا ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگیوں میں ا ایسے تغیرات پیش آتے ہیں کی ان کو بلکل بدل کر رکھ دیتے ہیں۔
ان دونوں کے علاوہ بہت سے اور بھی کردار ہیں جو کہانی کو آگے لیجانے میں مدد دیتے ہیں ، خاص کر فرقان، ڈاکڑ سبط علی اور سعیدہ اما ں ۔
حق یہ ہے کی کتاب کی ضخامت کی وجہ سے میں شروع شروع میں تھوڑا گھبرا بیٹھا کہ شاید مجھ سے یہ پوری کتاب نہ پڑھی جائے مگر جوں جوں میں سالار اور امامہ کی دنیا میں اترنے لگا ، پوری کتاب پڑ ھنے تک حقیقتاً میں نے اور کوئی کتاب چھو ی تک نہ ہوگی ۔
پیر کے مل جانے پر انسان کیا سے کیا بن جاتا ہے ، کل تک بے یار و مدگار ، بے بس و بد حال اور آج اچانک سارا کچھ بدلا ہوا ، جو نہیں تھا وہ آج ہے ، جو تھا وہ آج نہیں ۔ پیر وہ بھی پیرِ کامل ، یوں کہ آدمی کی دنیا بدل جاتی ہے ، وہ دکھائی دیتا ہے جو پہلے کبھی گمان نہ کیا ہوتا ہوگا، وہ راستہ چنتا، جو پہلے کانٹو سے بھرا پڑا نظر آتا ۔ ایسا ہی کچھ سالار اور امامہ کی زندگیوں میں ہوتا ہے اور اسی پیرِ کامل کی محبت میں کوئی گھر بار چھوڑنے پر تیار اور کوئی اپنا سب کچھ۔
یہ ناول پڑھتے پڑھتے بہت بار یہ امید افزا بات یاد آئی :
”در درگاہ من نا اُمیدی نیست
صد بار اگر توبه شکستی باز آی“
اور بہت بار تو جیسے شرم سی آنے لگتی کہ
”ہماری بے وفائی پر بھی وہ اتنا پیار کرتے ہیں
اگر ہم با وفا ہوتے کو کیا ہو تے ”
سالار اور امامہ نے اسی وفا کے راستے پر چل کر
پھر ہر طرف وفا ہی وفا دیکھی۔
پیرِ کامل پڑھ کر انسان کے اندر مطلوبہ تغیر واقع ہونا چاہئے اور اس کے دکھائے ہوئی روشن راستے پر گامزن ہو کر دنیا اور آخرت کی کامیابی اور کامرانی کا سامان فراہم کرنا چاہئے۔ اسی صورت میں مصنفہ کی کاوشیں اور قارئین کا شوقِ مطالعہ منفعت بخش ثابت ہوسکتے ہے جس کے لئے اللہ سے ہروقت توفیق طلب کرنی چاہئے۔